0
Thursday 10 Feb 2011 13:43

انقلاب اسلامی ایران نے انسانیت بالخصوص امت مسلمہ کو نئی فکر اور نئی سوچ دے کر باوقار زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا،پروفیسر حسن عسکری

انقلاب اسلامی ایران نے انسانیت بالخصوص امت مسلمہ کو نئی فکر اور نئی سوچ دے کر باوقار زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا،پروفیسر حسن عسکری
 پروفیسر حسن عسکری کا شمار ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، قومی اور بین الاقوامی سیاست پر ان کے بے لاگ اور جاندار تبصرے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، اسلام ٹائمز نے انقلاب اسلامی ایران کی بتیسویں سالگرہ کی مناسبت سے ان سے خصوصی انٹرویو لیا ہے جو قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش خدمت ہے۔ 

اسلام ٹائمز:پروفیسر صاحب آپ انقلاب اسلامی ایران کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور آپ کے نزدیک اس انقلاب کے دیگر اقوام پر کیا اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔؟
پروفیسر حسن عسکری: میرے نزدیک اس انقلاب نے صحیح معنوں میں اسلامی ریاست کا تصور اجاگر کیا اور پوری دنیا کو ایک الگ اور منفرد سوچ عطا کی، جس کی بدولت ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے، پڑوسی ملک ایران میں رونما ہونے والے اس انقلاب کی بنیاد مذہب تھی، مذہب کے ذریعہ سے ہی ظالم حکومت سے نجات حاصل کی گئی اور مذہب کو ہی عالمی فلاح اور تبدیلی کے لیے استعمال کیا گیا، ایران میں ایک آمرانہ حکومت تھی اور زیادہ تر ممالک شاہ کو سپورٹ کر رہے تھے۔ لیکن اس کے باوجود شہنشاہیت عوامی طاقت کے سامنے بے بس ہو گئی، اس انقلاب سے ایرانی قوم کی سوچ اور اور نظریاتی رحجان میں بنیادی تبدیلیاں آئیں اور معاشرے کا رخ ہی بدل گیا، آیت اللہ خمینی اور آیت اللہ شریعتی نے اس انقلاب کے ذریعے دنیا کو نیا انداز فکر عطا کیا، میرے نزدیک اس انقلاب سے مسلمانیت کی بھر نمائندگی ہوئی اور اسلامی حکومت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آیا، اس لیے یہ انقلاب پائیدار ہے اور طویل عمر پائے گا۔
اسلام ٹائمز:پروفیسر صاحب آپ کے نزدیک انقلاب اسلامی کی کامیابی کا راز کیا ہے۔ ایک طویل عرصہ گزرنے کے وجود انقلاب اسلامی نہ صرف اپنی جگہ مستحکم ہے بلکہ دن بہ دن عوام میں اس کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہیں۔؟
پروفیسر حسن عسکری:کسی بھی انقلاب کے لیے اہل قیادت اور عوامی طاقت کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے ایرانی قوم کو ایسی قیادت ملی جس نے جلا وطنی کے باوجود غربت، مفلوک الحالی اور شہنشاہیت کے مظالم کی چکی میں پسنے والے عوام کے دلوں میں اعتماد پیدا کیا، انہیں مایوسیوں کی دلدل سے نکال کر ایک نیا جذبہ اور طاقت عطا کی، عوام کی سوچوں کو اس انداز میں پروان چڑھایا کہ انہیں انقلاب میں ہی قوم کا روشن اور تابناک مستقبل نظر آیا۔ انقلاب اسلامی کے بعد جن قائدین کو ریاستی امور کی ذمہ داری دی گئی انہوں نے اپنی کامیاب حکمت عملی کے ذریعہ عوام اور ریاست میں فاصلے پیدا نہیں ہونے دیئے، انقلاب سے قبل متعین کیے گئے اہداف کے مطابق عوامی امنگوں کی ترجمانی کی گئی اور کسی بھی طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو مایوس نہیں کیا گیا، معاشرے کے ایک عام فرد سے لے کر اوپر تک ہر ایک کو یکساں مراعات دی گئیں، غریبوں کے مسائل کو بہتر انداز میں اجاگر کر کے ان کے پائیدار حل کے لیے عملی اقدامات اٹھائے گئے، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نوجوان طبقہ کی اس انداز میں روحانی اور فکری تربیت کی گئی کہ وہ ایران کی سرزمین پر رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کے محافظ بن گئے۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ انقلاب عوام کے مسائل حل نہ ہونے کے سبب آتے ہیں اور عوام اس سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں لیکن اگر وہ توقعات پوری نہ ہوں اور انقلاب کے بعد بھی عوام کے مسائل حل نہ ہوں تو ایسے انقلاب خود بخود ختم ہو جاتے ہیں۔ اسلامی انقلاب سے قبل ایرانیوں کا طرز زندگی بہت مختلف تھا، وہ مصائب و آلام، مشکلات اور مسائل میں گھرے ہوئے تھے، انقلاب نے ان کی کایا پلٹ دی، عوام کا غربت کا سفر ختم ہو گیا، اور لوگوں نے سربلندی اور وقار کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کیا۔ انقلاب کے بعد بات عوامی مسائل کے حل پر ختم نہیں ہوئی بلکہ ریاست کے ذمہ داران نے ایک ٹھوس حکمت عملی کے تحت ٹیم ورک کرتے ہوئے نوجوانوں کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر کے ان سے استفادہ کیا، اور انہیں دینی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے آشنا کرنے کا راستہ اپنایا جس کی وجہ سے ایرانی قوم ہرشعبہ اور ہر فیلڈ میں ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اور اغیار کی دست نگر بننے کی بجائے خود انحصاری کے راستہ پر گامزن ہے۔
اسلام ٹائمز:پروفیسر صاحب آپ کے نزدیک انقلاب اسلامی ایران سے عالمی اقوام پر کیا اثرات رونما ہوئے اور اس نے موجودہ انقلابی تحریکوں کو کس حد تک متاثر کیا ہے۔؟
پروفیسر حسن عسکری:جہان تک میں سمجھتا ہوں، اس انقلاب نے انسانیت بالخصوص امت مسلمہ کو نئی فکر اور نئی سوچ دے کر باوقار انداز میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا ہے، چونکہ یہ ایک مذہبی انقلاب تھا اس لیے اس کے ذریعہ اسلامی عقائد اور اسلامی طرز معاشرت کو فروغ ملا اور اقوام عالم اسلام کی جانب راغب ہو رہی ہیں، آج دنیا کے مختلف علاقوں میں اٹھنے والی انقلاب کی لہر اسی انقلاب اسلامی کا تسلسل ہے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ لوگ جو ماضی بعید میں مغربی تہذیب کے دلدادہ تھے آج اسلامی عقائد سے مانوس ہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی آ رہی ہے، تیونس میں رونما ہونے والی تبدیلی، مصر میں جاری احتجاج، یمن اور اردن میں حکومت کے خلاف مظاہرے اسی انقلاب سے پیدا ہونے والی نئی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر معاشر ے کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے اور اس میں تبدیلی مزاج سے ہٹ کر نہیں لائی جا سکتی، ضروری نہیں کہ ہر معاشرے میں تبدیلی کا مزاج ایک ہو، لیکن انقلاب اسلامی کا یہ طرہ امتیاز ہے کی اس نے معاشرے کا مزاج تبدیل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کے تناظر میں عالمی افق پر رونما ہونے والی تبدیلیاں اسلامی مزاج کے مطابق ہیں۔
اسلام ٹائمز:پروفیسر صاحب یہ بتائیں کہ کیا مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیوں کو انقلاب اسلامی کے اثرات قرار دے سکتے ہیں اور مستقبل قریب میں دیگر ممالک میں انقلاب اور بیداری کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟
پروفیسر حسن عسکری:میں سمجھتا ہوں کی اسلامی دنیا میں ایسے مزید انقلاب آنے کی بات کرنا قبل از وقت ہے، البتہ مختلف ممالک کے موجودہ حالات نشاندہی کر رہے ہیں کہ امت مسلمہ انقلاب چاہتی ہے اور انقلاب کی جانب گامزن ہے، ہر خطے بالخصوص مشرق وسطیٰ کے ممالک میں آمریت کے خلاف اٹھنے والی بیداری کی لہر اگرچہ تبدیلی کی نشاندہی کر رہی ہے لیکن وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تبدیلی ایران کے انقلاب کی طرح مذہبی بنیادوں پر ہو گی، ہاں البتہ ان ممالک میں اسلامی روح کے مطابق تبدیلی کی جدوجہد کی جائے تو حقیقی انقلاب کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ دراصل وہاں کے عوام کی سوچ صرف حکومتوں کی تبدیلی تک محدود ہے، اور محض حکومت کی تبدیلی کو انقلاب کا رنگ نہیں دیا جا سکتا، حکومتں بنتی ہیں، گرتی ہیں اور پھر بن جاتی ہیں، انقلاب کے لیے معاشرے کے مزاج کی تبدیلی ضروری ہے۔
اسلام ٹائمز:پروفیسر صاحب،جس طرح عالمی طاقتیں انقلاب اسلامی ایران کو ناپائیدار بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں،آپ کے نزدیک اس کا مستقبل کیا ہے۔؟
پروفیسر حسن عسکری:اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بین الاقوامی قوتیں بالخصوص امریکہ اس نظریاتی انقلاب کا مخالف تھا اور اب بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ مخالفت کر رہا ہے، اور اس کی پوری کوشش ہے کہ ایران کو نام نہاد عالمی قوانین اور معاشی و اقتصادی پابندیوں کی لپیٹ میں لے کر عالمی برادری سے الگ کر دیا جائے۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے اس انقلاب نے ایرانی قوم میں ایک نئی سوچ اور نیا ولولہ عطا کیا ہے اس انقلاب نے عوام کو ایسی طاقت عطا کی اب وہ استکبار سے خوف زدہ ہونے کی بجائے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں، بیرونی امداد اور وسائل پر انحصار کرنے کی بجائے خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہیں اور اپنی موثر پالیسیوں سے نہ صرف عالمی برادری کے ساتھ مربوط ہیں بلکہ ہر اہم بین الاقوامی ایشو پر عالمی براداری کا ساتھ دے رہے ہیں اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اسے بیرونی طاقتوں سے خطرات لاحق نہیں، ہاں البتہ ایرانی قیادت کو اس انقلاب کی پائیداری برقرار رکھنے کے لیے اندرونی مخالفین کی سازشوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اپنی موثر خارجی پالیسیوں کے ذریعے بیرونی دنیا سے مربوط رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے داخلی امور پر بھی بھر پور توجہ دینی چاہیے، بلاشبہ انقلاب اسلامی نے ایرن کو استحکام بخشا اور بیرونی طاقتوں سے کوئی بڑا خطرہ لا حق نہیں ہے۔

خبر کا کوڈ : 54200
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش