0
Wednesday 22 Jun 2016 22:16

حکومت کی خارجہ پالیسی نے تنہا کر دیا، پاکستان کو ایران جیسی سخت پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے، سینیٹر رحمان ملک

حکومت کی خارجہ پالیسی نے تنہا کر دیا، پاکستان کو ایران جیسی سخت پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے، سینیٹر رحمان ملک
پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان رحمان ملک کسی تعارف کے محتاج نہیں، ایف آئی اے میں ملازمت شروع کی، تاہم بےنظیر بھٹو شہید کی نگاہ کرم سے ادارے کے سربراہ بن گئے۔ جب بےنظیر شہید ہوئیں تو ان کی گاڑی بھی محترمہ کے ساتھ تھی، بےنظیر بھٹو کے تحفظ کی ذمہ داری بھی رحمان ملک پر تھی۔ آصف علی زرداری نے رحمان ملک کو وزیر داخلہ مقرر کیا اور آج بھی ان کے قریبی ساتھی تصور کئے جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر ہیں، ملکی اور غیر ملکی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے رحمان ملک سے ملک کے داخلی اور خارجی حالات پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے حوالے سے چین نے پاکستان کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ اسکو کیسے دیکھ رہے ہیں جبکہ دوسری جانب بھارت بھی کوشش کر رہا ہے کہ اسے رکنیت مل جائے۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
جی میں چین کے اس فیصلہ کو بہت سراہتا ہوں کہ انہوں نے نیوکلیئر گروپ میں شمولیت کے حوالے سے پاکستان کی سفارش کر دی ہے۔ یہ بہت ہی اچھا فیصلہ کیا ہے، اپنی طرف سے، اپنی پارٹی کی طرف سے اور قوم کی طرف سے چین کے اس فیصلے کو بیحد سراہتا ہوں، چین کے اس فیصلے پر ہمیں فخر ہے، ثابت ہوگیا ہے کہ چین ہمارا ہر سیزن کا دوست ہے، میں دل کی گہرائیوں سے چینی بھائیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

اسلام ٹائمز: بھارت کے مشرق وسطٰی کے ممالک اور بالخصوص افغانستان کے ساتھ تعلقات بڑھ گئے ہیں، جبکہ افغان فورسز نے ہمارا میجر تک شہید کر دیا ہے،آپکو کیا نظر آرہا ہے۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
دیکھیں پاکستان کے خلاف مسائل بڑھ گئے ہیں، اندرونی اور بیرونی خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، میری اس مبارک مہینے میں سب سے اپیل ہے کہ اتحاد کا مظاہرہ کریں، آپ دیکھیں کہ مودی کو ہمارے دوست ایوارڈ دے رہے ہیں، چاہ بہار میں ٹرائی پارٹ جو ہماری جماعت نے ابتداء کی تھی، جو صدر زرداری نے کوشش کی تھی، وہ ہم سے چھین کر لے جا چکے ہیں۔ اس وقت جس قسم کی دھمکیاں دی جا رہی ہے، جس قسم کی انڈین آرمی افغانیوں کے ٹریننگ دے رہی ہے، میں حکومت کو مشورہ دوں گا کہ کہیں وہ دن دور نہیں جب بھارتی فورسز افغانستان آجائیں اور ہمیں وہاں سے مشکل صورتحال سے دوچار نہ کر دیں۔ میرے خیال میں امریکہ کو ایک بڑا واضح مسیج بھیجنا ہوگا، جب جنگ ہو رہی تھی یا ہو رہی ہے تو ہم نے اس میں ہزاروں جانیں قربان کرائی ہیں، ہم نے آپ کا ساتھ دیا، لیکن آج جب پاکستان کا ساتھ دینے کی باری آئی ہے تو ساری سازیشں پاکستان کیخلاف ہے، مسٹر اوباما آپ ساری نوازشیں مودی پر نچھاور کر رہے ہیں، آخر کیوں۔؟ ایک دہشتگرد جس نے گجرات میں خون کی ہولی کھیلی، اسے تو ڈرون سے ہلاک کر دینا چاہیئے تھا، لیکن اس کی آپ وائٹ ہاوس میں اتنی او بھگت کر رہے ہیں۔ کیا یہ آپ کا دہرا معیار نہیں ہے۔؟ ایک طرف آپ بات کر رہے ہیں کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف ہیں، دوسری مودی دہشتگرد کو سپورٹ کر رہے ہیں، جبکہ وہ ڈکلیئرڈ دہشت گرد ہے۔ جس طرح سے مودی کو پیار دیا جا رہا ہے، اس سے واضح پیغام دیا جا رہا ہے کہ تم ایک دفعہ دہشتگرد تھے، لیکن اب ہمارے دوست ہو۔ میرے خیال میں اب پالیسی کو تبدیل کیا جانا چاہیئے، میری صدر اوباما سے اپیل ہوگی کہ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف بہت نقصان اٹھایا ہے، ہمارے ساتھ متاثرین والا سلوک کرو۔

اسلام ٹائمز: تین چار روز قبل امریکی وفد آیا تھا، کیا وہ پاکستان کی ناراضگی دور کرنے آیا تھا۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
جی چند روز قبل جب امریکی وفد پاکستان آیا تھا تو سب خوش ہو رہے تھے، اس وقت میں نے کہا تھا کہ یہ لوگ آپ سے معافی نہیں ڈومور کا مطالبہ کرنے آئے ہیں، یہ جو ڈومور کا لگاتار بوجھ پاکستان پر ڈالا جا رہا ہے، اس سے ہمیں نکلنا ہوگا، امریکہ کے چنگل سے نکلنا چاہیے۔ ہمیں ایران والی پالیسی اختیار کرنے چاہیئے، وہی ملا منصور جب ایران میں ہوتا ہے کہ اس پر کوئی حملہ نہیں ہوتا، لیکن پاکستان آتا ہے اسے مار دیا جاتا ہے، انہوں نے ملا منصور کو ایران میں نہیں مارا بلکہ پاکستان کی سرحد میں لاکر مارا ہے۔ تو یہاں یہ سوال پیدا ہے کہ امریکیوں نے ملا منصور کو ایران میں کیوں نہیں مارا، کیونکہ ایران کی پالیسی بہت سخت ہے۔ ہمیں بذات قوم اٹھنا ہوگا۔ عجیب صورتحال ہے کہ گھر بھی ہمارا، مدد بھی ہماری اور ڈرون بھی ہم پر۔ اس کا جواب امریکہ کو دینا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ بھارت افغانستان میں فوجیں اتار سکتا ہے، اس بارے میں کیا کوئی معلومات ملی ہیں۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
جی اس حوالے سے میرے پاس معلومات ہیں، اس وقت بھی ہزاروں کی تعداد میں بھارتی فوج افغانستان میں موجود ہے، جو وہاں پر افغان دہشتگردوں کو ٹریننگ دے رہی ہے۔ سینیٹ میں بھی اس پر بریفنگ دے چکا ہوں، قندھار کے اردگرد تمام دہشتگردوں کے کیمپوں میں بھارتی فوجی موجود ہیں، جو انہیں ٹریننگ دے رہے ہیں۔ میں یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں کر رہا، جہاں ان کے لوگ ٹریننگ کیلئے آسکتے ہیں تو پاکستان دشمنی میں بھی آسکتے ہیں۔ اسلحہ سمیت ہر قسم کی مدد کر رہا ہے، بھارت ہمیں اب مغربی باڈر پر مشکل میں ڈالنا چاہتا ہے۔ میں یہاں پاکستان فوج کی بھی تعریف کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ تاہم یہ ضرور کہوں گا کہ بارشوں کے موسم میں سیلابی پانی سے بچاو کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا واقعی پاکستان اپنے ہمسائیوں میں تنہا ہوتا جا رہا ہے، یہ تاثر کتنا درست ہے۔ خارجہ پالیسی میں کہاں مشکل دیکھ رہے ہیں۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
جی دیکھیں کہ ہمارے چار میں سے تین ہمسائے خلاف ہوچکے ہیں، ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی، اسی طرح داخلی پالیسی میں جو خامیاں ہیں، انہیں بھی دور کرنا چاہیئے۔ سیاستدان ہوں، دانشور ہوں یا میڈیا سب کو اکٹھے ہوکر ایک متفقہ رسپانس دینا ہوگا، جہاں تک آپ کا سوال ہے کہ خارجہ پالیسی میں کہاں مشکل دیکھ رہا ہوں کہ تو یہ ایسی چیز نہیں ہے، جس کی نشاندہی کی جا سکے، البتہ آپ کے اقدام سے جو رزلٹ ملتا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مشکل کہاں ہے۔ آپ کی اِن پٹ کیا ہے اور اس کا آوٹ پٹ کیا نکلتا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ میں نے سادہ بات کی کہ تین ہمسائے خوش نہیں، امریکہ بھی ڈرون کی دھمکی دیتا ہے، اسی طرح بھارت بھی آئے روز دھمیاں دیکر چلا جاتا ہے۔ مشرق وسطٰی کے ممالک میں ہماری دوستی ہے، ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم عظیم دوست رکھتے ہیں، اسی طرح ایران کے ساتھ ہمیشہ دوستی تھی اور رہی، لیکن آج وہ ہم سے ناراض ہے، اس پر نتیجہ لینے کی کوشش کریں کہ ہم کہاں خرابی کر رہے ہیں۔ ہمیں اب غور کر لینا چاہیئے، آپ دیکھیں کہ امریکہ میں ہماری کوئی لابنگ نہیں ہے۔ بھارت نے چار چار لابسٹ رکھے ہیں جبکہ ہماری کوئی لابنگ نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: تیس لاکھ افغانی پاکستان میں آباد ہیں، دہشتگردی کی وجوہات میں ایک اہم عامل یہ بھی ہے، انکو نکالنے کیلئے کوئی اقدامات ہونے چاہیئے۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ یہ جتنے بھی افغانی ہیں، انہوں نے پاکستان کو اپنا گھر اور دُر سمجھا ہوا ہے، سارے جرائم بھی یہ کرتے ہیں اور الٹا ہمیں آنکھیں بھی دکھاتے ہیں، میرے خیال میں ان کے جانے کا وقت آگیا ہے، ان سے کہتا ہوں کہ پاکستان کو چھوڑ دو اور واپس چلے جاو، میں حکومت سے بھی اپیل کروں گا کہ ان کو نکالیں، جب میں وزیر داخلہ تھا تو تین مرتبہ درخواست کابینہ میں پیش کی، لیکن وہاں میری مخالفت کی گئی تھی، بہرحال افغانیوں کو جانا ہوگا، ان کا جانا ٹھہر چکا ہے، ہم ان کو مزید برداشت نہیں کرسکتے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ سیاسی فضا پر کیا کمنٹ کریں گے۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
دیکھیں جی سیاسی فضا تو خراب ہوچکی ہے اور اس فضا کو خراب کرنے میں سیاستدانوں کا ہی ہاتھ ہے۔ آنے والے وقت میں بھی یہی ہوگا، حکومت اور اپوزیشن ریاست کے دو پلرز ہوتے ہیں، اگر دونوں اب تک اس معاملے پر متفق نہیں ہوسکے کہ پانامہ ایشو پر ٹی او آرز کیا ہونا چاہیئے، میں نے شروع دن سے کہا تھا کہ جس کشتی کا ملاح نہیں ہوتا وہ کبھی کنارے نہیں لگتی، آپ اندازہ لگائیں کہ جس ٹی او آر کمیٹی کا کوئی چیئرمین ہی نہیں تھا، وہ کمیٹی چلتی کیسے؟، حکومت اور اپوزیشن سے درخواست کروں گا کہ ایک ہیڈ بنا دیں، بھلے باہر سے لے آئیں، تاکہ کوئی راہ حل نکل سکے۔

اسلام ٹائمز: خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ سینیٹر رحمان ملک سمیت دیگر کو راہ نکالنے کیلئے ذمہ داری سونپی جائے، کیا آپ تیار ہیں۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
دیکھیں جی اس وقت میرا نام پانامہ لیکس میں آگیا تھا اور میری جماعت کا صحیح فیصلہ تھا کہ میں اس کمیٹی میں شامل نہ ہوں۔ الحمد اللہ آج واضح ہوگیا کہ میری کوئی کمپنی نہیں ہے۔ فقط پروپگینڈا کرکے مجھے بدنام کیا گیا، اب کوئی صحافی مجھ سے معافی تک نہیں مانگتا۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ اگر میرا نام ثاب کر دیں تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ میں پیمرا گیا اور کورٹ گیا اب میرا نام نہیں آتا۔

اسلام ٹائمز: آپ وزیر داخلہ بھی رہے ہیں اور بہت سارے معاملات بھی جانتے ہیں، ایک بندہ رینجرز کی حراست میں ہے، اسکی ویڈیو لیک ہو رہی ہے، اسکا ذمہ دارکون ہے اور کون ملوث ہوسکتا ہے۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
سب سے پہلے تو میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیا ہے اور تحقیقات کا حکم دیدیا ہے۔ رہی بات قانون کی تو قانون کے مطابق جو بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرایا جاتا ہے، وہی بیان اصل بیان ہوتا ہے، باقی کسی کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ حتیٰ اگر پولیسی افسر کے سامنے بیان ریکارڈ کرایا جاتا ہے تو اس کی بھی عدالت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حتٰی آئی جی کے سامنے لئے گئے بیان کی کوئی حیثیت نہیں تو ایک کمرے میں لی گئی ویڈیو کی کیا حیثیت ہے۔ ہم نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی براے داخلہ میں اس پر ریکارڈ طلب کر لیا ہے اور آئی جی سندھ کو بھی بلا لیا ہے۔

اسلام ٹائمز: پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے عید کے بعد حکومت مخالف تحریک چلنے کے کتنے امکانات ہیں، سینیٹر اعتزاز احسن کے بیانات میں تو بہت اشارے مل رہے ہیں۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
دیکھیں جی اشارے بھی اچھی چیز ہیں، لیکن میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ابھی تک پارٹی کی سطح پر ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ ایجی ٹیشن میں حصہ لینا یا نہیں ہے، تاہم یہ نہیں چاہیے کہ کوئی پیپلزپارٹی کے علاوہ اپوزیشن کو لیڈ کرے۔ کوئی اقدام کرنے سے پہلے سوچ لے کہ اپوزیشن جماعت ہم ہیں، ہمارا اپوزیشن لیڈر ہے ہم لیڈ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: خبریں گرم ہیں کہ اپوزیشن لیڈر کو تبدیل کر رہے ہیں، اس میں کتنی سچائی ہے۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
جی ایسی کوئی بات نہیں ہے، خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر رہیں گے، ان میں کوئی غلطی نہیں ہے، میں اُن کے ساتھ کھڑا ہوں، بیٹھا ہوں اور ساتھ بھی چلوں گا۔

اسلام ٹائمز: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں آپ نے کہا ہے کہ زنانہ اور مردانہ جیلیں الگ ہونی چاہیں کیا کوئی شکایات موصول ہوئی ہیں۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
جب میں وزیر داخلہ تھا تو اس بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا، لیکن اب مجھے کئی بزرگوں نے فون کئے ہیں اور ہماری توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے، ہم نے یہ معاملہ سینیٹ کی کمیٹی میں بھی اٹھایا ہے اور سب نے اس کی تعریف کی ہے۔ ہم نے کہا ہے کہ زنانہ اور مردانہ جیلیں الگ ہونی چاہیئے اور زنانہ جیلوں کی سپرینڈنڈنٹ بھی الگ ہونی چاہیئے اور وہ رپورٹ بھی فقط ہوم منسٹری کو کرسکیں۔ فوری طور پر اس کی ایڈمنسٹریشن الگ کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 547855
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش