0
Wednesday 29 Jun 2016 17:02
مسلمان ممالک کے عسکری اتحاد کا ہدف اسرائیل نہیں

پاکستان میں اسرائیل کے ایجنٹوں کو پیغام ملنا چاہیے کہ ہمارا خون بہانے سے تم کامیاب نہیں ہوسکتے، ناصر عباس شیرازی

پاکستان میں اسرائیل کے ایجنٹوں کو پیغام ملنا چاہیے کہ ہمارا خون بہانے سے تم کامیاب نہیں ہوسکتے، ناصر عباس شیرازی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی ماہر قانون اور مقبول سیاسی رہنما ہیں، ایم ڈبلیو ایم کے شعبہ اطلاعات اور شعبہ سیاسیات کے سربراہ رہ چکے ہیں، آئی ایس او پاکستان کے سابق مرکزی صدر اور چیف اسکاوٹ کی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں، ابلاغ عامہ، جیو اسٹریٹیجک امور کے ماہر اور درد دل رکھنے والے پاکستانی ہیں۔ یوم القدس، بحرین میں بیداری کی تحریک کی صورتحال اور فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کیخلاف ایم ڈبلیو ایم کی موومنٹ کے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: داعش اسلامی جمہوری ایران کو نقصان پہنچانے کیلئے تشکیل دی گئی، وضاحت کریں کہ دشمن اس سازش کا مقصد کس طرح حاصل کرنا چاہتا تھا؟
ناصر عباس شیرازی:
داعش ایران کو نقصان پہنچانے کے لئے تشکیل دی گئی، یہ سوال اس طرح دیکھنا چاہیے کہ داعش ایران کو نہیں بلکہ اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے بنائی گئی ہے۔ بنیادی طور پر اسلام کے جاذب اور متاثر کن چہرے کو مسخ کرنے کی ایک کوشش تھی۔ یہ ان کا ہدف تھا، جغرافیائی طور پر جس خطے میں داعش کا ظہور ہوا، وہاں عراق اور شام میں انکا مقصد اسرائیل کا دفاع اور مسلمانوں کے درمیان انتشار پیدا کرنا تھا، مسلمانوں کو باہمی جنگ و جدل میں مشغول کر کے ان کے وسائل کو تباہ کرنا، دنیا میں مسلمانوں کو رسوا کرنا، یہ سارے انکے اہداف تھے۔ عالمی سطح پر چونکہ حقیقی اسلام کا نمائندہ اسلامی جمہوری ایران ہے، پوری مسلمان دنیا میں استعمار کیخلاف اسلامی جمہوری ایران نے مخالفانہ کردار ادا کیا ہے، شام اور عراق میں بھی مقامی قوتوں کو اسلامی جمہوری ایران کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو وہ داعش جیسی سازش کو ناکام نہیں بنا سکتے تھے۔ اگر ایران کا یہ کردار موجود نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ یہ ممالک بھی امریکہ اور اسرائیل کے چنگل میں پھنس جاتے، حاصل کلام یہ کہ داعش اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش تھی اور ایران چونکہ حقیقی اسلام کا خوبصورت چہرہ ہے تو اسکا اصلی ٹارگٹ ایران ہی تھا۔ جیسا کہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ایران میں متعدد جگہوں پہ دھماکے کرنے کی سازش تھی، جسے ناکام بنا دیا گیا۔ پوری دنیا میں اسلام ناب محمدی کے پیروکاروں نے داعش کا مقابلہ کیا ہے اور اسلام امریکائی کے پیروکار داعش کے حامی ہیں۔

اسلام ٹائمز: بحرین میں بیداری، آل خلیفہ رجیم کے مظالم اور وہاں تحریک کے مستقبل کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ناصر عباس شیرازی:
بحرین کے حوالے سے صرف یہ عرض کروں گا کہ وہاں کی تحریک ابھی تجربات سے گذر رہی ہے، یہ ایک طویل جدوجہد ہوتی ہے، آزادی کے لئے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے، سولہ سترہ افراد شہید ہوئے ہیں، اسیروں کی بڑی تعداد ہے، آزادی حاصل کرنے کے لئے بہرحال بڑی قربانی دینی پڑے گی، ابھی وہ سیکھیں گے، پاکستان میں ہمارے پاس تجربات ہیں، شہید عارف حسین الحسینی کے، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے، کئی بحران عبور کئے ہیں، ان تجربات سے سیکھا ہے، خدا ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے، وہاں تحریک آگے بڑھ رہی ہے، مشکلات بہت زیادہ ہیں، لیکن بحرین کے لوگ کمپرومائز کے لئے تیار نہیں ہوں گے، وہ لمبی جدوجہد اور قربانی کے تیار ہیں، یہی دلیل ہے کہ وہ کامیاب ہوں گے۔ انہوں نے سرنڈر نہیں کیا، جھکے نہیں، ڈٹے ہوئے ہیں، وہاں موجود امریکی بحری بیڑے سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی آل خلیفہ کے مظالم سے، اگر یہ تعہد باقی رہے گا تو نتیجہ لازمی سامنے آئے گا۔

اسلام ٹائمز: یوم القدس شعائر اسلام میں سے ہے، لیکن پہلے کی نسبت آج اسکی اہمیت زیادہ کیوں ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی:
اس وقت یوم القدس کی اہمیت اس اعتبار سے زیادہ ہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ اسرائیلیوں کو عالم اسلام میں سے اعلانیہ اپنے حمایتی میسر آئے ہیں۔ مسلمان ممالک نے مل کر عسکری اتحاد قائم کئے ہیں، لیکن انکا ہدف امریکہ یا اسرائیل نہیں ہیں، اسی طرح ترکی نے باقاعدہ اسرائیل کیساتھ معاہدے کئے ہیں، آل سعود اور آل یہود کا ایک ہی ایجنڈا ہے، امریکہ اور اسرائیل اپنے مسلمان اتحادی ممالک کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ اسرائیل کے وجود کا خاتمہ ممکن نہیں ہے، بدقسمتی سے اس امریکی ایجنڈے کو مسلمان ممالک نے مان لیا ہے کہ اسرائیل کے وجود کا خاتمہ ممکن نہیں، لہذا پرامن بقائے باہمی کے امریکی نعرے کے مطابق اسرائیل کی ناجائز ریاست کے ساتھ مل کر رہیں۔ دشمن نے ان سے یہ بھی منوا لیا ہے کہ برابری کی بنیاد پہ نہیں بلکہ اسرائیل بالادستی کو قبول کرتے ہوئے زندگی گذاریں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے مقابلے میں حزب اللہ نے قیام کیا ہے، فلسطینی مقاومت دکھا رہے ہیں، دنیا کی آزادی پسند قوتیں اس کے خلاف کھڑی ہیں۔ اس وقت ذمہ داری بنتی ہے کہ فلسطین کے مظلومین کو احساس دلایا جائے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، پوری امت مسلمہ ان کے ساتھ ہے، وہ اسرائیل کیخلاف ڈٹے رہیں، انہیں یہ احساس نہ ہو کہ وہ تنہا ہیں، انہیں اسرائیل کے سامنے تسلیم نہیں ہونا چاہیے۔

یوم القدس کے موقع پر یہ ضروری ہے فلسطین کے مظلوموں کو حمایت کا احساس دلایا جائے کہ اسرائیل کا وجود عالم اسلام کی امنگوں کے خلاف ہے، جو ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر رہے ہیں، وہ خائن ہیں۔ وہ ممالک جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ معاملات حل ہوگئے ہیں، یوم القدس پہ انہیں بھی پیغام جانا چاہیے کہ امت مسلمہ یہ سمجھتی ہے کہ اسرائیل کیساتھ سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، جو ممالک ایسا سوچتے ہیں اور ایسا کر رہے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے شدید ردعمل موجود ہے اور اسرائیل کو کسی صورت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے اسرائیل کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنے کے لئے یوم القدس منانے کا اعلان کیا تھا، یہ ضرورت باقی ہے کہ اس عمل کو جاری رکھا جائے، اب یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اس ایشو کو دبا دیا جائے، اس کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس لئے زیادہ اہم ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کا کارنر اسٹون فلسطین کی حمایت رہا ہے۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے جس ایشو پر سب سے زیادہ وضاحت فرمائی وہ قضیہ فلسطین ہے۔

اسی طرح یہ ہمارے لئے اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر ہم مسئلہ فلسطین پر مظلوموں کی حمایت نہیں کرتے تو کشمیر کے لئے کیسے حمایت حاصل کرسکتے ہیں۔ ہر لحاظ سے آج یوم القدس کی اہمیت پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ پاکستان ویسے ہی دہشت گردی کے نشانے پر ہے، کراچی اور کوئٹہ میں یوم القدس کو نشانہ بنایا گیا ہے، یہ اسرائیل نواز عناصر ہیں جو یوم القدس کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھانے والوں کا خون بھی بہاتے ہیں۔ پاکستان میں دشمن کے ایجنٹوں کو یہ پیغام ملنا چاہیے کہ ہمارا خون بہانے سے تم کامیاب نہیں ہوسکتے، ہم فلسطین کے مظلوموں کی حمایت جاری رکھیں گے۔ ہم اس امید کے ساتھ مظلوموں کی حمایت جاری رکھیں گے کہ فتح حق کی ہوگی، جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ آئندہ پچیس سال میں اسرائیل موجود نہیں رہے گا، ان تمام ایشوز کو اجاگر کرنے کے لئے یوم القدس منایا جاتا ہے، عالمی سطح پر اور پاکستان میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم یوم القدس کی تشہیر تو کرتی ہے لیکن باقاعدہ جلوسوں اور ریلیوں کا اہتمام کیوں نہیں کرتی۔؟
ناصر عباس شیرازی:
چونکہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان یوم القدس جیسے ایام کی بانی ہے، اس لئے مجلس وحدت مسلمین نے یہ طے کیا ہے کہ، بعض مقامات پہ عددی قوت زیادہ ہونے کے باوجود یہ حق آئی ایس او کو دیتے ہیں کہ وہ یوم القدس کی میزبانی کا شرف حاصل کریں، کیونکہ امامیہ طلبہ نے بحرانوں اور مشکلات کے باوجود یوم القدس کو زندہ رکھا ہے۔ یہ اس لئے محسوس ہوتا ہے، مجلس وحدت ممسلمین یوم القدس کا ناگزیر حصہ ہے، چند مقامات کو چھوڑ کر ہر جگہ شرکت اور تعاون بھرپور انداز میں رہتا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم ایک قومی جماعت کے طور پر یوم القدس کے اجتماعات میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتی ہے، پاکستان کے ایسے دیہی اور دور دراز علاقے جہاں آئی ایس او کا اسٹرکچر موجود نہیں، وہاں مجلس کی کوششوں سے پہلی بار یوم القدس کا آغاز ہوا ہے۔ جہاں جہاں یوم القدس نہیں منایا جاتا ہے، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ وہاں شروع ہو اور جہاں پہلے اہتمام ہوتا ہے، وہاں دیگر تنظیموں کے اشتراک سے بالخصوص آئی ایس او کی معاونت کی جائے۔ چونکہ تاریخی طور پر آئی ایس او اس کی میزبان ہے تو مجلس کی ذمہ داری ہے پوری قوت کیساتھ انکا ساتھ دیں، یوم القدس کو زیادہ کامیاب اور عوامی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

اسلام ٹائمز: علامہ راجہ ناصر عباس کی بھوک ہڑتال کے بعد لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا تھا، اب روڈ بلاک کرنیکا فیصلہ کیا گیا ہے، حکمت عملی میں یہ تبدیلی کیوں آرہی ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی:
یہ بتانا ضروری ہے کہ لانگ مارچ بھوک ہڑتال کا اور روڈز بلاک کرنا لانگ مارچ کا متبادل نہیں ہے، یہ ایک موومنٹ ہے، جس کے یہ مراحل ہیں۔ جس کا پہلا مرحلہ بھوک ہڑتال اور دوسرا عوامی رابطہ کے ذریعے پبلک موبالائزیشن ہے، اس لئے پانچ گھنٹے کے لئے اہم شاہرائیں اور چوک بند کئے جائیں گے۔ اس طرح ممکنہ طور پر بڑے احتجاجی اجتماعات بھی ہیں، جس سلسلے میں ان شاء اللہ سات اگست کو اسلام آباد میں علامہ عارف حسین حسینی کی برسی کی مناسبت سے تاریخی اجتماع منعقد ہوگا۔ یہ بہت بڑا عوامی اجتماع ہوگا۔ اگر اسوقت تک ہمارے آئینی اور قانونی مطالبات، جنکا کوئی سیاسی ہدف نہیں، تسلیم نہ ہوئے تو پھر ہمارے پاس لانگ مارچ کا آپشن موجود ہے۔ لانگ مارچ ایک آپشن ہے، ملک میں چند گھنٹوں کے لئے روڈ بلاک کرنا اس موومنٹ کا تسلسل ہے جو بھوک ہڑتال سے شروع ہوئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 549570
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش