0
Monday 29 Aug 2016 00:23

سعودی عرب اپنی غلط پالیسیوں کیوجہ سے تنہا ہوگیا، ترکی کا روس اور ایران کے قریب ہونا خوش آئند ہے، مفتی گلزار نعیمی

سعودی عرب اپنی غلط پالیسیوں کیوجہ سے تنہا ہوگیا، ترکی کا روس اور ایران کے قریب ہونا خوش آئند ہے، مفتی گلزار نعیمی
شیخ الحدیث مفتی گلزار احمد نعیمی پنجاب کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ وہ مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگرد خاص ہیں۔ انہوں نے جامع نعیمیہ لاہور میں تعلیم کے دوران درس نظامی مکمل کیا، علاوہ ازیں مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا۔ مفتی گلزار احمد نعیمی صاحب نے شہید سرفراز احمد نعیمی کے حکم پر 2002ء میں اسلام آباد میں جامع نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ اب تک وہ ہزاروں طلباء کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کرچکے ہیں۔ مفتی صاحب اتحاد بین المسلین کے حوالے سے اپنے نظریات کے لئے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد ممالک کے علمی دورہ جات کئے، جن میں ایران اور اردن قابل ذکر ہیں۔ مفتی صاحب ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر کئی ایک علمی مذاکروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ وہ جماعت اہل حرم کے بھی سربراہ ہین، اسلام ٹائمز نے مفتی گلزار نعیمی سے موجودہ حالات پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: الطاف حسین کے بیان پر مختلف آوازیں اٹھ رہی ہیں، کہا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم پر ہی پابندی عائد کر دی جائے۔ آپ کیا کہتے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
دیکھیں الطاف حسین کبھی بھی محب وطن نہیں رہا، ایم کیو ایم کی بنیاد رکھنے والے پاکستان مخالف تھے، کہا جاتا ہے کہ صدر ضیاءالحق نے اس کی بنیاد رکھی تھی، تاہم اس کے پیچھے بھی عالمی قوتیں تھیں۔ اب آتا ہوں آپ کے سوال کی طرف، میرے خیال میں الطاف حسین نے پہلی بار ہرزہ سرائی نہیں کی، اس سے قبل بھی متعدد بار وہ پاکستان مخالف بیان دے چکے ہیں، اس کی واضح مثال الطاف حسین کا بھارت میں ایک سمینار سے خطاب کرنا تھا، اس خطاب میں اس نے واضح طور پر کہا تھا کہ قیام پاکستان تاریخ انسانیت کی سب سے بڑی غلطی تھی، اس طرح کے بھارت میں جاکر بیانات دینا کس کو خوش کرنا ہے؟، جب یہ بندہ نئی دہلی گیا تو وہاں اس کے حق میں پوسٹر تک لگا گئے، یہ پوسٹر بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے لگوائے تھے، اب جس شخص کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ہو یا پھر عالمی ایجنسیاں ہوں تو پھر اس کے محب وطن ہونے پر سوال تو اٹھیں گے، یہ ایجنسیاں پاکستان میں فساد ضروری سمجھتی ہیں، اب ایسے شخص کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ وہ محب وطن ہوگا، ایسا ممکن نہیں ہے۔ جہاں تک پابندی کا سوال ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک شخص نہیں ہے، اس کے پیچھے بہت سارے اشخاص ہیں، جو دوسروں کیلئے کام کرتے ہیں، جو پاکستان میں فساد برپا کرنے کیلئے عالمی ایجنسیوں سے فنڈز لیتے ہیں، یہاں بھی فنڈز لیتے ہیں اور لندن میں بھی فنڈز لئے جاتے ہیں، مجھے بتائیں کہ جس شخص کی کوئی زمین نہ ہو، کوئی کاروبار نہ ہو، وہ سالہا سال سے دیار غیر میں کیسے عیاشی کی زندگی گزار سکتا ہے؟، یہ ایک بندے کا کام نہیں ہے، یہ پورا ایک گینگ ہے، ایم کیو ایم کو سیاسی جماعت کہنا سیاسی جماعتوں کے ساتھ ظلم ہے، ایم کیو ایم ایک گینگ ہے، یہ بدمعاشوں کی جماعت ہے، یہ قاتلوں کی جماعت ہے، یہ پاکستان کے غداروں کی جماعت ہے، کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ جنرل ضیاء نے اس کی داغ بیل ڈالی اور مشرف نے اسے فل پروموٹ کیا، یہ بہت ہی راست اقدام ہوگا، اگر اس جماعت کو ختم کرکے کسی محب وطن پارٹی کو باگ دوڑ دے دی جائے۔ لیکن مجھے جو نظر آ رہا ہے، وہ بھی بڑا خطر ناک ہے، یہ درست ہے کہ اس جماعت کو ختم کیا جانا چاہیئے، کراچی اور حیدر آباد کو ایم کیو ایم سے پاک کرنا ضروری ہے، لیکن ناجائز ظلم نہیں ہونا چاہیے، جو محب وطن لوگ ہیں انہیں جائز مقام ملنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف ایم کیو ایم پر پابند ی لگانے کی تیاری کی جا رہی ہے، دوسری جانب کالعدم جماعتوں کو کام کرنیکی کھلی اجازت ہے، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
اس پر میں یہی کہوں گا کہ اگر آپ ایک ظالم کو مار کر دوسرے ظالم کو لیکر آتے ہیں، ایک غدار وطن جماعت کو ختم کرکے دوسری غدار وطن کالعدم جماعت کو لیکر آتے ہیں تو بہت ہی بڑے دکھ کی بات ہوگی، پھر آپ نے ایک ظالم کو ختم کیا ہے، نہ کہ ظلم کو ختم کیا ہے۔ اگر آپ ایسے لوگوں کو پرموٹ کریں گے، جن کا ماضی دہشتگردی، ظلم اور قاتل و غارت گری سے عبارت ہے، کیا آپ نہیں جانتے کہ یہ لوگ پاکستانیوں کو شہید کرتے ہیں، پاک فوج پر حملے کرتے ہیں، جرنیلوں کو شہید کرتے ہیں، سکیورٹی کے اداروں اور دفاعی انسٹالمنٹس کو نقصان پہنچاتے ہیں، چاہے وہ کامرہ ائیربیس ہو، مہران ائر بیس یا جی ایچ کیو، ان سب پر حملوں میں یہی لوگ ملوث تھے، اب انہوں نے نام بدل کر کام شروع کر دیا ہے، حتیٰ نام بھی نہیں بدلا، وہ کراچی میں دفاع پاکستان کے نام پر ریلیاں نکالتے ہیں۔ میں نے ان کے خلاف فیس بک پر ایک پوسٹ ڈالی تھی تو مجھے دھمکیاں دی گئیں، وارنگ دی گئی، یہاں تک کہا گیا کہ آپ کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کراچی کو اگر ظالموں کے چنگل سے نکال کر تازہ ترین ظالموں کے حوالے کریں گے تو یہ نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کیلئے ناصر جنجوعہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنا دی ہے۔ عموماً یہ تاثر عام ہے اور کہا جاتا ہے کہ جو کام نہ کرنا ہو، اس پر کمیٹی بنا دیں۔ ڈیڑھ سال مکمل ہونے کے بعد میاں صاحب کو یاد آیا ہے کہ اس پر ایک کمیٹی بنا دیں۔ آپ اسکو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
دیکھیں جو کام کرنا ہوتا ہے، اس پر کسی کمیٹی کی ضرورت نہیں ہوتی، اس پر عمل کیا جاتا ہے اور وہ عمل نظر آتا ہے، یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے جتنے بھی ادارے ہیں، ان کو تباہ کر دیا ہے، ان اداروں کی تباہی کی وجہ سے ملک اس نہج پر پہنچا ہے، اس ملک میں دہشتگردوں کو پکڑا گیا، لیکن عدالتوں نے رہا کر دیا، کس کے کہنا ہے پر رہا کیا گیا؟، 100، 100 افراد کے قاتلوں کو رہا کر دیا گیا، نیب لوگوں کو کرپشن کے چارجز میں گرفتار کرتی ہے، بعد میں چھوڑ دیا جاتا ہے، میں پوچھتا ہوں کہ سول عدالت نے آج تک کسی ایک دہشتگرد کو پھانسی پر چڑھایا ہے؟، فقط فوجی عدالتوں نے دہشتگردوں کو پھانسی پر چڑھایا ہے، یعنی انہوں نے تو اپنے قاتلوں کو لٹکایا ہے، لیکن حکومت نے عوام کے قاتلوں کو لٹکانے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ کیا یہ عوام کی نمائندہ ہوتی ہے؟، اگر آپ اداروں کو کمزور کریں گے پھر کمیٹی پر کمیٹیاں بناتے جائیں تو نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہونے والا، ہمیشہ عمل بولتا ہے، ڈیڑھ سال گزر گیا ہے، باقی دور بھی گزر جائیگا، پھر کہیں گے کہ ووٹ دیں آئندہ کام کرکے دیں گے۔

اسلام ٹائمز: فوجی عدالتوں کا قیام دو سالوں کیلئے تھا، جو آئندہ چند ماہ بعد مکمل ہونے والا ہے، اگر توسیع نہیں ملتی تو عوام کے قاتلوں کو پھانسی پر کون لٹکائے گا۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
یہی بات تو کہہ رہا ہوں کہ فوج نے اپنے قاتلوں سے بدلہ لیا ہے، لیکن عوام کے قاتلوں سے کون بدلہ لے گا؟، فوج ریاست کا ادارہ ہے، وہ ریاست کی نمائندگی کرتی ہے، عوام کے نمائندے کیا کر رہے ہیں، کیا یہ لسی پی کر سو رہے ہیں، یا پائے کھائے ہوئے ہیں، عوام کے نمائندوں کو چاہیے کہ وہ عدالتوں کو ٹھیک کریں، ججوں کو تحفظ فراہم کریں اور انہیں کہیں کہ آپ بلاخوف فیصلے کریں اور قاتلوں کو سزائیں دیں۔ قانون کے مطابق کام کریں۔ قانون کا اطلاق بالکل ختم ہوکر رہ گیا ہے، حتیٰ یہاں تو چور کو سزا نہیں ملتی، شک کا فائدہ دیکر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ کوئٹہ کسی صورت سانحہ پشاور آرمی پبلک اسکول سے کم نہ تھا، لیکن حکومت نے سوائے نوٹس لینے کے کچھ نہیں کیا، کیا آپ حکومتی عمل سے مطمئن ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
جی میں بالکل بھی مطمئن نہیں ہوں، وفاق اور صوبائی حکومتوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ عوام گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں، ان کے اندر احساس ہی ختم ہوگیا ہے۔ پہلے سے طے شدہ بیان تیار ہوتا ہے، جب بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے تو صدر اور وزیراعظم کے بیانات سامنے آجاتے ہیں، ٹی وی پر چند منٹ کیلئے یہ ٹکرز چل رہے ہوتے ہیں کہ رپورٹ طلب کرلی گئی، مذمت کرتے ہیں، آئندہ اس طرح کے واقعات کی اجات نہیں دیں گے، اس کے بعد پھر خاموشی اور اگلے سانحہ کا اتنظار کیا جاتا ہے، اگر یہ حکمران زیادہ سے زیادہ مہربانی کریں بھی تو یہ ہوتا ہے کہ چیف منسٹر صاحب یا کوئی وزیر زخمیوں کی عیادت کیلئے تشریف لے جاتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج تک حکومت کی سطح پر کوئی دہشتگرد نہیں پکڑا گیا، نہ ہی کسی دہشتگرد کا باقاعدہ کوئی ٹرائیل ہوا ہے۔ جب سزائیں ہوتی ہیں تو جرائم کنٹرول ہوتے ہیں، جب سزائیں نہیں ہوتیں تو مجرم کے دل سے خوف نکل جاتا ہے، پھر وہ جرم پر جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ قانون بنتے ہی اس لئے ہیں کہ اس پر عمل داری ہو اور معاشرے میں امن قائم ہوسکے۔ جب قانون اتنا کمزور ہو تو مجرم بےخوف ہوکر اپنا کام کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کشمیر کے اوپر حکومتی رویے، اور مودی کا بلوچستان، کشمیر اور گلگت بلتستان سے متعلق بیان، اس پوری صورتحال کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
بلوچستان، کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے جو مودی نے بیان دیا ہے، وہ انتہائی خوف ناک ہے، اس کی شدت اور اہمیت اتنی ہے کہ اس نے بہت ساری چیزوں کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے، سب سے بڑا سوالیہ نشان اس حکومت پر لگا ہے، جس میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ اس کا اچھے انداز میں جواب دیتی اور ڈٹ جاتی۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ مودی کو باقاعدہ جواب دیا جاتا، آج بڑی بدقسمتی ہے، کشمیر کے بچوں کے چھلنی چہرے سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ 34 رکنی فوجی اتحاد کا حصہ بنے، کسی ایک ملک نے بھی کشمیر کے معاملے پر بیان تک نہ دیا۔ کیا یہ صورتحال عسکری اور سیاسی قیادت کے اس فیصلے پر سوالیہ نشان نہیں ہے۔ ہم نے تو یہاں تک انہیں یقین دہانی کرا دی کہ آپکا دفاع پاکستان کا دفاع ہے، لیکن یہاں کسی نے ایک بیان تک نہ دیا۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
پاکستان کے جتنے بھی بڑے ہیں یا سیاستدان ہیں، وہ دوسرے ملکوں کے غلام ہیں، عوام غلام در غلام ہیں، جس ملک نے یہ چونتیس ملکوں کا اتحاد بنایا ہے، اس ملک نے ایک ہندو ریاست کے سربراہ کو اپنے ملک کا سب سے بڑا اعزاز عطا کیا ہے، خادمین حرمین نے اپنی ریاست کا سب سے بڑا اعزاز مودی کو پہنایا ہے، اس قوم کا سربراہ جو کشمیر میں ہماری بہنوں کی عصمت دری کرا رہا ہے، گولیوں سے بھون رہا ہے، اس ملک کے سربراہ کو سعودی عرب کا سب سے بڑا اعزاز دینا ناصرف پاکستان کے منہ پر طمانچہ ہے بلکہ عالم اسلام کے منہ پر طمانچہ ہے۔ صرف ایک ملک کی بات نہ کریں، چونتیس ملکوں کے اتحاد میں شامل کسی ایک ملک نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ ہمارے نبی پاک ﷺکی ساری زندگی بتوں کو توڑنے میں گزری اور یہ بت خانہ قائم کر رہے ہیں، یو اے ای نے باقاعدہ یہ کام ہے، مودی کو بلا کر بت خانہ بنایا گیا ہے اور افتتاح کرایا گیا ہے۔ حد ہوگی ہے کہ ایک قوم چودہ سو سال بعد بت بوچنے کی اجازت دے رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: سوال تو یہ ہے کہ ہماری کیا مجبوری ہے کہ ان ملکوں کیساتھ اتحادی بنیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
یہ ایک المیہ ہے کہ جو بھی حکمران آتے ہیں، وہ کسی نہ کسی کی حمایت کے تحت آتے ہیں، عوامی لیڈر نہیں آتے، جو بھی حکمران آتا ہے، وہ سعودی عرب، امریکہ اور لندن کی بات کرتا ہے، کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے بغیر یہ نہیں چل سکتے، جب تک جنوئن لیڈر شپ نہیں آتی، اس وقت تک سوالیہ نشان لگا رہے گا۔

اسلام ٹائمز: کچھ روز قبل ایرانی نائب وزیر خارجہ پاکستان تشریف لائے تھے، انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ پاکستان کو دعوت دیتے ہیں کہ خطے کو نئی شکل دینے کیلئے ہمارا ساتھ دیں۔ ہم ملکر چلنے کیلئے تیار ہیں، مطلب امریکیوں کو یہاں سے نکالنے کے حوالے سے بیان تھا۔ اس بیان کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
ہم ایشیا میں رہتے ہیں، ایشیا کے مسلم ممالک میں واضح تقسیم ہے، وہ چودہ سو سال والی تقسیم آج بھی واضح ہے، یعنی، عرب و عجم والی تقسیم، عرب ممالک ایک جگہ پر کھڑے ہیں، ان کی بڑی مہربانی ہے کہ وہ دوسروں کو اسلامی ممالک سمجھتے ہیں، میں اس بیان کو جہاں تک سمجھ سکا ہوں، وہ یہ کہ اسلامی ممالک کا بلاک بننا چاہیئے جو اسلامی ممالک کے حقوق کا تحفظ کرسکے، اگر ایرانی نائب وزیر خارجہ کے بیان کا مقصد یہی ہے تو ہم اس کو خوش امدید کہتے ہیں، یہ بہت اہم بات ہے۔ کیا پاکستان امریکہ کی وجہ سے ڈسٹرب نہیں ہے، اسی طرح افغانستان سمیت پورا خطہ اس کیوجہ ڈسٹرب نہیں ہے۔؟ اب امریکہ کو زیادہ تکلیف کیوں ہوئی ہے، کیونکہ چین گوادر کو پرموٹ کر رہا ہے، چین کے زیادہ پنجے یہاں گڑھ جائیں گے۔ ایشائی ممالک ایک دوسرے سے تعاون کریں تو امریکہ کو نکالا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ترکی کی خارجہ پالیسی کے حالیہ شفٹ کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
ترک صدر کے بعض فیصلے ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں، یہ بات قابل ستائش ہے کہ اس نے اپنے ملک کو ترقی دی ہے۔ لیکن اس کا سعودی عرب کے ساتھ اتحاد کرکے داعش کو محفوظ راستہ دینا اور شامی حکومت کے ساتھ لڑانا بہت ہی زیادہ خطرناک کام کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ترکی کی طرف سے مسلمہ امہ کے خلاف سازش تھی، اب جب اپنے گھر میں آگ لگی ہے تو تب سمجھ آیا ہے کہ کیا کر بیٹھے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ترکی کا روس اور ایران کی طرف آنا بہت ہی خوش آئند بات ہے، اگر ترکی نئی پالیسی پر عمل درآمد کرے تو یہ امت کیلئے بہت مفید ہے۔
خبر کا کوڈ : 563791
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش