0
Sunday 16 Oct 2016 16:10
حکومت اور افواج پاکستان میں رابطے منقطع ہوچکے ہیں

چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس اصل میں 20 کروڑ عوام کے دلی جذبات کی ترجمانی ہے، امجد علی خان

کرپشن لیگی حکومت کا ٹریڈمارک بن چکی ہے
چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس اصل میں 20 کروڑ عوام کے دلی جذبات کی ترجمانی ہے، امجد علی خان
پاکستان تحریک انصاف میانوالی کے رہنما امجد علی خان رکن قومی اسمبلی ہیں۔ عمران خان کے آبائی علاقے سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی کیساتھ اسلام آباد کو بند کرنے کے اعلان، حکومتی ردعمل، سول ملٹری تعلقات میں تناو اور خطے کی صورتحال کے تناظر میں اسلام ٹائمز کی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: اپوزیشن تحریک انصاف کی احتجاجی پالیسی سے متفق نہیں، حکومت کی طرف سے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کا مقصد صرف وزارت عظمٰی کا حصول ہے۔؟
امجد علی خان:
جس مقصد کے لئے تحریک احتساب اور احتجاج ہو رہا ہے، یہ کسی کا ذاتی نہیں بلکہ قوم کا پیسہ چوری ہوا، ساری اپوزیشن کو سڑکوں پر آنا چاہئے۔ دوسرے یہ کہ پنجاب حکومت سمجھ لے ہمارے لوگ تیاری کرکے آرہے ہیں اور مقابلہ کریں گے، عمران خان نے کہا ہے کہ اگر اکیلا بھی احتجاج کیلئے باہر نکلنا پڑا تو نکلوں گا، پاناما لیکس انکشافات نہیں چوری کے ثبوت ہیں، نواز شریف نے پی ٹی آئی کا نہیں قوم کا پیسہ چوری کیا ہے، تمام اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں۔ نواز شریف کی جگہ شہباز شریف سمیت جو مرضی وزیراعظم بن جائے، ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ نواز شریف اور آصف زرداری دونوں کرپشن میں ملوث ہیں، اس لئے کبھی کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے، عوام سڑکوں پر نہیں نکلیں گے تو پاکستان تباہی کی طرف جائے گا۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ کرپشن مافیا کی وجہ سے ملک تباہ ہو رہا ہے، پاکستان کا قرضہ 6 ہزار ارب سے 8 سال بعد ساڑھے 22 ہزار ارب ہوچکا ہے، جو کہہ رہا ہے کہ آج پاکستان میں ترقی ہو رہی ہے، وہ حکومت کے ساتھ ملا ہوا ہے، پاناما لیکس میں سامنے آنے والی کرپشن تو کچھ بھی نہیں ہے، جب احتساب ہوگا تو یہ راز کھلیں گے کہ ان لوگوں نے پاکستان کو لوٹا ہے اور اب سزا سے بچنا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن سمیت سیاسی حلقوں میں یہ تاثر بھی ہے کہ پی ٹی آئی ریاستی اداروں کو نشانہ بناتی ہے، جس سے غیرجمہوری طرز عمل کو تقویت ملتی ہے۔؟
امجد علی خان:
ادارے اپنا کام کریں تو تاثر خوبخود ختم ہوجائے، ہم اسوقت تک جدوجہد جاری رکھیں گے، جب تک ادارے ایکشن نہیں لیتے۔ سپریم کورٹ کو اس پر سوموٹو ایکشن لینا چاہیے، ادارے انصاف نہ دے رہے ہوں تو احتجاج کرنا حق ہے، 4 ہزار ارب روپے کی سالانہ کرپشن ہو رہی ہے، آدھی آبادی دو وقت کی روٹی نہیں کھا سکتی، غریب لوگ جیلوں میں بھرے ہوئے ہیں، مریم نواز کی دو کمپنیاں نوازشریف کے پیسے سے قائم کی گئیں، منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسہ باہر بھجوایا گیا، کرپشن کے پیسے سے لندن میں اربوں روپے کے فلیٹ خریدے گئے، ہم نہیں بلکہ کرپشن مافیا ادارے تباہ کر رہا ہے، آج بھی جسے پاکستان اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے باہر نکلے۔ جہاں تک قومی اسمبلی کی بات ہے، سپیکر کو غیر جانبدار ہونا چاہیے، مگر سپیکر نے پاناما لیکس پر نواز شریف کیخلاف ریفرنس بھیجنے کے بجائے عمران خان خلاف ریفرنس بھیج دیا، حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ میں ٹی او آرز کا مذاق اڑایا گیا۔ تاریخ گواہ ہے، عدالتوں نے ہمیشہ طاقتور کا ساتھ دیا۔ لیکن اداروں کی سوچ میں بھی تبدیلی آرہی ہے، چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے یہ کہنا کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے اور جمہوریت کے نام پر مذاق کیا جا رہا ہے، قابل غور ہیں۔ یہ ریمارکس اصل میں 20 کروڑ عوام کے دلی جذبات کی ترجمانی ہے، نااہل اور کرپٹ حکمران ملک کی سالمیت کے لئے سنگین خطرہ بن چکے ہیں، ہم نہیں، حکمران ہیں خطرہ۔

اسلام ٹائمز: حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام آباد کسی قیمت پر بند نہیں کرنے دینگے، سختی کا مقابلہ کیسے کریں گے۔؟
امجد علی خان:
تحریک انصاف ملک سے کرپشن، بیروزگاری اور جہالت کے خاتمے کیلئے دن رات کوشاں ہے۔ اسلام آباد دھرنا حکومت کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ عمران خان کو میانوالی کے لوگوں سے خصوصی محبت ہے، یہاں کے لوگوں کو ان سے ہے۔ عمران خان نے احتجاج کیلئے پنجاب کے ضلعی صدور، اراکین اسمبلی اور امیدواروں کو ایک ایک ہزار کارکن لانے کا ٹارگٹ دیا ہے، مطلوبہ تعداد میں کارکن نہ لانے پر تحصیل، ونگز کے عہدیداروں اور ضلعی صدر کیخلاف سخت کارروائی کی جائیگی۔ حالات تبدیل ہوئے ہیں، اس وقت صرف پنجاب میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں حکمرانوں کے خلاف نعرے بازی ہو رہی ہے، عوام حکمرانوں اور ان کے کرتوتوں سے تنگ آچکے ہیں، اب وزیراعظم نواز شریف کو استعفٰی دینا پڑیگا یا پھر اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرنا ہوگا، جو بھی ہوگا لیکن اس بار ہم جیتیں گے، امید تو یہی ہے کہ اسلام آباد میں شہادتیں نہیں ہونگی، لیکن اگر کوئی ایسا قدم اٹھایا گیا تو اس کی مکمل طور پر ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوگی۔ حکمران بہت پریشانی میں ہیں، دھرنے کو روکا گیا تو حکومت کو مشکل پڑ جائیگی اور انتشار ہوگا، اگر پرامن رہنے دیا تو پرامن رہیں گے، اگر نہیں رہنے دیا تو پھر ان کو سخت جواب ملے گا، جو نون لیگ کے عہدیدار یا وفادار بیوروکریسی ہے، وہ نون لیگی ہے، جبکہ ان کے بچے تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ 2014ء میں گوجرانوالہ میں ہمیں پتھر مارے گئے، کیونکہ اس وقت ہماری تیاری نہ تھی، اب ہم بھیڑ بکریوں کی طرح مار نہیں کھانے والے، زبردست کمانڈو فورس تیار ہو رہی ہے، اگر معاملات کو خراب کیا گیا تو ہماری کمانڈو فورس جواب دیگی۔ اسلام آباد دھرنا کامیاب بنانے کے لئے پاکستان تحریک انصاف کی سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے، عمران خان نے یو سی، گلی، محلوں اور دیہات میں کمیٹیاں تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔ کس جگہ دھرنے میں کتنے افراد شرکت کریں گے، تمام ضلعی رہنما 25 اکتوبر تک قائد کو رپورٹ بھجوائیں گے، خواتین، تاجر، وکلا برادری دھرنا کامیاب بنانے کے لئے سپورٹ کریں، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی عمران خان کے احکامات پر مزید عملدرآمد کرانے کے لئے خود بھی دورے کریں گے۔ تیاری عروج پر ہے، کوئی خوف یا جھجھک نہیں۔

اسلام ٹائمز: قومی جماعتوں میں یہ بات بھی زیرگردش ہے کہ عمران خان کی اپنی پارٹی میں ہی اختلافات ہیں، وہ اپوزیشن کو کیسے لیڈ کرسکتے ہیں۔؟
امجد علی خان:
عہدوں سے، نام و نمود سے عزت کا کوئی تعلق نہیں، عزت ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اختلافات جمہوری جماعتوں میں ہوتے ہیں۔ اصل چیز قیادت ہے، اسکو کیسا ہونا چاہیے، سارا انحصار اس پر ہے، اس کی شخصیت داغدار نہیں تو سب کچھ کنٹرول میں رہ سکتا ہے۔ لیکن جب لیڈر کرپٹ ہوتا ہے تو معاشرے کو کرپٹ کر دیتا ہے، دین بھی کہتا ہے جب معاشرے میں جرم ہو تو جہاد کیا جائے، 30 ستمبر کا احتجاج سیمی فائنل تھا اور اب فائنل ہوگا، عوام ہم سے بڑا انقلاب چاہ رہے ہیں۔ یہ قائد اعظم اور نیلسن منڈیلا کی طرح ایک مشن ہے۔ شریف فیملی کا سب کچھ باہر ہے، ذاتی مفاد کی خاطر تھوڑے سے لوگ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ شریف اقتدار سے فائدہ اٹھانے کیلئے آئے ہیں۔ میانوالی سے تعلق رکھنے والے رہنماوں کے متعلق بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی سے دور ہو رہے ہیں، لیکن اسلام آباد مارچ میں میانوالی سے زیادہ سے زیادہ کارکن شرکت کرکے عمران خان کے اعتماد اور توقعات پر پورا اتریں گے، لیکن اس کا بہت خیال رکھا جاتا ہے کہ کارکن علاقائیت اور برادری ازم سے ہٹ کر صرف اور صرف پارٹی کیلئے کام کریں، جو پارٹی کیلئے کام نہیں کرسکے گا، اُسے پارٹی سے فارغ کر دیا جائیگا۔ یہ دھرنا اور انصاف کے لئے کوشش ثابت کرے گا کہ صرف عہدے کیلئے پارٹی میں رہنے کے خواہشمندوں کی پارٹی میں کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی کے رہنما جب تھرڈ ایمائیر کی بات کرتے ہیں، تو اس سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ جہموریت کو ڈیل ریل کرنا چاہتے ہیں، تھرڈ ایمائیر سے مراد فوج ہے یا کوئی بیرونی طاقت ہے۔؟
امجد علی خان:
اس سے مراد نہ فوج ہے نہ بیرونی طاقت، اس سے مراد تمام ذمہ دار ادارے اور پاکستان کے عوام ہیں۔ ہم جمہوری نظام کو لپیٹنے کے درپے نہیں، ہم تو چاہتے ہیں کہ نظام چلے، اداروں اور عوام کو سوچنا چاہیے کہ یہاں وزیراعظم کے احتساب سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، شریف خاندان اور وی وی آئی پیز کی سکیورٹی 8 سالوں میں جاتی امرا سمیت وی وی آئی پیز کی سکیورٹی پر اربوں روپے خرچ ہوئے، جبکہ 2752 سکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے، وزیراعظم کا سرکاری گھر اسلام آباد میں ہے، لیکن عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ جاتی امرا، 96 ماڈل ٹاؤن میں سکیورٹی اور تعمیر و مرمت پرخرچ کیا جا رہا ہے۔ جاتی امرا میں 4.4 کلومیٹر لمبی اور 12 فٹ اونچی دیوار پر 70 کروڑ روپے پنجاب حکومت نے اپنے سرکاری فنڈز سے جاری کئے ہیں، 30 سے 40 افراد کی سکیورٹی پر 2 ہزار 752 اہلکار تعینات ہیں، جبکہ لاہور میں 555 شہریوں کی حفاظت کیلئے صرف ایک اہلکار ہے۔ جمہوری اداروں سے انصاف نہ ملے تو سڑکوں پر آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ہر انسان کو سیاستدان ہونا چاہئے، کیونکہ تمام پیغمبر بھی سیاستدان تھے، جنہوں نے وقت کے ظالموں اور فرعونوں کے خلاف آواز بلند کی اور کرپشن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ نواز شریف نے ایک فیکٹری سے 30 فیکٹریاں بنا لی ہیں، لوگ خاموش کیوں ہیں۔ اب اگر حالات 99 جیسے ہیں، حکومت اور افواج پاکستان میں رابطے منقطع ہوچکے ہیں، ایک اکتوبر 1999ء میں بھی آیا اور ایک اکتوبر آج 2016ء میں بھی آیا ہے، 1999ء کے اکتوبر سے یہ اکتوبر بھی کم نہیں، اسکی ذمہ دار حکومت ہے، احتساب کا مقابلہ کرنے والے نہیں۔ پرامن احتجاج اور دھرنا پی ٹی آئی کا آئینی و قانونی حق ہے، اگر حکومت نے ریاستی مشینری کے ذریعے دھرنا کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی تو پھر دما دم مست قلندر ہوگا۔

ملک بھر سے عمران خان کے ٹائیگرز اسلام آباد پہنچ کر پاکستان کی بقا و سالمیت کیلئے خطرہ بننے والے کرپٹ حکمرانوں سے نجات کو یقینی بنائیں گے۔ جمہوریت کے جھوٹے نعروں سے عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتا، نااہل حکومت سے نجات میں ہی ملک کی حیات ہے، گیس کی قیمتوں میں 36 فیصد اضافہ غریب کش فیصلہ ہے۔ حکومت جتنی مرضی فہرستیں مرتب کر لے، عوام کے سیلاب کو نہیں روک سکتی۔ اسلام آباد میں سرکاری دفاتر کی طرف جانے والی سڑکوں پر جا کر بیٹھیں گے اور حکومت نہیں چلنے دیں گے، عوام کا سمندر ہمارے ساتھ ہوگا، اسلام آباد دھرنا فائنل میچ ہوگا۔ ملک میں جمہوریت صرف اور صرف وزیراعظم کے درباریوں کو نظر آرہی ہے۔ وزیر خزانہ کو عالمی مالیاتی اداروں کے مفادات کے تحفظ کے صلہ میں ایوارڈ ملنا پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے، جس سے ثابت ہوگیا ہے کہ اسحاق ڈار پاکستان کے نہیں عالمی مالیاتی اداروں کے حقوق کے محافظ ہیں۔ حکمران ٹولہ کے تمام اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود پی ٹی آئی پانامہ انکشافات کو کسی صورت منظر سے اوجھل نہیں ہونے دے گی اور وزیراعظم کو اپنے اور اپنے خاندان کے احتساب کیلئے مجبور ہونا ہی پڑے گا۔ کرپشن موجودہ حکومت کی بیڈگورننس کا منہ بولتا بوت ہے۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کرپشن لیگی حکومت کا ٹریڈ مارک بن چکی ہے۔ حکومت کی ساڑھے 3 سالہ کارکردگی ناکامیوں اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قوم حکمران ٹولہ سے نجات کیلئے بے چین ہے۔ ہمارا تو نواز شریف سے صرف ایک ہی سوال ہے، اگر نواز شریف نے کوئی غلط کام نہیں کیا تو جواب کیوں نہیں دیتے، اگر نواز شریف نے چوری نہیں کی تو تلاشی دینے میں کیا حرج ہے۔ جب تک نواز شریف کے استعفے یا خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کا ہمارا مطالبہ پورا نہیں ہوگا، ہم اس وقت تک کسی بھی صورت اسلام آباد سے نہیں آئیں گے اور ہم کشتیاں جلا کر آرہے ہیں اور اسلام آباد میں احتجاج رائے ونڈ مارچ سے دوگنا بڑا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف حکومتی پالیسی قابل اطمینان ہے؟ اسے کیسا ہونا چاہیے۔؟
امجد علی خان:
مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہا ہوگئی ہے، بھارت کشمیر کے ایشو سے توجہ ہٹانے کیلئے بغیر تحقیقات کے اڑی حملے کا الزام پاکستان پر لگا رہا ہے، کشمیریوں کو بندوق کے زور پر زیادہ دیر غلام نہیں بنایا جاسکتا، مودی کشمیریوں کو ان کا حق نہیں دینا چاہتا، کشمیر ایشو کو حل کئے بغیر بھارت سے تعلقات نارمل نہیں ہوسکتے، نواز شریف نے بھارت کو غلط سگنل دیا کہ ہم ہر حال میں دوستی کرنے کو تیار ہیں، بھارت سے تعلقات یکطرفہ نہیں برابری کی بنیاد پر قائم ہونے چاہئیں، اگر بھارت نے ہماری فلموں پر پابندی لگائی تو ان کی فلموں پر بھی پابندی لگانا ہوگی۔ نواز شریف کو اقوام متحدہ میں نہیں جانا چاہیے تھا، نواز شریف کی تقریر پر مودی نے کہا تھا کہ یہ نواز شریف نہیں بول رہا، اسے فوج کہلوا رہی ہے، ذاتی دوستی میں خارجہ پالیسی نہیں چلتی۔ بھارت کو سمجھنا چاہیے کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں، جنگ سے ہندوستان کو زیادہ نقصان ہوگا۔ کشمیری آزادی چاہتے ہیں، بھارت نے پانی بند کیا تو بہت بڑا ری ایکشن آئیگا، سندھ طاس معاہدے سے پیچھے ہٹنے پر لوگ چپ نہیں بیٹھیں گے۔
خبر کا کوڈ : 575866
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش