0
Thursday 23 Feb 2017 08:08
افغان ہر دور میں پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلے ہیں

نواز شریف بھارت کیجانب زیادہ، پاکستان کیطرف کم ہیں، مولا فضل الرحمن ہمیشہ ہی اینٹی سٹیٹ کام اور باتیں کرتے ہیں، علی امین گنڈہ پور

کوٹلی امام حسین (ع) کی زمین کیحوالے سے خیبر پختونخوا حکومت اور اہل تشیع کا موقف ایک ہے، مسئلہ وفاق کیجانب سے ہے
نواز شریف بھارت کیجانب زیادہ، پاکستان کیطرف کم ہیں، مولا فضل الرحمن ہمیشہ ہی اینٹی سٹیٹ کام اور باتیں کرتے ہیں، علی امین گنڈہ پور
سردار علی امین خان گنڈہ پور صوبہ خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر مال اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء ہیں۔ علی امین گنڈہ پور کا شمار پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے بااعتماد ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ علی امین گنڈہ پور تیرہ اگست 1978ء کو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم سینٹ ہیلن ہائی سکول ڈیرہ میں حاصل کی، پولیس پبلک سکول پشاور سے میٹرک کیا، انٹر میڈیٹ گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا، بعد میں نیشنل کالج آف آرٹس لاہور اور پاکستان سکول آف فیشن ڈیزائنگ لاہور سے آرٹ اینڈ ڈیزائن کی تعلیم حاصل کی۔ 2003ء سے عملی سیاست کا آغاز اپنی ایک جماعت بناکر کیا، بعد ازاں 2008ء میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ سکواش میں انڈر 12, 14 & 16 کے قومی چیمپئن رہ چکے ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور کیجانب سے آل پاکستان انٹربورڈ چمپیئن اور انٹر یونیورسٹی چمپیئن بنے۔ گھڑ دوڑ کے مقابلوں میں لاہور ریس کلب میں اقبال ڈے کپ جیتا۔ نیزہ بازی میں علی الامین گنڈہ پور کلب نے پاکستان کے مختلف میلوں میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی الیکشن میں سب سے زیادہ مارجن سے سائوتھ ریجن صدارتی الیکشن جیتا۔ مولانا کے گڑھ ڈیرہ، لکی مروت بنوں، ٹانک سے پاکستان تحریک انصاف کے اکلوتے ٹکٹ ہولڈر تھے اور گیارہ مئی کے انتخابات میں موجودہ اپوزیشن لیڈر مولانا لطف الرحمان کو شکست دے کر ایم پی اے منتخب ہوئے۔ کامیاب ہونے کے بعد صوبائی کابینہ میں صوبائی وزیر مال جیسی اہم وزارت کا حلف اٹھایا۔ موجودہ حالات پر اسلام ٹائمز نے سردار علی امین خان کیساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جسکا احوال انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ مذہب کے نام پر وقف زمینوں پہ ڈی آئی خان میں مسلسل مسائل پیش آرہے ہیں، پہلے کوٹلی امام حسین (ع) کو غیر قانونی طور پر اوقاف کے نام منتقل کیا گیا، اب ایک چرچ کو گرا کر پلازہ کی تعمیر کی جا رہی ہے۔ یہ مسائل کیوں اور کن کیجانب سے پیش آرہے ہیں۔؟
سردار علی امین خان گنڈہ پور:
پہلے کوٹلی امام حسین (ع) کی بات کرتے ہیں۔ کوٹلی امام حسین (ع) کی زمین پر وفاق کی جانب سے مسائل ہیں۔ محکمہ اوقاف نے اس مذہبی زمین کو اپنے نام پر منتقل کر لیا ہے۔ ہم اس کے خلاف کوشش کر رہے ہیں کہ اس کا پرانا سٹیٹس بحال کیا جائے اور کوٹلی امام حسین (ع) کی زمین انہی مقاصد کیلئے استعمال کی جائے کہ جن مقاصد کیلئے یہ وقف ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ وفاق نے کیوں اسے ذاتیات کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ مین شاہراہ پر واقع ہے، اس پر جعلی قبضہ بھی ہے۔ ہم نے اس کی چاردیواری کیلئے فنڈز بھی جاری کئے ہیں اور اخبار میں اس کی باونڈری وال کی تعمیر کیلئے ٹینڈر بھی دیا ہے۔ ایک کروڑ 65 لاکھ روپے اس مد میں جاری کئے گئے ہیں۔ ہم اس کی باونڈری وال تعمیر کرکے محفوظ کرنا چاہتے ہیں، آگے پھر محرم آرہا ہے، خدانخواستہ کوئی سانحہ کوئی حادثہ پیش آجائے تو کون ذمہ دار ہوگا۔؟ چند ہفتے ہوئے ہیں کہ اس پر مزید دکانیں اور پلازے تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی، جو کہ ہم نے رکوائی۔ اس بارے میں ہماری حکومت کی پالیسی مکمل طور پر واضح ہے۔ ہمارا اور اہل تشیع کا موقف ایک ہی ہے۔ جہاں تک چرچ کی بات ہے تو اسی چرچ کے بشپ نے چرچ کے دونوں اطراف دکانیں بنانی شروع کی ہوئی ہیں۔ مسیحی برادری نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے، ہم نے ان دکانوں کی تعمیر رکوائی، بشپ اور اس کے ساتھیوں نے عدالت سے سٹے لے لیا اور اپنے کاروباری مقاصد کیلئے چرچ کی زمین پر دکانیں بنانا چاہتے ہیں۔ امید ہے کہ چند روز میں اس مسئلہ کا حل نکل آئے گا۔ ہم بھی نہیں چاہتے کہ چرچ کی زمین کو کمرشل کرکے وہاں کاروباری سرگرمیاں شروع کی جائیں۔

اسلام ٹائمز: ایک جانب تو کے پی کے حکومت پر یہ الزام ہے کہ دستیاب فنڈ کو استعمال نہیں کر پاتے اور دوسری جانب خیبر پختونخوا جو کہ دہشتگردی کا سب سے زیادہ شکار ہے، یہاں دہشتگردی کے متاثرین کو سب سے کم مالی مدد میسر آتی ہے، چاہے وہ پولیس اہلکار ہوں یا عام شہری۔ اسکی کیا وجہ ہے۔؟
سردار علی امین خان گنڈہ پور:
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے اس سال میں اپنا 80 فیصد بجٹ خرچ کیا۔ اس سے پہلے جو ہمارے تین بجٹ گزرے تو ہم نے باقی صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ بجٹ استعمال کیا۔ آن دی ریکارڈ ہے کہ تینوں صوبوں کے مقابلے میں ہم نے زیادہ بجٹ خرچ کیا ہے۔ رواں بجٹ بھی ہم آخری دن تک سب سے زیادہ استعمال کرکے دکھائیں گے، ان شاء اللہ۔ میگا پراجیکٹس تب ہوتے ہیں جب آپ کو اپنا حق و حصہ ملے۔ ہمارا تو سارا پیسہ وفاق نے بند کیا ہوا ہے۔ گذشتہ تیرہ سال میں گومل یونیورسٹی کو جے یو آئی، پیپلز پارٹی اور ہی اے این پی کی صوبائی حکومت نے ایک روپیہ تک نہیں دیا، ہماری حکومت نے بارہ کروڑ روپے دیئے، حالانکہ اس سے پہلے اساتذہ کو تنخواہوں تک کے لالے پڑے ہوتے تھے۔ یونیورسٹی کو ہم نے بند ہونے سے بچایا۔ آج یونیورسٹیوں کے اندر جاکر وہاں کا تعلیمی ماحول دیکھیں۔ ہمارے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔ ہم تو ترقیاتی منصوبوں کیلئے خیبر بینک اور ورلڈ بینک سے قرضے لینے پر مجبور ہیں۔ ہم نے سکولوں میں اساتذہ کو انشور کیا کہ وہ بیٹھیں، ہم نے پٹوار خانوں میں پٹواری کے بیٹھنے کو یقینی بنایا۔ ہم نے ایم ٹی آئی کے ذریعے ڈاکٹروں کے علاج کو یقینی بنایا۔ آج آپ ہسپتالوں میں جاکر دیکھیں کیا وہاں آپ کو تبدیلی نہیں دکھائی دے رہی۔ میرے اپنے حلقے میں ڈی ایچ کیو ہسپتال سب سے اچھا ہسپتال بن چکا ہے۔ جدید ترین ٹراما سنٹر قائم کیا جاچکا ہے۔

ہمارا حق تو وفاق لیکر بیٹھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے ترقیاتی منصوبوں متاثر ہو رہے ہیں۔ وفاق کے ذمہ اس وقت ہمارے 142 ارب روپے واجب الادا ہیں، ہائیڈل کی مد میں جو کہ ہمارا نیٹ پرافٹ ہے۔ چنانچہ یہ بات کسی طور درست نہیں کہ ہم اپنا بجٹ خرچ نہیں کر پائے۔
جہاں تک دہشت گردی کی بات ہے تو ہماری حکومت میں لا اینڈ آرڈر میں بہت بہتری آئی ہے۔ ہم نے پولیس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور سیاسی اثرورسوخ سے پاک کیا ہے۔ کسی بھی صوبے کی پولیس کے مقابلے میں آج خیبر پختونخوا کی پولیس بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں چارسدہ میں دہشت گردی کا سانحہ پیش آیا ہے۔ پولیس نے ایک بہت بڑی تباہی سے بچایا اور دہشت گردوں کو اپنے عزائم میں ناکامی ہوئی۔ ان پولیس اہلکاروں کے لئے خصوصی پیکج اعلان کیا گیا۔ میں مانتا ہوں کہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں دہشتگردی کا شکار ہونے والوں کو یہاں کم مدد ملتی ہے، مگر بات یہ ہے کہ جب کسی ادارے کو بہتر کرنے کیلئے اقدامات کئے جاتے ہیں تو اس کا خرچ بجٹ میں سے ہی ہوتا ہے۔ کئی ترقیاتی منصوبے اس وجہ سے بھی ہمیں محدود کرنے پڑے، کیونکہ ہم نے اداروں کی بہتری پر خرچ کیا۔

اسلام ٹائمز: کیا نئے پاکستان کا وعدہ اور تبدیلی کے دعوے حقیقت ثابت ہوئے ہیں۔؟
سردار علی امین خان گنڈہ پور:
ہم نے تبدیلی کے دعوے کئے تھے۔ آج بھی کرتے ہیں کہ نوے دن میں تبدیلی آسکتی ہے، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ وفاقی حکومت چوروں کے ہاتھ میں نہ ہو۔ اٹھارویں ترمیم میں جو پاورز صوبوں کو دی گئیں حقیقت میں تو وہ صوبوں کو ملی ہی نہیں ہیں۔ صحیح معنوں میں اس پر عملدرآمد ہی نہیں ہوا۔ ہم نے تبدیلی کے دعوے کئے تھے، 2018ء میں ہم جب عوام کے پاس جائیں گے تو آپ بھی دیکھ لیں گے کہ عوام مطمئن ہے یا نہیں۔ جو اصلاحات ہم نے کی ہیں، اس میں ہماری قربانیاں ہیں۔ آپ بتائیں کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے کہ جو حکومت میں ہو اور تھانوں کو سیاسی اثرورسوخ سے آزاد کرنے میں کردار ادا کرے۔ کون سا ایم پی اے یہ چاہے گا کہ اس کے تھرو تبادلے نہ ہوں، ہماری پارٹی کے اندر انتشار کی وجہ ہی یہی ہے کہ کچھ ایسے لوگ تھے جو پرانا نظام چاہتے تھے۔ ہم نے اسٹینڈ لیا۔ عمران خان کی ہدایت پر اور عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کیلئے ہم نے کردار ادا کیا۔ ہم نے سزائیں بھی دی ہیں، پارٹی سے بندے بھی نکالے۔ ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں ہم نے سیٹوں سے بندے بھی ہٹائے ہیں۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی حکومت آکر یہ بتا دے کہ انہوں نے اپنے بندوں کو اس طرح ہٹایا ہو۔ میں یہ بھی چیلنج کرتا ہوں کہ چاروں صوبائی اور ایک قومی اسمبلی میں واحد تحریک انصاف ہے، جو اپوزیشن کو فنڈ دے رہی ہے اور اتنا فنڈ کہ وہ اپوزیشن کے بندے جو آج تک اپنے اضلاع میں اپنی حکومتوں میں رہتے ہوئے کام نہیں کرسکے، آج زمینی حقائق سامنے ہیں کہ وہ ریکارڈ کام کر رہے ہیں، کیا یہ تبدیلی نہیں ہے۔ تبدیلی تو یہ بھی ہے کہ وہ پشاور جس میں لوگ باہر نہیں نکلتے تھے اور اے این پی والے ہی کہتے تھے کہ ہم جلسہ نہیں کرسکتے، وہ آج ہماری حکومت میں جلسے کر رہے ہیں۔ ہمارے صوبے میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں، نوا زلیگ سے لیکر اے این پی، شیرپاو، جماعت اسلامی یا کوئی اور جماعت چند اضلاع میں ہے۔ پی ٹی آئی واحد سیاسی جماعت ہے کہ جو تمام اضلاع میں بلدیات میں اپنی حکومت بنا چکی ہے۔ ہم نے تو جو چیزیں بنائی اپنے نام پر نہیں بنائیں۔ اے این پی نے تو یونیورسٹی بھی بنائی تو ولی خان کے نام پر بنائی۔ حالانکہ ولی خان خود میٹرک پاس نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب یہی کرتے ہیں، بناتی حکومت ہے اور نام مفتی صاحب کا۔

اسلام ٹائمز: 2018ء میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں، آپکی پارٹی تو انتشار کا شکار ہے، کیسے لڑیں گے الیکشن۔؟
سردار علی امین خان گنڈہ پور:
ہماری پارٹی میں کوئی انتشار نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح نہیں ہے کہ اس میں کسی کو بولنے یا تنقید کا حق حاصل نہ ہو۔ یہ ایک سیاسی جماعت ہے، جس میں انفرادی سطح پر لوگوں میں اختلافات ہوسکتے ہیں، مگر پارٹی کی سطح پر کوئی انتشار نہیں ہے۔ الحمدللہ پارٹی پہلے سے زیادہ مضبوط اور بھرپور کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ البتہ پارٹی میں ہی موجود کچھ لوگ پرانا نظام ہی قائم رکھنے پر بضد تھے، مگر ہم نے وہی کیا جو عوام سے وعدہ کیا تھا۔

اسلام ٹائمز: وزراء ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کئے ہوئے ہیں، کچھ عرصہ قبل صوبائی وزیر زراعت نے آپکے خلاف باقاعدہ پریس کانفرنس کی تھی۔؟
سردار علی امین خان گنڈہ پور:
جس کی آپ بات کر رہے ہیں، اس کا پارٹی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ وہ آزاد منتخب ہوا اور بعد میں اس نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ مذکورہ صوبائی وزیر اکرام خان کا خاندان گذشتہ چالیس سال سے کلاچی پر حکومت کرتا آ رہا ہے، یہاں تک کہ ان کے والد وزیراعلٰی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر میں سہولیات کے فقدان کا بہانہ کرکے ایک پریس کانفرنس تو کر ڈالی، مگر کوئی اس سے یہ تو پوچھے کہ گذشتہ چالیس سال میں کلاچی پر حکومت کے باوجود کیا وجہ تھی کہ آپ کو ایک بلڈ پریشر کے مریض کو ڈیرہ لانا پڑا۔ وہ چالیس سال میں اپنے کلاچی ہسپتال کو سہولیات فراہم کیوں نہیں کرسکے، جس کی وجہ سے ان کو اپنا مریض ڈیرہ ہسپتال لانا پڑا۔ اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے جو الزام لگایا، وہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ تو اس معاملے کا پارٹی انتشار سے کوئی تعلق نہیں، ذاتی عناد پر یہ ہوا تھا، وہ خود تو کچھ ڈلیور نہیں کر پائے۔

اسلام ٹائمز: وفاقی حکومت نے خیبر پختونخوا میں کام کیا ہے، تو کیا آئندہ انتخابات میں عوام انکا خیر مقدم نہیں کرینگے۔؟
سردار علی امین خان گنڈہ پور:
زیادہ تر فیتے ان پراجیکٹس کے کاٹے جا رہے ہیں، جن کا کوئی وجود نہیں۔ وزیراعظم صاحب پہلے کوہاٹ میں آئے بڑے بڑے دعوے کئے مگر کچھ نہیں ہوا۔ پھر بنوں میں آئے، ائیرپورٹ اور پتہ نہیں کیا کیا دعوے کئے، مگر بجٹ میں ایک روپیہ نہیں رکھا۔ پھر ڈی آئی خان آئے اربوں روپے کے بلند و بانگ اعلانات کئے مگر ایک روپیہ نہیں دیا۔ میٹرو پہ میٹرو بنا رہے ہیں، مگر تعلیم، بنیادی ضروریات اور اہم پراجیکٹس کو نظرانداز کئے جا رہے ہیں۔ پوری قوم جانتی ہے کہ سڑکیں، میٹرو کے ٹھیکیداری نظام میں کس کا فائدہ ہے۔ ہم نے تو منصوبوں میں کرپشن کے خاتمے کیلئے سب سے پہلے کے پی کے میں پراجیکٹ کمیٹی ختم کی، ایم پی ایز پر مشتمل کمیٹی ہوتی تھی، جو کہ کرپشن کا دروازہ بنتا۔ ہم اصلاحات لائے ہیں۔ کے پی کے کی پچھلی حکومت میں ایک صوبائی وزیر مال مخدوم مرید کاظم، اس نے بطور وزیر نیوی کو زمین الاٹ کرنے کے بعد واپس نیوی سے گفٹ لی۔ اس پر کیس ہوا، اس کیس میں وہ اندر گیا اور اب ضمانت پر باہر گھوم رہا ہے۔ یہی کیس ہے، اکرم درانی پر تھا کہ اس نے آرمی سے 22 سو کنال زمین لی اور مولانا فضل الرحمن نے بھی بائیس سو کنال زمین لی۔ اب نواز لیگ نے انہیں اپنے ساتھ ملانے کیلئے نیب سے وہ فائل بند کرا دی۔ نیب انہوں نے (نواز لیگ) کیوں بٹھائی ہوئی ہے کہ اس کے ذریعے اپنی ڈیلنگ کرتے ہیں۔ نیب ان کو شیلٹر دے رہی ہے۔ عدلیہ ان کو شیلٹر دے رہی ہے۔ نواز شریف چور ہے، عوام یہ جان چکے ہیں اور اس کا اندازہ انتخابات میں بھی ہوجائے گا۔

اسلام ٹائمز: افغان مہاجرین کی جبراً واپسی کیلئے پی ٹی آئی پہلے بات کرتی رہی، اب حالیہ سانحات کے بعد پاک افغان بارڈر بھی بند کر دیا گیا ہے۔ کیا ان اقدامات سے دہشتگردی کے مسائل حل ہوجائیں گے۔؟
سردار علی امین خان گنڈہ پور:
پاکستان نے ہمیشہ ہی افغانستان کی پرخلوص مدد کی ہے، مگر اس پرخلوص مدد کا جواب یا اس کا نتیجہ کچھ بہتر برآمد نہیں ہوا۔ افغان جنگ کے دوران بھی پاکستان نے دامے درمے سخنے افغانستان کی مدد کی۔ یہاں تک کہ چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کیا۔ انہیں اپنے بھائیوں کی طرح اپنے دل اور اپنی زمین پر جگہ دی، مگر یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ افغان ہر دور میں پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلے۔ پاکستان کے خلاف زیادہ تر سازشوں اور حربوں کیلئے افغان سرزمین استعمال ہوئی۔ ابھی بھی آپ دیکھ لیں کہ پاکستان میں جو بھی دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے، اس کے تانے بانے افغانستان کے اندر جاملتے ہیں۔ یہاں سے جو دہشت گرد فرار ہوئے، انہیں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں میسر آئیں۔ یہ بھی ایک افسوس ناک امر ہے کہ وہی افغان حکومت کہ جس کے ساتھ پاکستان نے ہر ممکن تعاون کیا۔ اس کی چھتری تلے دہشت گرد محفوظ ہیں۔ آپ خود دیکھیں وہاں سے باقاعدہ فوٹیج جاری کرتے ہیں، بندے بھیجتے ہیں، پھر وہیں سے ان سرگرمیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ منصوبہ بندی سے لیکر ذمہ داری تک افغان زمین استعمال ہوئی۔ تو ایسی صورت میں بارڈر بند نہ کیا جائے تو اور کیا کیا جائے۔ پاک افغان ایک طویل سرحد ہے۔ اس کو مکمل طور پر بند کرنا یا محفوظ کرنا بہت بڑا چیلنج ہے، مگر اسے مکمل طور پر محفوظ کرنا ہوگا۔ افغان حکومت کو بھی سرحد پر غیر قانونی آمدورفت میں بند باندھنے کیلئے تعاون کرنا ہوگا۔ ہم نے افغان مہاجرین کو بھائی بنایا، مگر اب ملکی مفاد اور سلامتی کیلئے ان کی واپسی ضروری ہے۔ اگر اتنے طویل عرصے بعد بھی ان کو واپس کرنے پر ہماری میزبانی پر حرف آتا ہے تو ہمیں قبول ہے۔ اگر ہمیں برا میزبان کہا جاتا ہے تو ہم برے میزبان ہیں، مگر اب افغان مہاجرین کو واپس جانا چاہیئے اور پاک افغان سرحد کو مکمل طور پر محفوظ کرنا ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنیکی صرف مولانا فضل الرحمن مخالفت کر رہے ہیں، اس مخالفت کی کیا وجہ ہے۔؟
سردار علی امین خان گنڈہ پور:
پہلے بات کرتے ہیں زمینی حقائق کی۔ فاٹا کا ایریا باجوڑ ایجنسی سے شروع ہو کر جنوبی وزیرستان تک پھیلا ہوا ہے۔ فاٹا کی سات ایجنسیاں، باجوڑ ایجنسی، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، کرم ایجنسی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے ساتھ ساتھ فرنٹیئر ریجن (پشاور، کوہاٹ، بنوں، لکی مروت، ٹانک، ڈی آئی خان پر مشتمل ہے) فاٹا کی تمام ایجنسیوں کے راستے فرنٹیئر ریجن سے نکلتے ہیں، جبکہ ان فرنٹیئر ریجن پر ڈی سی اوز تعینات ہیں۔ باجوڑ ایجنسی کا راستہ (تیمرگرہ) ضلع دیر سے نکلتا ہے، چار سدہ میں (گلا نائی) کے مقام سے مہمند ایجنسی کی رابطہ سٹرک ہے۔ خیبر ایجنسی کا راستہ پشاور (جمردو) سے نکلتا ہے۔ اورکزئی اور کرم ایجنسی کا راستہ ہنگو سے ہے۔ شمالی وزیرستان کا راستہ بنوں سے جبکہ جنوبی وزیرستان کا راستہ ڈیرہ اسماعیل خان و ضلع ٹانک سے جاتا ہے۔ فاٹا کے ان قبائلی علاقہ جات (ایجنسیز) کا ایک دوسرے سے براہ راست رابطہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان کے آپس میں سماجی، معاشرتی اور معاشی تعلقات بھی زیادہ گہرے نہیں ہیں۔ تمام ایجنسیز کے رہنے والے متعلقہ اضلاع سے گہرے مراسم اور روابط رکھتے ہیں۔ فاٹا کے روز مرہ کے معمولات اور مسائل کے حل کے لئے چیف ایگزیکٹو (گورنر) اور پولیٹکل ایجنٹ پشاور میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ تو ہیں زمینی حقائق۔ اب فاٹا کی معاشی، معاشرتی، سماجی، تعلیمی صورت حال پر نظر دوڑائیں نا ذرا۔ تو پسماندہ ترین ہے۔ یعنی الگ سے صوبہ بنانے کی اجازت نہ ہی زمینی حقائق دیتے ہیں اور نہ ہی فاٹا کے اپنے اندرونی حالات۔ اگر ہم فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کا کڑوا گھونٹ پینے کو تیار ہیں تو فاٹا کے عوام کے لئے اور وسیع تر ملکی مفاد کیلئے۔ وہاں کے عوام اصرار کر رہے ہیں کہ ہمیں خیبر پختونخوا میں ضم کرو۔ وہ بھی تنگ ہیں اس مسلط کردہ نظام سے۔ ملکی اداروں کی سفارشات بھی یہی ہیں کہ فاٹا میں بحالی اور سیاسی استحکام کیلئے اس کے سٹیٹس کی تبدیلی ضروری ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ فاٹا کے ضم ہونے سے خیبر پختونخوا پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ ہر چیز کے اعداد و شمار میں تبدیلی واقع ہوگی، مگر یہ ملکی استحکام کیلئے ضروری ہے، کیونکہ جب تک فاٹا پرامن نہیں ہوگا، اس وقت تک پاکستان میں بدامنی کو ختم کرنا مشکل ہوگا۔ پاکستان کیلئے، فاٹا کیلئے، فاٹا کے عوام کیلئے ضروری ہے کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے۔ ان حقائق سے روشناس ہونے کے باوجود اگر کوئی اس انضمام کی مخالفت کرتا ہے تو میرے خیال میں وہ نہ ہی پاکستان سے مخلص ہے اور نہ ہی فاٹا کے عوام سے۔ مولانا فضل الرحمن ہمیشہ ہی اینٹی سٹیٹ کام اور باتیں کرتے ہیں۔ اس مسئلہ پر بھی مولانا ایک طرف ہیں اور پورا پاکستان دوسری جانب۔ ویسے مجھے نہیں لگتا کہ انہیں (حکومت اور اتحادی) ملک کے امن و استحکام میں کوئی دلچسپی ہے۔ یہ جو دیگر صوبوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہوئے تو اس میں جنرل راحیل شریف کی دلچسپی تھی۔ فاٹا، خیبر پختونخوا، بلوچستان میں آپریشن ہوئے تو دہشت گرد پنجاب میں منتقل ہوئے اور وہ بھی اس یقین کے ساتھ کہ ان کے خلاف پنجاب میں کارروائی نہیں ہوگی۔ کراچی میں رینجرز آپریشن، خیبر پختونخوا میں فوجی آپریشن ہوسکتا ہے تو پنجاب میں کیوں آپریشن نہیں کیا جاسکتا۔ کتنی ہی رپورٹس آئی ہیں کہ پنجاب میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ مجھے تو آج تک میاں نواز شریف کی بھی پوری سمجھ نہیں آئی۔ میاں صاحب بھارت کی جانب زیادہ اور پاکستان کی جانب کم ہیں۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ بھارت دہشتگردی کرا رہا ہے۔ دوسری جانب شریف خاندان کی شوگر ملز میں بھارتی ملازمین کام کرتے ہیں۔ میرا سوال تو یہ ہے کہ کیا پاکستان اتنی ترقی کرچکا ہے کہ یہاں محنتی افرادی قوت دستیاب نہیں کہ انہیں اپنی ملز کیلئے سٹاف بھارت سے منگوانا پڑا اور پھر اسے صیغہ راز میں بھی رکھا۔ یہ میڈیا نے بھانڈا پھوڑا، ورنہ کسی سرکاری ادارے نے تو اس کا نوٹس نہیں لیا۔
خبر کا کوڈ : 612112
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش