0
Wednesday 26 Jul 2017 12:46
دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

پانامہ کیس کا فیصلہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا فیصلہ ہوگا، سینیٹر تاج حیدر

فردوس عاشق اعوان کی بھی بولی لگی، جس میں وہ پی ٹی آئی کو پیاری ہوگئیں
پانامہ کیس کا فیصلہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا فیصلہ ہوگا، سینیٹر تاج حیدر
سینیٹر تاج حیدر کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے، وہ 1942ء میں کوٹہ راجھستان (برطانوی انڈین سلطنت) میں پیدا ہوئے، 1947ء میں جب پاک انڈیا کی تقسیم ہوئی تو انکا خاندان کراچی آکر آباد ہوگیا۔ وہ ایک بہت تعلیم یافتہ اور مہذب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے کراچی کالج سے میتھیمیٹکس میں بی ایس سی آنرز کیا اور پھر اسی کالج سے 1965ء میں ایم ایس سی کی۔  پیشے کے لحاظ سے وہ ریاضی دان اور سائنسدان ہیں، وہ بہترین سیاستدان ہونے کیساتھ ساتھ بہت اچھی شخصیت کے مالک ہیں، 1970ء کی دہائی میں، انہوں نے جوہری بم منصوبوں کے بارے میں عوامی پالیسی کو تشکیل دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اسکے بعد انہوں نے خود کو سیاست سے الگ کر لیا، لیکن پاکستان ریاضی سوسائٹی کے رکن باقی رہے، انہوں نے 1979ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کیلئے سیاسی ڈرامے لکھے، 1985ء میں انہوں نے پی پی پی کیساتھ اپنی ایسوسی ایشن کو تجدید کیا۔ 1990ء سے 2000ء میں، انہوں نے پی پی پی کے ہیوی میکینکل کمپلیکس (ایچ ایم سی) اور حب ڈیم جیسے ابتدائی صنعتی منصوبوں میں حصہ لیا اور مختلف دیگر سماجی پروگراموں کی تشکیل کی۔ 2001ء میں، تاج حیدر نے پی ٹی وی میں دوبارہ اپنی ادبی سرگرمیاں شروع کیں اور 2003ء میں پی ٹی وی کے لئے دو سیاسی ڈرامہ سیریل قلمبند کئے۔ 2006ء میں انہیں پی ٹی وی کیجانب سے بیسٹ پلے رائٹر کا ایوارڈ دیا گیا اور 2012ء میں انہیں جوہری بم منصوبے میں انکی خدمات پر ستارہ امتیاز سے نوازا گیا، اسلام ٹائمز نے ملک کی حالیہ سیاسی صورتحال پر ان سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: پانامہ کیس کا فیصلہ ابھی تک رُکا ہوا ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اسکی درپردہ وجوہات کیا ہیں اور کیا نظر آرہا ہے کہ فیصلہ کس کے حق میں ہوگا۔؟
تاج حیدر:
دیکھیں، پہلی بات تو واضح ہے جے آئی ٹی نے جو رپورٹ پیش کی، اس کی روشنی میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دینا ہے، اب ظاہر سی بات ہے کہ فیصلہ نواز شریف کے خلاف اور پاکستان کی عوام کے حق میں آئے گا، ہمیں سپریم کورٹ پہ پورا بھروسہ ہے، ہمارے معزز جج حق پر مبنی فیصلہ دیں گے اور پانامہ کا فیصلہ پاکستان کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے، جہاں تک فیصلہ رکنے کی بات ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا فیصلہ ہوگا، کیونکہ یہ ایک بڑا فیصلہ ہے پاکستان کے لئے، پاکستان کی بقاء کے لئے، پاکستان کے مستقبل کے لئے، ایسے فیصلوں میں وقت لگتا ہے، (ہنستے ہوئے) آپ میڈیا والے ہر کام میں جلدی کرنے پہ تُلے ہوئے ہوتے ہیں، تھوڑا سا انتظار کر لیں فیصلہ آجائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے وکلاء اور قانونی ماہرین نے جے آئی ٹی رپورٹ دیکھی، اس کو پڑھا، اس پہ اپنے مطلب کے نقاط انڈر لائن کئے اور ان پر اعتراض بھی جمع کرائے، اب عدالت نے ان کے اعتراضات کو بھی مدِنظر رکھنا ہے اور جے آئی ٹی رپورٹ کو بھی، بہرحال یہ بات تو واضح ہوچکا ہے کہ نواز شریف منی ٹریل جمع کرانے میں ناکام ہوئے ہیں، ملک کی عوام کے آگے ملک کے اداروں کے آگے، وہ جواب دہ ہیں، اگر وہ جواب نہیں دیتے یا دینے میں ناکام ہوتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے انکو گھر جانا ہوگا اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم کے گھر جانے سے مسلم لیگ (ن) کا اچھا خاصا نقصان ہوگا۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم سے استعفے کے متعلق پی ٹی آئی، پی پی پی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں متحد تھیں، جب قومی اسمبلی میں قرارداد جمع کرانیکی بات آئی تو پیپلز پارٹی کیجانب سے اسکی مخالفت کی گئی، کیا پیپلز پارٹی پھر سے مک مکا پالیسی پر گامزن ہے۔؟
تاج حیدر:
آپ کو کس نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے مخالفت کی؟ جس کسی نے بھی کہا یا میڈیا نے یہ بات نشر کی تو انہوں نے غلط کیا، پیپلز پارٹی پاکستان کی ایک بڑی جماعت ہے، اس وقت ایک بہترین اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے، وزیراعظم سے استعفٰی لینے سے متعلق ہماری رائے واضح ہے، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کئی بار میڈیا پہ آکر ان سے استعفٰی کا مطالبہ کیا، اب جو کوئی بھی کہہ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی وزیراعظم سے استعفٰی کے متعلق قرارداد جمع کرانے کی مخالفت کر رہی ہے تو یہ ان کی اپنی من گھڑت بات ہے، اس سے پہلے بھی ہم پہ الزام لگائے جاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ایک فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے، موجودہ حکومت نے جو بھی غلط فیصلہ کیا یا کوئی غلط کام کیا تو ایک اپوزیشن جماعت ہونے کے ناطے ہم نے بھرپور مخالفت کی اور کھل کر مخالفت کی، ہماری پالیسیاں پاکستان کے مفاد میں ہیں، اگر کہیں کوئی ڈھیل دی بھی جاتی ہے تو اس میں ملک کی بھلائی کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ آپ نے جو بات کی کہ مک مکا کی پالیسی تو یہ بتائیں کہ پیپلز پارٹی نے کب سودا کیا؟ یہ صرف ہم پہ الزام لگایا جاتا ہے، آپ کو میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں، پی ٹی آئی کا اپنا نظریہ ہے، ان کی اپنی سوچ ہے، ان کا کام کرنے کا ایک اپنا انداز ہے، ہمارا کام کرنے کا الگ انداز ہے، ہمارا کام کرنے کا اپنا طریقہ ہے، اب جبکہ ضرورت پڑی تو پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ایک ساتھ ہے، ساتھ اس لئے ہے کہ یہ ملکی مفاد میں ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ ویسے بھی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتی ہیں، جیسے کہ عمران خان، نیازی خان، طالبان کا ساتھی، یوٹرن ماسٹر وغیرہ، اسی طرح پیپلز پارٹی پہ بھی یہ الزام تھوپ دیا گیا ہے کہ یہ مک مکا کی پالیسی پہ عمل پیرا ہیں، جو ایسا کہتے ہیں، وہ کہتے رہیں، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

اسلام ٹائمز: وزیر داخلہ چودھری نثار مسلم لیگ نون سے ناراض ہیں اور انہوں نے اعلان بھی کیا کہ اہم پریس کانفرنس ہوگی، لیکن کسی نہ کسی وجہ سے وہ ملتوی ہوگئی، آپکے تجربات کیمطابق کیا وزیر داخلہ پارٹی چھوڑنا چاہ رہے ہیں؟ اور اگر چھوڑ بھی دیتے ہیں تو کیا وہ کسی اور پارٹی میں شامل ہونگے یا اپنی پارٹی بنا لیں گے۔؟
تاج حیدر:
دیکھیں پہلی بات تو یہ ہے انسان کے اندر کی بات کوئی نہیں سمجھ سکتا، یہاں پاکستان میں سیاستدانوں پہ بولیاں لگتی ہیں، خریدا جاتا ہے، خریدنے والے ایسے خریدتے ہیں کہ پارٹی والے بیچارے تکتے رہ جاتے ہیں، یہ بات درست ہے کہ وزیر داخلہ پارٹی سے ناراض ہیں اور ناراض بھی کیوں نہ ہوں، ان کو اہمیت ہی کم دی جا رہی ہے، یہ جو اہم پریس کانفرنس اہم پریس کانفرنس کہا جا رہا ہے کہ یہ صرف دباؤ ڈالنے کے لئے تھا۔ چوہدری نثار کو جہاں ذاتی طور پہ میں جانتا ہوں تو وہ ذہین سیاستدان ہیں، اگر وہ وزیراعظم کو کوئی مشورہ دیتے بھی ہیں تو انہیں ان کی رائے بھی سننی چاہیئے، ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ چوہدری نثار پارٹی چھوڑنے کا اعلان کریں گے یا وہ الگ پارٹی بنائیں گے، لیکن یہ بات تو سو فیصد درست ہے، جو بھی سیاسیدان کوئی پارٹی چھوڑتا ہے یا تو وہ اپنی پارٹی بنا لیتا ہے یا کسی اور میں شامل ہو جاتا ہے، جہاں تک مجھے علم ہے تو چوہدری نثار پارٹی سے علیحدگی اختیار نہیں کریں گے، کافی عرصے سے انکا مسلم لیگ (ن) کا ساتھ ہے، اخلاقی طور پر اگر دیکھا جائے تو اس وقت ان کو اپنی پارٹی کا ساتھ دینا چاہیئے، بعد میں وہ بے شک الگ ہو جائیں۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وزیراعظم کی نااہلی کیصورت میدان خالی نہیں چھوڑیں گے بلکہ اپنا امیدوار سامنے لائینگے، کوئی شخصیت واضح ہوئی کہ کس کو سامنے لایا جائیگا۔؟
تاج حیدر:
دیکھیں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اکثریت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پہ ہے، اگر وزیراعظم کو سپریم کورٹ گھر بھیجتا ہے تو نئے وزیراعظم کے مقابلے میں پیپلز پارٹی اپنا امیدوار سامنے لائے گی، ابھی تک کسی کام نام یا کوئی شخصیت کا مجھے علم نہیں کہ کس کو سامنے لایا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: آپکی پارٹی کی ایک دبنگ سیاسی رہنما فردوس عاشق اعوان پی ٹی آئی میں شامل ہوئی ہیں، کیا انکے جانے سے پنجاب میں آپکی پارٹی کو نقصان ہوا؟ کیونکہ انکا اپنا ایک سیاسی قد کاٹھ ہے۔؟
تاج حیدر:
دیکھیں فصلی بٹیرے آپ کو ہر جگہ نظر آئیں گے، کچھ ہماری پارٹی میں بھی تھے، جو چلے گئے، فردوس عاشق اعوان کے جانے سے ہمیں نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوا ہے، ان کا اپنا ایک سیاسی قد کاٹھ ہے تو ہو، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، ہماری پارٹی کا اپنا ایک نام ہے، فردوس عاشق اعوان کو کون جانتا تھا؟ اگر وہ آج اس مقام پہ پہنچی ہیں تو پیپلز پارٹی کی وجہ سے پہنچی ہیں، اب یہ اور بات ہے کہ وہ کسی اور کی طرف چلی گئی، ہمیں سیالکوٹ میں ان سے بھی اچھی شخصیت مل جائے گی، کسی کہ آنے یا جانے سے پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، پارٹی کا ایک اپنا حجم ہے، یہاں پھر سے وہی بات آجاتی ہے، جیسے کہ میں نے پہلے کہا یہاں بولیاں لگتی ہیں، فردوس عاشق اعوان کی بھی بولی لگی، جس میں وہ پی ٹی آئی کو پیاری ہوگئیں۔

اسلام ٹائمز: لاہور میں فیروز پور روڈ پر دھماکہ ہوا، جس میں کافی جانی نقصان ہوا، اسوقت ملک کی مخصوص صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ اس تناظر میں کیا کہنا چاہیں گے؟ کیونکہ عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں انتشار پھیلانا چاہ رہی ہے، تاکہ لوگوں کی توجہ دوسری جانب مبذول کرائی جا سکے۔؟
تاج حیدر:
دیکھیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، پاکستان میں دھماکے، دہشتگردی تب بھی تھی، جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہیں تھی، آپ مشرف کا دور حکومت دیکھ لیں، پیپلز پارٹی کی حکومت میں دیکھ لیں، پاکستان کو ایک بہت بری طرح سے دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا اور اب بھی بنایا جا رہا ہے، جب پانامہ کیس کا نام و نشان بھی نہیں تھا، تب بھی دھماکے ہو رہے تھے، تب بھی لاشیں گر رہی تھیں، دہشتگردی ملکی نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے، پاک فوج کے آپریشن کامیابی سے جاری ہیں، ضربِ عضب دیکھ لیں، ردالفساد اور اب خیبر 4، تو یہ یوں سمجھ لیں کہ دہشتگردی پاکستان میں ختم ہو رہی ہے اور دہشتگرد اپنا آخری زور لگا رہے ہیں، جیسے مرنے سے پہلے بندہ ہاتھ پاؤں مارتا ہے، یہ کہنا کہ حکومت یہ سب کروا رہی ہے تو میرے خیال سے ٹھیک نہیں ہے، عوام کی ایک اپنی نظر ہوسکتی ہے، لیکن میں ایسا کچھ نہیں سوچ رہا۔ دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں، ان کو تو بس ٹارگٹ دیا جاتا ہے کہ بھائی تم نے فلاں جگہ بم دھماکہ کرنا ہے، یا فلاں جگہ کسی پر گولیاں چلانی ہیں، یہاں آپ کراچی میں دیکھیں کس طرح سے باہر کی ایجنسیاں ملوث تھیں، را ہوگئی، موساد ہو یا امریکی سی آئی اے پاکستان میں دہشتگردی کے ذمہ دار تو یہی ہیں، ان کی وجہ سے آج ستر ہزار سے زیادہ پاکستانی شہید ہوچکے ہیں، آپ دیکھیں ایک طرف پاکستان میں دھماکے ہو رہے ہیں تو دوسری طرف افغانستان میں، انڈیا دونوں طرف سے مزے لے رہا ہے ہمیں مار کر۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں دہشتگردی کی ذمہ دار صرف یہی ایجنسیاں ہیں، جنکا آپ نے ذکر کیا یا جنرل ضیاءالحق بھی ہیں؟ کیونکہ تاریخ میں دیکھا جائے تو انکی غلط پالیسوں کیوجہ سے بھی پاکستان نے کافی لاشیں اٹھائی ہیں۔؟
تاج حیدر:
دیکھیں، پہلی بات تو یہ واضح ہے کہ باہر سے کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا، جب تک آپ کے ملک کے اندر کے لوگ ان کو سپورٹ نہیں کریں گے، تب تک کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا، اس میں ہمارے ملک کی غلط پالیسیاں بھی ہیں، جس کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے، پہلے جنگ اگر بارڈر پہ تھی تو اب وہ ملک کے اندر ہے، اندر کیسے آئی سب بہتر جانتے ہیں، ہم افغانستان جیسی پرائی جنگ کا حصہ بنے، اس میں آپ دیکھیں ہمیں کتنا نقصان ہوا، جس کے کہنے پہ ہم حصہ بنے، آج وہی ہم سے ناراض ہیں، اس وقت صرف ڈالرز دیکھے گئے، اگر ڈالرز کے لالچ میں نہ آتے تو شاید آج یہ حال نہ ہوتا۔
خبر کا کوڈ : 655548
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش