0
Friday 15 Sep 2017 23:47

اقوام متحدہ نے اپنا رول ادا نہ کیا تو بڑی تعداد میں مزید روہنگیا مسلمان موت کا شکار ہوسکتے ہیں، سینیٹر طلحہ محمود

اقوام متحدہ نے اپنا رول ادا نہ کیا تو بڑی تعداد میں مزید روہنگیا مسلمان موت کا شکار ہوسکتے ہیں، سینیٹر طلحہ محمود
سینیٹر طلحہ محمود وہ واحد پاکستانی سیاست دان ہیں، جو میانمار میں مظالم کے شکار روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے امدادی سامان لیکر بنگلادیش اور برما کے بارڈر پر قائم مہاجر کیمپ پہنچے اور انکی مدد کی۔ جے یو آئی (ف) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر طلحہ محمود نے کئی دن روہنگیا مسلمانوں کے درمیان گزارے اور انکے حالات سے آگہی حاصل کی۔ ہری پور ہزارہ سے تعلق رکھنے والے یہ سیاست دان اچھے خاصے پیسوں والے جانے جاتے ہیں، انہوں نے اپنے نام طلحہ محمود فاونڈیشن بھی بنا رکھی ہے، جسکے ذریعے غریب و نادار لوگوں کی مدد کی جاتی ہے۔ اسلام ٹائمز نے پاکستان واپسی کے موقع پر سینیٹر طلحہ محمود سے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر ایک خصوصی گفتگو کی ہے، جسکی تفصیل قارئیں کیلئے پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: آپ بنگلہ دیش کے راستے برما گئے، برمی مسلمانوں کی کیا مشکلات دیکھیں۔؟
سینیٹر طلحہ محمود:
جی دیکھیں سب سے زیادہ وہاں پر دو قسم کی مشکلات ہیں، ایک یہ کہ اُن کے پاس کھانے کیلئے فوڈ ایٹم نہیں، دوسرا یہ کہ متاثرین کے پاس شلٹر نہیں ہے، یعنی سر چھپانے کیلئے کچھ نہیں ہے، وقفے وقفے سے بارشیں ہو رہی ہیں، اس کے علاوہ بھی انسانی ضروریات ہیں، جو ان کے پاس نہیں ہیں، جس کے باعث برمی مسلمان بہت مشکلات کا شکار ہیں۔ تاہم جو دو چیزیں بیان کی ہیں، اس کے بغیر تو زندگی گزرانا ہی مشکل کام ہے، اس کے علاوہ بیماریوں کا معاملہ ہے، ان کے پاس میڈیسن نہیں، بچوں کے دودھ کا مسئلہ ہے، اس وقت چھوٹے چھوٹے بچے بھوکے ننگے بیٹھے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اوپر بیان کی گئی دو چیزیں فی الوقت نہایت اہم ہیں، کیونکہ وہاں پر جو نئے لوگ آ رہے ہیں، وہ تن تنہا ہیں، سوائے بدن پر کپڑوں کے۔ اس کے علاوہ اُن کے پاس کچھ نہیں، اب جو خالی ہاتھ آ رہا ہے، اُسکو بنیادی ایشیاء کی تمام چیزوں کی ضرورت ہے، پھر ٹائم آہستہ آہستہ گزرے گا تو باقی چیزیں بھی ساتھ شامل ہو جایئں گئی۔ یہ تعداد ہزاروں کی ہے، جو لاکھوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ جتنا وہاں سے انخلا ہو رہا ہے، اب اُن کے لئے آگے بھی موت ہے اور پچھے بھی موت ہے، فرق اتنا ہے کہ پیچھے تو یقنی موت ہے لیکن آگے بچ جانے کا امکان ہے۔ جو میں دیکھ رہا ہوں، وہ یہ کہ اگر برمی مسلمانوں کو ریلیف نہ دیا گیا تو زیادہ اموات ہونے کا خدشہ ہے۔ اگر اب بھی عالمی ادارے اور اقوام متحدہ بیدار نہیں ہوتے اور حرکت نہیں کرتے تو یہ بہت بڑا ظلم ہوگا۔ ان کو اس وقت ضرور نوٹس لینا چاہیے، کیونکہ نوٹس لینے سے ان کو ریلیف مل سکتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ جن کی زمین چھن گئی، گھر بار لٹ گیا بلکہ آگ لگا دی گئی، اب ان کے پاس کچھ بھی تو نہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ وہاں پر انفرادی حیثت سے گئے تھے یا حکومت کیطرف سے۔ اسکے علاوہ کیا سمجھتے ہیں کہ حکومتی سطح پر کیا اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔؟
سینیٹر طلحہ محمود:
میں یہ سمجھتا ہوں کہ صرف ہماری حکومت ہی نہیں بلکہ اس پر ایک عالمی کانفرنس بلانے کی ضروت ہے اور برما سمیت ان سب ممالک پر پریشر ڈالا جائے، جو اس ایشو کے ساتھ منسلک ہیں، تاکہ بےگھر ہونے والوں کو ریلف دیا جاسکے، اس وقت جو ظلم ہو رہا ہے، وہ بھی بند کرانے کی ضرورت ہے، یہ دباو ڈالنا چاہیئے کہ برمی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو اپنے گھر جانے دے۔ ان کی زندگی کو درپیش خطرات کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ برمی مسلمانوں کی زندگی خطرے میں ہے اور انسان کی اہم چیز بھی زندگی ہے، جب انسان کی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے، وہ تب ہی گھر بار چھوڑتا ہے۔

اسلام ٹائمز: او آئی سی سے کوئی توقع ہے۔؟
سینیٹر طلحہ محمود:
میرے خیال میں او آئی سی بہت کچھ کرسکتی ہے اگر وہ سنجیدہ ہو، کیونکہ سیاسی عزم اور ارادے کی ضرورت ہے، مجھے نہیں پتہ کہ کتنی سنجیدہ ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلم ممالک کا بھی اتحاد بنا ہوا ہے، راحیل شریف بھی وہاں پر ہیں، اس حوالے سے کوئی امید ہے۔؟
سینیٹر طلحہ محمود:
ان سب کو پتہ ہے اور یہ سب تک آواز پہنچ رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی مسئلوں کو بالائے طاق رکھا جائے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے خود ملاقاتیں کی ہیں، اتنے بڑے قتل عام کیوجہ کیا نظر آتی ہے۔؟
سینیٹر طلحہ محمود:
برما کی جو حکومت ہے، وہ بنیادی طور پر شروع سے ہی یہ چاہتی ہے کہ یہ مسلمان یہاں سے نکل جائیں اور اس علاقے کو خالی کر دیں، اس حوالے سے ان کو پاسپوٹ نہیں دیئے گئے، ان کو شہری تسلیم نہیں کیا اور بنیادی حقوق تک نہیں دیئے۔ حتٰی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے ان کو اجازت لینی پڑتی تھی، ان کو مسجد نہیں بنانے دیتے۔ تیس سال سے کوئی مسجد نہیں بنی، مذہبی فرائض انجام دینے میں رکاوٹیں ہوتی تھیں، یہ ساری چیزیں کافی عرصے سے چل رہی تھیں، اب حکومت ننگی ہو کر سامنے آگئی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا اس صورتحال کے پیچھے مودی کو بھی دیکھ رہے ہیں۔؟
سینیٹر طلحہ محمود:
جی بالکل، انڈیا نے برمی حکومت کے سر پر ہاتھ رکھا ہے تو ان میں اتنی ہمت آئی ہے، ابھی کچھ دن پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے وہاں کا دورہ کیا ہے، اس کا مقصد بھی یہی تھا۔

اسلام ٹائمز: یہاں پر آوازیں اٹھتی رہی ہیں کہ برما کے سفیر کو پاکستان سے نکالا جائے، آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے مسلئہ حال ہو جائیگا۔؟
سینیٹر طلحہ محمود:
میرا نہیں خیال کہ اس سے مسئلہ حل ہوگا یا حل ہوسکتا ہے، البتہ اس عمل سے پیغام دیا جاسکتا ہے، باقی آپ کے برما کے ساتھ معاہدے بھی ہیں، یہ عمل ان معاہدوں پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 669260
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش