0
Thursday 22 Nov 2018 21:26
مسلمان کی قوت و طاقت کا راز وحدت اسلامی میں پوشیدہ ہے

فکرونظر کے اختلاف کے باوجود اتحاد امت کو اپنی ایمانی اور اسلامی زندگی کا نصب العین سمجھتے ہیں، مولانا الطاف جمیل ندوی

اتحاد امت شرعی اور سماجی ضرورت ہے
فکرونظر کے اختلاف کے باوجود اتحاد امت کو اپنی ایمانی اور اسلامی زندگی کا نصب العین سمجھتے ہیں، مولانا الطاف جمیل ندوی
مولانا الطاف جمیل ندوی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شمالی ضلع بارہمولہ سے ہے۔ ابتدائی زندگی سے مطالعہ کرنے اور لکھنے کا شوق و ذوق رکھتے تھے۔ آج وہ کشمیر اور بھارت کیساتھ ساتھ عالمی اخبارات کیلئے بھی مضامین لکھتے ہیں۔ اپنے گھر میں ایک منفرد کتب خانہ رکھتے ہیں، جس میں مختلف افکار و نظریات کی حامل اور مخلتف مذایب و مسالک کی کتابیں موجود ہیں، وہ خود بھی محدود نظریہ سے بالاتر ہوکر مختلف مذاہب کا لٹریچر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مولانا الطاف جمیل ندوی 2004ء میں لکھنو کے عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم ’’ندوۃ العلماء‘‘ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ وحدت اسلامی کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے مضامین لکھتے آئے ہیں۔ فی الحال ایک اسکول میں مہتمم کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور انٹرنیشنل مسلم یونٹی کونسل کے ممبر بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا الطاف جمیل ندوی سے ایک خصوصی انٹریو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: اس پرآشوب و پرفتن دور میں عالم اسلام کو اتحاد کی کتنی احتیاج ہے۔؟
مولانا الطاف جمیل ندوی:
اتنی ہی احتیاج جتنی زندگی کی بقاء کے لئے خون کی ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان چاہے ان کا تعلق کسی بھی نسل سے ہو، کوئی بھی زبان بولتے ہوں، ان کا رنگ گورا ہو یا کالا، سب کے سب امت مسلمہ کے افراد ہیں، ان کی قوت ان کی طاقت کا راز وحدت اسلامی میں پوشیدہ ہے۔ دشمن مسلمانوں کی اس قوت کو سمجھتا ہے، اس لئے اس نے مسلمانوں میں فرقہ واریت کو فروغ دیا ہے، کہیں مسلک کے نام پر لڑاتا ہے تو کہیں عرب و عجم کی لڑائی کراتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں امت مسلمہ کی وحدت پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔ نتیجے میں مسلمان کمزور اور اسلام دشمن قوتیں طاقتور ہو جاتی ہیں۔ امت مسلمہ اگر عظمت رفتہ کی بحالی چاہتی ہے اور اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے شخصی، گروہی، لسانی اور مسلکی اختلافات کو بھلا کر وحدت کی طرف پلٹنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: میلاد النبی (ص) کے ان متبرک ایام میں ملت اسلامیہ کو وحدت کے کیا مواقع ہاتھ آتے ہیں۔؟
مولانا الطاف جمیل ندوی:
ان متبرک ایام میں زیادہ سے زیادہ سیرت نبوی (ص) کے دروس عام ہوں، تاکہ وحدت امت پر کام ہو۔ ہم عشق نبوی (ص) کے دعویدار تو ہیں پر عملی طور پر ان کی اتباع سے فرار اختیار کیا ہوا ہے۔ سیرت طیبہ کے حوالے سے ہمیں بخوبی یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ سیرت طیبہ میں ہمیں ایسے اسباق ملتے ہیں، جہاں محمد عربی (ص) نے بجائے جنگ کے صلح کو ترجیح دی۔ انصار و مہاجرین کے درمیان اگر کبھی اختلاف رائے نظر آیا تو فوری طور پر اس کا تدارک کیا۔ بار بار اصحاب نبوی (ع) کو اتحاد و اتفاق سے رہنے کے اسباق سکھائے گئے، جنہیں ہم تک اصحاب حدیث نے منتقل کیا، تبھی تو ہم ان احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں کہ جن میں امت کے لئے اتحاد و اتفاق کے دروس پائے جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا بھارت بھر میں سے کوئی ایسی موثر آواز وحدت امت کے حوالے سے اٹھی ہے۔؟ اس حوالے سے کیا کوششیں ہو رہی ہیں۔؟
مولانا الطاف جمیل ندوی:
میرے خیال میں اس سلسلے میں مختلف انجمنیں کام کر رہی ہیں، لیکن یہاں بھی عملی اقدامات کے بجائے صرف اخباری بیانات تک ہی کام ہو رہا ہے، جبکہ مجموعی طور پر صورتحال اب تک ویسی ہی ہے جو پہلے تھی، اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے درمیان موجود انتشاری قسم کا لٹریچر ہے۔ جس کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن ہی نہیں کہ یہ کام پورا کیا جاسکے۔ ہاں یہ ممکن تب ہے کہ اگر یہ انجمنیں بجائے اخباری کوششوں کے ایک مشن کے طور پر تطہیری لٹریچر تیار کریں اور علماء کرام و دانشور حضرات تک اسے پہنچایا جاسکے، تب شاید کامیابی ہاتھ آسکتی ہے اور اس کے لئے لازمی ہے کہ ہم ہر سطح پر ایسی کسی بھی کوشش کو خوش آمدید کہیں اور ہر صورت میں ساتھ دیں۔

اسلام ٹائمز: رسول اللہ (ص) کی ذات پاک تمام مسلمانوں کی مشترک میراث ہے، کیوں پھر مسلمان اسے نکتہ وحدت نہیں بنا پاتے ہیں اور متحد نہیں ہوتے ہیں۔؟ کیوں ملت انتشار و آپسی تضاد کا شکار ہے۔؟
مولانا الطاف جمیل ندوی:
فکری تربیت کی کمی اور فکری غلامانہ ذہنیت کا شاخسانہ اور علوم اسلامی سے بے اعتنائی جس کا ثمر ہم دیکھ رہے ہیں۔ غیر چاہتے ہیں کہ مختلف باتیں اور مسائل اٹھا کر امت مسلمہ کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کیا جائے۔ اب نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کافر، مرتد، مشرک اور فاسق کہتے تھکاوٹ محسوس نہیں کرتا۔ اس کا منحوس سایہ جو امت پر چھا گیا ہے، اسی سبب دنیا کے مخلتف گوشے امت کے لہو سے سرخ ہوئے جا رہے ہیں۔ جیسے کہ مسجد اقصیٰ جس کی اہمیت و تقدس سے انکار کی گنجائش نہیں، لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اس کے فضائل تو بیان کرتے ہیں، پر مسجد اقصیٰ کے در و دیوار اہل ایمان کے سجدون کو ترس رہے ہیں۔

انصاف سے دیکھا جائے تو ایوانِ حکومت سے لے کر بازار تک، مساجد سے لیکر خانقاہوں تک کہیں بھی اس امت کا وجود نہیں جس کا تذکرہ کتب تاریخ میں پایا جاتا ہے۔ بس ایک ایسا گروہ ہے، جس کا اب نصب العین آخرت و قیامت سے لے کر نماز، روزہ اور حج تک میں آپسی نزاع و تفرقہ پایا جاتا ہے تو اس صورتحال میں اسے کس لحاظ سے امت کہا جائے۔ المیہ یہی نہیں بلکہ اس حوالے سے اگر اتحاد و اتفاق کی بات کسی غیر سے ہو تو شاہ کیا غلام بھی ہزاروں بلائیں لیتے تھکتا نہیں کہ نمرود و فرعون سے ہمارے اچھے مراسم و شراکت داری قائم ہے۔ مسلمانانہ حلیہ میں چھپے بھیڑیئے اپنے ہی نبی کریم (ص) کی امت کے خلاف کھڑے ہو کر فرعون و نمرود کی صف میں جاکر قوت و طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کو فکری غلامی کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اہل تسنن 12 ربیع الاول کو اور اہل تشیع 17 ربیع الاول کو میلاد النبی (ص) کے قائل ہیں، امام خمینی (رہ) نے اس تاریخی اختلاف کو اشتراک میں اسطرح تبدیل کیا کہ اس پورے ہفتہ کو ’’ہفتہ وحدت‘‘ کے طور پر متعارف کرایا، اس پہل کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا الطاف جمیل ندوی:
مجھے خوشی ہے کہ اگر دو نظریہ کے لوگ کسی سبب ایک ہی آواز بنکر سیرت طیبہ کے لئے جمع ہوکر وحدت امت پر یکسو ہو جائیں۔ اتحاد امت، شرعی اور سماجی ضرورت ہے، جبکہ اختلاف رائے کا وجود فطری ہے۔ اس لئے ہم شرعی ضرورت کے پیش نظر اتحاد امت کے پابند ہیں اور فکر و نظر کے اختلاف کے باوجود اتحاد امت اور وحدت امت کو اپنی ایمانی اور اسلامی زندگی کا نصب العین سمجھتے ہیں۔ اختلاف کلمۂ واحدہ کے ماننے والوں کے درمیان عقائد کا ہو یا فروعی مسائل کا، ان اختلافات کو عملی زندگی میں برتنے کے بھی کچھ شرعی اصول و حدود ہیں۔ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (نور اللہ مرقدہ) فرمایا کرتے تھے کہ اختلاف کی سرحدوں کو پہچاننا چاہیئے اور اعتدال و توازن کے ساتھ احکام و مسائل کے بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔ یہاں اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ اتحاد امت کا مطلب تمام مذاہب و مسالک کا ادغام یا تمام مذاہب و مسالک سے مشترکہ چیزوں کو لے کر نیا مذہب بنانا نہیں ہے، بلکہ اتحاد امت کا مطلب اپنے مسلک و مذہب پر عامل رہتے ہوئے دوسرے مسلک و مذہب والوں کا احترام اور فروعی مسائل کو نزاعی بنانے سے اجتناب ہے۔

اسلام ٹائمز: آخر میں جاننا چاہیں گے کہ کون سے عناصر ہیں، جو ملت اسلامیہ میں انتشار برپا کرنیکے درپے ہیں۔؟
مولانا الطاف جمیل ندوی:
یہ وہی عناصر ہیں، جنہیں اسلام سے زیادہ اپنی خواہشات کی تکمیل چاہیئے۔ اس کے لئے چاہے کس حد تک بھی جانا پڑے، یہ جانے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں گروہ منافقین جن کا کام روز اول سے ہی یہی رہا ہے کہ امت کو کبھی بھی ایک نہ ہونے دیا جائے اور تاریخ اسلامی ایسی عبرتناک باتوں سے بھری پڑی ہے، جب یہ اپنے کام کو انجام دینے میں کامیاب ہوگئے اور ان کے لئے احادیث میں سخت وعید آئی ہے، جو اس ذلت و رسوائی جیسے کام میں مگن ہوں۔ لیکن کیا کیا جائے، ہمارے وہ خیر خواہ بھی ان کے کام کو آسان بنا رہے ہی،ں جو اپنے نظریہ کے دفاع کے لئے ایک دوسرے پر کفر و شرک کے فتوے لگاتے ہیں اور مسلسل کوشاں رہتے ہیں کہ ہم اپنے نظریہ کے دفاع کے لئے ماسوائے خود کے ہر کسی میں کوئی نہ کوئی خامی تلاش کرکے اس پر کفر و الحاد کا فتوی جاری کریں۔

یہ نام نہاد خیر خواہ جانتے ہیں کہ کسی کو کافر مرتد کہنا جتنا آسان سمجھا جاتا ہے، اس قدر یہ آسان نہیں ہے بلکہ اس کے لئے جو قیود و حدود اسلامی شریعت میں موجود ہیں، وہ جاننا لازمی ہے، تب جاکر اس حساس معاملے پر بات کی جاسکتی ہے۔ وہ خود ساختہ اہل علم جنہیں علوم القرآن و سنہ کے بارے میں ذرا بھی علم نہیں، بس کچھ کتابیں اٹھا کر خود ساختہ عالم بنکر عوام الناس میں ایسے مسائل بیان کرتے ہیں، جن کی کوئی صریح نص نہیں ہوتی اور پھر یہ صاحبان اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے کیا کیا ستم ڈھاتے ہیں۔ علم قرآن و حدیث پر وہ جان کر ایک علم و دانش والا صاحب علم سر پکڑ کر رہ جاتا ہے۔ ان کا بھی اس سلسلے میں اہم رول ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ امت کبھی متحد نہ ہو، کیونکہ اس کے انتشار و افتراق میں ہی ان کی بقائے زندگی ہے۔
خبر کا کوڈ : 762659
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش