0
Wednesday 16 Jan 2019 00:03
افغان طالبان سب کیلئے قابل قبول بن رہے ہیں

حالات نے افغان طالبان کے موقف میں تبدیلی پیدا کی، جو مثبت چیز ہے، صفدر رضا

حالات نے افغان طالبان کے موقف میں تبدیلی پیدا کی، جو مثبت چیز ہے، صفدر رضا
ڈیرہ اسماعیل خان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے سید صفدر رضا انٹرنیشنل این جی او میں اہم عہدے پر فائز ہیں، کافی عرصے سے اسلام آباد میں مقیم ہیں، آئی ایس او کے تاسیسی افراد میں شمار ہوتے ہیں، قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے ہمراہ کام کرچکے ہیں، ملکی اور عالمی حالات پر خاص نگاہ رکھتے ہیں، دنیا کے متعدد ممالک کا کئی بار وزٹ کرچکے ہیں، کئی ٹاک شوز میں بھی شریک ہوچکے ہیں، اسلام ٹائمز نے خطے کی بدلتی صورتحال خاص طور پر افغان طالبان کے موقف میں تبدیلی کے معاملے پر ان سے اہم انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: طالبان کیجانب سے بیان سامنے آیا ہے کہ شیعہ ہمارے بھائی اور تہران ہمارا دوسرا گھر ہے، بیان میں داعش کو خوارج قرار دیا گیا ہے۔ آپ اس تبدیلی کو کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔؟
صفدر رضا:
میرا خیال یہ ہے کہ طالبان نے کئی سال حکومت کرنے اور پھر امریکہ کے خلاف جدوجہد کرنے کے دوران کافی سبق سیکھ لیا ہے، یہ وہی طالبان ہیں، جنہوں نے اہل تشیع افغانستان کے ایک بہت بڑے رہنما لیڈر آیت اللہ مزاری کو اس وقت گولی مار کر شہید کیا تھا، جب انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے مزار شریف سے تہران شفٹ کیا جا رہا تھا، یہ وہی طالبان ہیں جنہوں نے اپنی حکومت کے دوران شیعہ ہزارہ علاقوں میں اہل تشیع پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا اور اسکے بعد بھی شیعہ غلامی کی زندگی بسر کرتے تھے، یہ وہی طالبان ہیں جنہوں نے مزار شریف پر قبضے کے دوران ایرانی کونصیلٹ کے لوگوں کو زندہ نہیں چھوڑا تھا اور اس دوران یہ مخاصمت بھرا رویہ تھا اور وہ اسکے ساتھ زندہ رہے، لیکن اسکے بعد حالات تبدیل ہوئے اور امریکہ نائن الیون کے بعد خود افغانستان میں آگیا، اس کے بعد جو مظالم ڈھا رہے تھے، وہ افغانستان کی آزادی کے علمبردار بن گئے، اسی طرح وہ لوگ جو 1979ء میں سویت یونین کے خلاف اٹھے تھے، وہ بھی ان کی صفوں میں آگئے۔ جس کے بعد یہ ایک مضبوط اور مربوط فورس بن کر سامنے آگئے، جسے ہم مقاومتی فورس کہہ سکتے ہیں۔

خود ایران نے اپنی پالیسی از سر نو ترتیب دی ہے، جب انہوں نے دیکھا اگرچہ یہ شیعہ مخالف اور ایران مخالف ہیں، لیکن کیونکہ امریکہ مخالف بھی ہیں، اس لیے ان سے اتحاد بنتا ہے۔ انہوں نے کسی نہ کسی طرح طالبان کو سہولیات دیں، امریکہ افغانستان میں آکر بیٹھا تو خود ایران کے لیے بڑا خطرہ تھا، امریکہ صیہونی مفادات کی خاطر آکر یہاں بیٹھا تھا، مگر ایران نے بڑے خطرے کے تناظر میں امریکہ کو امن سے نہیں بیٹھنے دیا۔ ایران نے اپنی پالیسی کو تبدیل کیا اور انہوں نے طالبان کو سمجھانے کی کوشش کہ اب آپ قومی مقاومت اور مزاحمت کی علامت بن چکے ہیں، لہذا آپ کے ایران سے بہتر تعلقات ہونا چاہیئے، یہی وجہ ہے کہ طالبان کو امریکہ کے خلاف لاجسٹک سپورٹ تہران سے فراہم کی جاتی رہی ہے۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اُسامہ بن لادن کی آل اولاد یعنی ایک بیگم اور کچھ بچے افغانستان پر امریکی قبضے کے دوران بھاگے ہیں، انہوں نے پاکستان کے علاوہ ایران میں بھی پناہ لی، بعض اخباری اطلاعات کے مطابق وہ ابھی تک ایران میں پناہ گزین ہیں۔

اگرچہ سعودی عرب نے ایک عرصے تک مطالبہ کیا کہ ان کو واپس کیا جائے، لیکن بہرحال وہ وہاں پر ہیں اور اس بات کو بھی ہم جانتے ہیں کہ گلبدین ایک عرصے تک وہاں مقیم رہا اور وہ امریکہ مخالف تھا، آجکل وہ طالبان کے ساتھ مل گئے ہیں اور یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ ملا منصور امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے سے پہلے ایران سے واپس آرہے تھے، جو کچھ ہوا، پاکستانی علاقوں میں ہوا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایران اور طالبان کے درمیان جو مفاہمت ہوگئی ہے، وہ بہت اچھی چیز ہے، دونوں ملکر ایک مشترکہ دشمن یعنی امریکہ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ طالبان کا ایران کے ساتھ جانا ہی داعش کے ظہور کا سبب بنا ہے، سب جانتے ہیں کہ جو داعش عراق اور شام سے فارغ ہوئی، انہیں کس طرح سے افغانستان لایا گیا ہے۔

طالبان پر حملہ کرنے کے لیے داعشی جہادیوں کو امریکی طیاروں نے لاجسٹک مدد دی، اس سے مزید پرو ایران ہونا کیا ہوسکتا ہے کہ طالبان نے سعودی عرب میں مذاکرات کے دور میں شرکت سے معذرت کرلی اور دوحا میں مذاکرات کی حامی بھری، اگرچے وہاں بھی نہیں ہوسکے، لیکن ان کی خود مختاری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ طالبان کا خود مختار ہونا اور سعودی عرب پر انحصار ختم کرنا اس بات کی علامت ہے کہ کس انداز میں طالبان نے سعودی عرب کو نیوٹرل کیا ہے۔ یہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ سعودی عرب کو اس انداز میں نیوٹرل کیا کہ وہ سعودی عرب اور عرب امارات کے دشمن ملک قطر میں امریکی حکام سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں سمھتا ہوں کہ داعش کے دبدبے نے بھی طالبان کو دوبارہ سوچنے پر مجبور کیا۔

طالبان کو پتہ ہے کہ امریکہ آج نہیں تو کل بھاگ جائے گا، لیکن ایران انکا ہمسایہ ہے اور وہ ہمیشہ رہے گا، وہ اگرچہ چاہیں یا نہ چاہیں ایران نے رہنا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ایران سیاسی، سفارتی اور عسکری لحاظ سے علاقے کی بہت بڑی طاقت بن چکا ہے، میرا خیال یہ ہے یہ طالبان کا درست تجزیہ تھا کہ ہم اگر امریکہ سے لڑنے جا رہے ہیں تو ہمیں ایران کے ساتھ رہنا ہے، وہ اب روس اور چین کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بہتر بنا رہے ہیں، میں سمجھتا ہو کہ طالبان کی پالیسی میں شفٹ آیا ہے، وہ اپنے آپ کو تمام طبقات کے لیے قابل قبول بنا رہے ہیں، یہ ضروری بھی ہے کہ جو مستقبل میں حکمران جماعت بنے، وہ سب کے لیے قابل ہو، طالبان نے اپنے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اگر وہ اسامہ کو امریکہ کے حوالے کر دیتے تو شائد آج افغانستان کی اینٹ سے اینٹ نہ بجتی۔ یہ تبدیلی ہے کہ انہوں نے اہل تشیع کو اپنا بھائی اور ایران کو اپنا دوسرا گھر قرار دیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ طالبان کو آئندہ ایک بڑا سیاسی کردار ملنے والا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا داعش افغانستان اور پاکستان کیلئے نیا چیلنج ہے، اس سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے۔؟
صفدر رضا:
داعش اگرچے شام اور عراق سے پسپائی کے بعد افغانستان میں آچکی ہے اور داعش کی موجودگی کا کئی سالوں سے شور تھا، میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ اس کو لے آیا ہے اور وہ جہاں پر بھی اپنے قدم جمانا چاہتا ہے، وہ عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ جہاں بھی جاتا ہے، اپنی پراکسیز کو لیکر آتا ہے، پہلے القاعدہ ان کی پراکیسز بنی، پاکستان میں جماعت اسلامی والے پراکسی کے طور پر استعمال ہوئے۔ اب وسیع پیمانے پر داعش کے پالتو امریکہ کی پراکسی کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں، شام میں پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح سے داعشی درندوں کو سپورٹ کیا گیا، ان کا علاج کیا گیا، اب امریکہ افغانستان میں شکست کا بدلہ پاکستان اور افغان عوام سے لینا چاہتا ہے۔

داعشیوں کو بھارت کے زیر اثر لایا جا رہا ہے، ایران سے شکست کے بعد تہران کو بھی سبق سکھانا چاہتا ہے۔ اس کام کے  لئے سعودی عرب اور امارات کا پیسہ استعمال ہو رہا ہے، وہ شام اور عراق میں شکست کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ انڈیا کی مخاصمت ہے، اگر وہاں بی جے پی برسر اقتدار رہتی ہے تو داعش کو انڈین اسٹیبلشمنٹ بھی بڑھاوا دے گی، اس وقت داعش ایک بڑا تھریٹ ہے، امریکہ کے جانے کے بعد بھی یہاں پراکسیز چلتی رہیں گی، امن پیدا ہونے میں وقت لگے گا۔ داعش اپنا کھیل کھیلے گی، طالبان امن پسند بن جائیں گے، بہرحال افغانستان میں دیرپا امن فوری پر قائم ہوتا نظر نہیں آرہا۔

اسلام ٹائمز: مشرق وسطیٰ کو ری شیپ دینے کی امریکی کوششیں کس حد تک ناکام ہوئیں، یمن تنازع کیسے حل ہوسکتا ہے۔؟
صفدر رضا:
امریکہ کی مشرق وسطیٰ کو ری شیپ کرنے کی کوششیں پرانی ہیں، وہ وقت کے ساتھ ساتھ پینترا بدلتا رہتا ہے اور اس کی کوششیں بھی بدلتی رہتی ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ جب لبنان پر اسرائیلی طیاروں نے بمباری شروع کی تھی تو امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس نے کہا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ اب مشرق وسطیٰ کو ریپ شیپ کریں، اس نے یہاں تک کہا تھا کہ جس طرح بچہ جننے کے وقت عورت درد محسوس کرتی ہے، یہ جنگ اور بمباری بھی اس طرح کا ایک درد ہے۔ یہ بات درست ہے کہ نیا مشرق وسطیٰ سامنے آیا، مگر امریکی و اسرائیلی خواہشات کے بالکل برعکس پیدا ہوا، شام اور باقی ممالک نے اسرائیل کو گھاس نہ ڈالی۔ انہوں نے شامی حکومت کو گرانے کی کوشش کی، مگر وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ اسی طرح امریکیوں نے یمن میں جنگ شروع کروائی، مگر دنیا نے دیکھا کہ چار سال گزرنے کے باوجود بھی یمنی ہار ماننے کے لیے تیار نہیں، وہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط انداز میں لڑ رہے ہیں۔ اب امریکہ اپنے مفاد کی خاطر اس جنگ سے نکلنا چاہتا ہے۔

اقوام متحدہ نے سعودی عرب کے بھیانک چہرے سے نقاب الٹ دی ہے۔ مصر میں مصنوعی جمہوریت لائی گئی، پھر وہاں حکومت کو برطرف کیا گیا، مشرق وسطیٰ کے ممالک کمزور ہوئے، عدم استحکام کا شکار ہوئے، مگر اس کا فائدہ ایران کو پہنچا، ایران میں امن ہے، انڈیا کو استثنیٰ حاصل ہے کہ وہ تیل خریدے اور چاہ بہار پر کام کرے، ایران مضبوط ہوکر نکلا ہے اس تمام تر صورتحال سے۔ ایک چیز یہ ہے کہ اتنی جنگوں کے باوجود اسرائیل براہ راست جنگ میں نہیں کودا۔ یہ لوگ شام میں حکومت گرانا چاہتے تھے، مگر اب سب سفارتخانے کھولنے کے لیے تیار ہیں۔ حزب اللہ بہت زیادہ مضبوط ہوئی ہے، استعمار کے سارے منصوبے ناکام ہوچکے ہیں، خدا سب سے بڑا منصوبے بنانے والا ہے، مقاومت کا محاذ کامیاب ہوا ہے۔ جمال خاشقجی نے بادشاہت کو بےنقاب کر دیا ہے، چھوٹی سی بچی سعودی عرب سے نکل کر کینیڈا پہنچ گئی اور پناہ لی ہے، کینیڈا کے وزیراعظم نے اس کا استقبال کیا۔ مشرق وسطیٰ میں استعمار کی تمام کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔ یہ صدی اسرائیل کی آخری صدی ہے، اسرائیل کو مٹنا ہے، مظلوم کامیاب ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی حکومت کے پانچ ماہ کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
صفدر رضا:
پی ٹی آئی حکومت پر اپوزیشن اسے تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ پانچ ماہ میں بہت زیادہ قرضہ لیا گیا، جس کی مثال نہیں ملتی، مگر حکومت کے اس دعوے میں وزن ہے کہ پچھلی حکومت خزانے کو اتنا نچوڑ کر گئی ہے کہ اب ان کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں تھی، حکومت چلانے کے لیے بھی رقم نہیں تھی، وہ وزیراعظم جو کہتا تھا کہ کشکول نہیں اٹھاوں گا، اس بےچارے کو کبھی سعودی عرب، کبھی قطر، ملائیشیا اور چین تک جانا پڑا، عمران خان کے لیے یہ ذاتی طور پر تلخ دن تھے، کیونکہ وہ اپنی کہی ہوئی باتوں کے الٹ چل رہا تھا، مگر اس ملک کی خاطر۔ حکومت دوست ممالک سے قرض لیکر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہتی اور اپنے موقف کو بھی بہتر کر رہی ہے، ظاہر ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ہیں تو اس سے ملک کی معیشت کا بھٹھہ بیٹھ جائے گا، اس لحاظ سے یہ اقدام درست ہے۔

نیب کی جانب سے اپوزیشن رہنماوں پر بنانے جانے والے کیسز پی ٹی آئی نے نہیں بنائے، مگر ایسے بیانات دیئے گئے جیسے حکومت نے اقدامات کئے ہوں، یہ ایسا ہی ہے جیسے چوری نہ کرکے بھی چوری کا اعتراف کیا جائے۔ یہ چیز حکومت کی ناپختگی کو ظاہر کرتی ہے، وزراء کے بیانات اور زبان درست نہیں ہے۔ حکومت کے بارے میں یہ رائے ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی ٹیم ہے، غیر ضروری پنگے لئے گئے، قبضے چھوڑوائے گئے، لوگوں کو روزگار سے محروم کیا گیا، یہ فوری نوعیت کے کام نہیں تھے، لیکن کئے گئے۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ بدھ کو وقفہ سوالات میں آئیں گے مگر نہیں آرہے، ظاہر کہ حکومت کچھ کرے گی تو وہ ایوان میں آئیں گے، مگر پھر بھی انہیں علامتی طور پر ضرور آنا چاہیئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی حکومت سیاسی محاذ پر سیاسی داو پیج کرنے میں بھی پختہ نہیں ہے۔ شلٹر ہاوس بنانا بہت ہی اہم کام ہے۔ مزدور دوست کام ہے، مگر اس کا درست کریڈٹ نہیں لے سکیں، بلاوجہ کے پنگوں کی وجہ سے۔

اسلام ٹائمز: ایم ایم اے اتحاد سے جماعت اسلامی ایک بار پھر نکل گئی، یہ اتحاد فقط الیکشن کی حد تک کیوں برقرار رہ پاتا ہے۔؟
صفدر رضا:
جہاں تک ایم ایم اے کی بات ہے تو یہ بھان متی کا کنبہ ہے، سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوتی ہے اور ٹوٹ بھی جاتی ہیں، سیکولر پارٹیاں بھی اکٹھے بھی ہوسکتی ہیں، پھر رالگ بھی ہو جاتی ہیں، مذہبی جماعتوں میں تعصب بہت زیادہ پایا جاتا ہے، اختلاف رائے برداشت نہیں کرتیں، ایک دوسرے کو مارنے پر تل جاتی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ بھٹو دور میں قومی اتحاد سے سب سے پہلے جماعت اسلامی نکلی تھی۔ پچھلی بار ایم ایم اے جب خیبر پختونخوا میں حکومت کر رہی تھی، اس کے بعد نئے الیکشن آئے تو اس میں بھی پہلے جماعت اسلامی ہی نکلی تھی۔ ایم ایم اے کے بارے میں لوگوں کا موقف مضبوط ہے کہ یہ مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے، یہ صرف الیکشن کے دنوں میں آتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 772099
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش