0
Thursday 18 Apr 2024 05:27
پارلیمنٹ سمیت دیگر آئینی ادارے اتنے کمزور ہیں کہ مداخلت کی مزاحمت نہیں کرسکتے

حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کو اداروں کا تحفظ حاصل ہوتا ہے، رانا ثنا اللہ

سیاستدان دوسرے سیاستدانوں کو جیل بھیجنے کیلئے بضد ہوتا ہے
حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کو اداروں کا تحفظ حاصل ہوتا ہے، رانا ثنا اللہ
اسلام ٹائمز۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئیر رہنما اور سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ میرے خلاف منشیات کا مقدمہ جنرل (ر) باجوہ اور فیض حمید کے اتفاق سے بنا۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ان پر منشیات کا مقدمہ بنیادی طور پر عمران خان صاحب نے بنایا تھا اور اس میں شہزاد اکبر صاحب ملوث تھے، انہوں نے پہلے اسلام آباد پولیس سے رابطہ کیا، لیکن جب اسلام آباد پولیس یہ وزن نہ اٹھایا تو انہوں نے اے این ایف میں بات کی، لیکن اے این ایف جب تک میرے خلاف مقدمہ نہیں بنا سکتی تھی جب تک فیض حمید صاحب اور باجوہ صاحب ان دونوں کی طرف سے کنکرس (متفق ہونا) نہ ہوتی، اور میں نے یہ بات باجوہ صاحب کے منہ پر، جب پارلیمنٹ میں وہ ایک تقریب میں موجود تھے تو میں نے ان کو کہا تھا، میں نے کہا تھا میرا اللہ آپ کے اور میرے درمیان فیصلہ کرے گا یہ مقدمہ آپ نے میرے خلاف بنایا ہے۔ 

سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ انہوں (جنرل باجوہ) نے کہا میں نے نہیں بنایا، تو میں نے کہا کہ اگر یہ مقدمہ آپ کی اجازت کے بغیر بنتا تو اگلے دن آپ کا کورٹ مارشل ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ لیکن یہ مقدمہ کروانے والے وزیراعظم پاکستان ہی تھے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا عمران خان سے جھگڑا اس بات پر ہوا تھا کہ وہ چاہتے تھے اپوزیشن کو جڑ سے ختم کردیا جائے، وہ اسٹبلشمنٹ کا ساتھ چاہتے تھے، وہ چاہتے تھے میرا ساتھ دیں اپوزیشن کا معاملہ ہی ختم کریں، وہ آن بارڈ نہ ہوئے تو انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ یہ احتساب نہیں کر رہے، یہ میر جعفر ہیں یہ میر صادق ہیں، تو عمران خان کی خوشنودی کیلئے جو بھی ان کی ہاں یا سروس تھی وہ انہوں نے ملائی ہوگی۔ رانا ثناء اللہ نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ آئندہ اگر ان کی جماعت اپوزیشن میں ہوئی تو ان کے خلاف دوبارہ مقدمہ بنے گا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سیاسی اور آئینی ادارے اتنے کمزور ہیں کہ جب باہر سے مداخلت ہوتی ہے تو وہ اس دباؤ کا سامنا ہی نہیں کرسکتے۔ شاہد خاقان عباسی کی جانب سے نئی سیاسی جماعت بنانے پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں نئی سیاسی جماعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، پہلے ہی 117 پارٹیاں ہیں 118 بن کر کیا کرلیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی تحریک میں اتنا کوئی دم خم نہیں کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی مسئلہ پیدا کرسکیں۔ ن لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے کہاکہ عمران خان 2018ء میں تعاون کی پیشکش کے باوجود مخالف سیاسی قائدین کو جیل بھیجنے کیلئے بضد تھے، اگر ایک سیاستدان دوسرے سیاستدانوں کو جیل بھیجنے کیلئے بضد ہوگا تو ایسا ہوگا، اداروں میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کو اداروں کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ سیاستدان آگے نہیں پیچھے کی طرف جارہے ہیں، جمہوریت کی بنیاد صاف و شفاف الیکشن ہوتے ہیں، 1977ء سے 2024ء تک کوئی غیرمتنازع الیکشن نہیں ہوا، سیاسی اور دیگر آئینی ادارے اتنے مضبوط ہونے چاہئیں کہ کسی سے مرعوب نہ ہوں، پارلیمنٹ سمیت دیگر آئینی ادارے اتنے کمزور ہیں کہ مداخلت کی مزاحمت نہیں کرسکتے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ میرے مشیر بننے یا نہ بننے سے حالات میں کوئی بہتری یا کمی نہیں ہوگی، حکومت میری جماعت کی ہے میں بھی حکومت کا حصہ ہوں، روٹی سستی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اسے پوری کرنی چاہئے، ہمیں بیانیہ کا جواب بیانیہ سے ہی دینا چاہئے، ن لیگ کو اس حوالے سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، پارٹی کے معاملات پر پارٹی کے اندر ہی گفتگو کرتا ہوں۔
خبر کا کوڈ : 1129383
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش