0
Friday 11 Nov 2011 00:55

ریلوے انجنز کی خریداری میں قواعد و ضوابط سے انحراف کیا گیا، چیئرمین ریلوے کا اعتراف

ریلوے انجنز کی خریداری میں قواعد و ضوابط سے انحراف کیا گیا، چیئرمین ریلوے کا اعتراف
اسلام ٹائمز۔ ریلوے کی بحالی کے لیے تیار کی گئی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ادارے کی بحالی کے لئے 28 ارب روپے کی رقم درکار ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ ایک بڑی رقم ہے، اس رقم سے تو ریلوے کا نیا ادارہ شروع ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے ریلوے پنشنرز کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے سابق وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کو مقدمہ میں فریق بننے کی اجازت دے دی۔ شیخ رشید نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملک کی اعلیٰ شخصیت کے ذریعے ریلوے انجنوں کی خریداری کے لئے قواعد میں نرمی کرائی گئی۔ چیئرمین ریلوے نے اعتراف کیا کہ 75 ریلوے انجنز کی خریداری میں قواعد و ضوابط سے تھوڑا سا انحراف کیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انحراف تھوڑا ہو یا زیادہ انحراف ہوتا ہے۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ریلوے کے اسکریپ کو سستے داموں فروخت کرنے کے اسکینڈل میں بڑی مچھلیاں ملوث ہیں ، اس لئے ان کے کیسز نیب کو نہیں بھیجے جا رہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی کو قومی اداروں کو بیچنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ریلوے میں بد عنوانیوں کے کیس نیب کو بھجوائیں گے۔ ایف آئی اے کو تو ہم نے قریب سے دیکھ لیا، اب نئے چیئرمین نیب کی ساکھ بھی چیک ہو جائے گی۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بتایا کہ ڈی جی آڈٹ نے اسکریپ کی فروخت میں 500 ملین روپے کے نقصان کی نشاندہی کی تھی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ریلوے کے انجن ایک دن میں تو خراب نہیں ہوئے ہوں گے۔ کیا ریلوے کا فرانزک آڈٹ ہوا؟ چیئرمین ریلوے نے نفی میں جواب دیا جس پر چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین ریلوے سے پوچھا کہ کیا فرانزک آڈٹ کرانے کا اختیار حکومت کے پاس بھی نہیں۔ ایک موقع پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ریلوے کے ایک نئے انجن کی خریداری کے لئے کتنی رقم درکار ہوتی ہے۔ چیئرمین ریلوے نے بتایا کہ ایک نئے ریلوے انجن کی لاگت 30 کروڑ روپے ہے۔ ریلوے انجنز کی خریداری کے لئے 24 نومبر کو ٹینڈرز کھولے جا رہے ہیں۔ مقدمہ کی مزید سماعت 23 نومبر کو ہو گی۔

خبر کا کوڈ : 113007
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش