0
Wednesday 14 Dec 2011 21:19

پی این ایس مہران پر حملہ پنجابی مجاہد گروپ نے کیا، طالبان لیڈر کی بیوہ کے سنسنی خیز انکشافات

قاری شاہد کی ہلاکت، مشترکہ ٹیم تحقیقات کر رہی ہے، آئی جی سندھ
پی این ایس مہران پر حملہ پنجابی مجاہد گروپ نے کیا، طالبان لیڈر کی بیوہ کے سنسنی خیز انکشافات
اسلام ٹائمز۔ کراچی میں نو محرم الحرام کی شب شہر کے معروف تاجر ریاض چنائے کی بازیابی کے لیے سی پی ایل سی اور اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کی جانب سے کورنگی میں کارروائی کی گئی، اس دوران مقابلے میں تین اغواء کار ہلاک ہوئے، جن میں سے ایک کی شناخت شاہد خان عرف قاری شاہد کے نام سے کی گئی۔ جس کے کچھ ہی دیر بعد پتہ چلا کہ ہلاک ہونے والا ملزم کالعدم تحریک طالبان پنجابی مجاہد گروہ کراچی کا امیر تھا اور ملک بھر میں ہونے والی دہشتگردی کی کارروائیوں میں مطلوب تھا۔
 
کارروائی کے دوران شاہد خان کی بیوی صبیحہ کو بھی گرفتار کیا گیا، جس نے دوران تفتیش انتہائی سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں، ملزمہ کا کہنا ہے کہ اس کا شوہر شاہد خان پی این ایس مہران پر حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث رہا، اس حملے کے لیے سہیل نامی مفرور دہشتگرد پانچ انتہائی تربیت یافتہ دہشتگردوں کو وزیرستان سے کراچی لایا تھا۔ ملزمہ نے اعتراف کیا کہ اس حملے سے قبل وہ اپنے شوہر اور سہیل نامی دہشتگرد کے ساتھ پی اے ایف میوزیم ریکی کرنے بھی گئی تھی۔ 

ملزمہ نے ابتدائی تفتیش میں مزید انکشاف کیا کہ جامعہ کراچی بم دھماکے کے لیے وہ اپنے شوہر کے ہمراہ بم لے کر ملزم عمر کو فراہم کرنے گئی تھی، ملزمہ کا کہنا ہے کہ سی آئی ڈی سول لائنز پر دھماکے کے لیے دو خودکش حملہ آوروں کو وزیرستان سے لایا گیا تھا، جن کے کھانے پینے کا انتظام ملزمہ نے خود کیا، ملزمہ نے بتایا کہ ملیر میں پولیس موبائل پر کئے گئے دھماکے کے لیے موٹر سائیکل پر بم نصب کر کے اس کا شوہر اور کالعدم جنداللہ کا ایک دہشتگرد گئے، ملزمہ صبیحہ کے انکشافات کے بعد مزید تفتیش کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔

دیگر ذرائع کے مطابق اینٹی وائلنٹ کرائم سیل پولیس نے کورنگی میں 9محرم الحرام کو ہونے والے مقابلے میں مارے جانے والے دہشتگرد قاری شاہد کی بیوی کی گرفتاری ظاہر کر دی ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمہ نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ اس نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر مہران ایئر بیس کی ریکی کی تھی اور حملہ آوروں کو اپنے گھر ٹھہرایا تھا۔
 
تفصیلات کے مطابق ایس پی اے وی سی سی غلام سبحانی نے بتایا کہ 9 محرم الحرام کو کورنگی الله والا ٹاوٴن میں پولیس مقابلے کے دوران مارے جانے والے کالعدم پنجابی طالبان کے دہشتگرد قاری شاہد کی اہلیہ صبیحہ کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے، انہوں نے بتایا کہ ملزمہ سے پولیس افسران اور حساس اداروں کے افسران پر مشتمل جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم تفتیش کر رہی ہے، ملزمہ صبیحہ نے دوران تفتیش بتایا کہ پاکستان نیوی کے مہران ایئر بیس پر حملے کے لیے ریکی اس نے اپنے شوہر قاری شاہد کے ساتھ مل کر کی تھی اور مہران بیس پر حملہ کرنے والے غیر ملکی حملہ آوروں کو انہوں نے اپنے گھر میں ٹھہرایا تھا اور ان کے کھانے پینے کے انتظامات بھی یہ لوگ ہی کرتے تھے۔
 
ایس پی غلام سبحانی نے بتایا کہ ملزمہ نے بتایا کہ کلفٹن عبدالله شاہ غازی مزار پر ہونے والے دو خودکش دھماکوں میں بھی ان کے لوگ شامل تھے، سی آئی ڈی سول لائن کی عمارت اور ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم کے گھر حملہ بھی ان کے ہی لوگوں نے کیا تھا، ملزمہ نے جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم کے اراکین کو بتایا کہ لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے میں بھی اس کا شوہر قاری شاہد شامل تھا، ملزمہ نے بتایا کہ وہ راجن پور کے علاقے جام پور میں ایک مدرسے میں پڑھتی تھی اور قاری شاہد بھی وہیں پڑھتا تھا جہاں دونوں کی ملاقات ہوئی اور انہوں نے شادی کرلی تھی۔ 

ایس پی غلام سبحانی نے بتایا کہ ملزمہ صبیحہ اور اس کا شوہر قاری شاہد دو سال قبل کراچی آئے تھے، سب سے پہلی کارروائی انہوں نے جامعہ کراچی میں بم دھماکہ کر کے کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جامعہ کراچی میں بم بھی ملزمہ صبیحہ نے پہنچایا تھا، ملزمہ نے بتایا کہ ان کا ایک ساتھی اسلم مجاہد وزیرستان میں ڈرون حملے میں مارا جا چکا ہے، ملزمہ کے مطابق ان کا ایک ساتھی سہیل وزیرستان میں رہتا ہے، جو لوگوں کو تربیت کے لیے وزیرستان لے جاتا ہے، پولیس اور حساس ادارے ملزمہ سے مزید تفتیش کر رہے ہیں۔
 
قاری شاہد کی ہلاکت، مشترکہ ٹیم تحقیقات کر رہی ہے، آئی جی سندھ
آئی جی سندھ سید مشتاق شاہ نے کہا ہے کہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کی کارروائی کے دوران مارے جانے والے قاری شاہد کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیدی ہے۔ جو اس کی اہلیہ کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد اپنی رپورٹ تیار کریگی۔ کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ قاری شاہد کی اہلیہ اس وقت اے وی سی سی کی حراست میں ہے۔ جس سے تحقیقاتی ٹیم پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ حتمی رپورٹ آنے کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بینکوں کی سکیورٹی پر مامور نوے فیصد گارڈز کے ہتھیار ناکارہ ہیں، اور جن کے پاس ہتھیار ہیں، انہیں اس کا استعمال نہیں آتا۔ انہوں نے بتایا کہ سات بینک ڈکیتیوں کے کیسز میں سے دو کو حل کر لیا گیا ہے اور ملزمان کو گرفتار اور رقم بھی برآمد کر لی گئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 122254
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش