0
Tuesday 20 Mar 2012 19:01

پارلیمنٹ میں قومی سلامتی کمیٹی کی سفارشات پیش

پارلیمنٹ میں قومی سلامتی کمیٹی کی سفارشات پیش
اسلام ٹائمز۔ امریکہ سے تعلقات، خارجہ پالیسی کی تشکیل نو اور نیٹو سپلائی کی بحالی سے متعلق پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کی سفارشات منگل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کر دی گئی ہیں جس میں امریکہ سے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ کمیٹی نے نیٹو سپلائی کی مشروط بحالی کی بھی سفارش کی ہے، کمیٹی نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے پر امریکہ سے غیر مشروط معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا ہے جبکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں اور پاک ایران گیس پایپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔

چئیرمین سینیٹ نئیر بخاری کی صدارت میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی کے سابق چئیرمین سینیٹر رضا ربانی نے کمیٹی کی رپورٹ پیش کی جو کہ آٹھ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان میں اپنی موجودگی پر نظرثانی کرے اور فوری طور پر پاکستانی سرزمین اور سرحدوں کے اندر ڈرون حملے روکے جائیں، کسی قسم کا گرم تعاقب یا امریکی بوٹ پاکستانی سرزمین پر نہ آئیں، جبکہ پاکستان میں کام کرنے والے نجی غیرملکی کنٹریکٹرز کے کردار کو بھی شفاف اور پاکستانی قوانین کے اندر لایا جائے، امریکہ یہ بات محسوس کرے کہ ڈرون حملوں کے ہمیشہ منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں اس سے جانی و مالی نقصان سمیت مقامی آبادی میں اشتعال پھیلتا ہے، دہشت گردوں کو حمایت ملتی ہے اور امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہوتا ہے، کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ غیرملکی افواج کی طرف سے پاکستانی ایئربیس کا استعمال پارلیمنٹ کی اجازت سے مشروط کیا جائے، پاکستان کی خودمختاری، جوہری پروگرام، اثاثوں اور ان کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات خودمختاری، علاقائی سالمیت اور باہمی احترام پر مبنی ہونے چاہئیں۔

سفارشات میں کہا گیا ہے کہ پاک بھارت مذاکراتی عمل نتیجہ خیز اور بامعنی ہونا چاہئے اور مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیلئے کوششیں کی جائیں۔ رضا ربانی نے کہا کہ اس سے قبل خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ تک محدود تھی اور اس پر نظرثانی پارلیمنٹ کی حدود سے باہر تھی، پہلی بار پارلیمنٹ نے خارجہ پالیسی پر مبنی سفارشات مرتب کی ہیں، سفارشات میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک پر حملوں کیلئے استعمال نہیں ہونی چاہیے اور تمام غیر ملکی جنگجو ہماری سرزمین سے باہر نکال دیئے جائیں۔ پاکستان یہی توقع دوسروں سے بھی کرتا ہے کہ اس کے خلاف دوسرے ممالک کی سرزمین استعمال نہیں ہو گی۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے نظرثانی کی ضرورت ہے، پاکستان کے اسلامی ممالک سے تعلقات کو مزید تقویت دی جائے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی پاکستان کی مکمل رکنیت کیلئے سرگرمی سے کوششیں کی جائیں، چین سے سٹریٹجک پارٹنر شپ مزید گہری ہونی چاہیے، روس سے تعلقات کو مزید مستحکم بنایا جائے۔

سفارشات کے مطابق افغانستان میں امن اور استحکام ہماری خاجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ہونا چاہیے، پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی سرگرمی کے ساتھ پیروی کی جائے، سفارشات میں کہا گیا ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی دوستانہ تعلقات کے فروغ کیلئے خصوصی توجہ دی جائے۔ پاک افغان سرحد پر انسداد منشیات، جرائم پیشہ افراد اور ہتھیاروں کی نقل و حمل روکنے کیلئے مزید اقدامات اٹھائے جائیں، نگرانی کیلئے جدید آلات نصب کئے جائیں۔ مقامی جرگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ سفارشات میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ اپنایا جائے اس عمل میں روایات، اقدار اور مذہب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

سفارشات میں کہا گیا ہے کہ عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے جانی اور اقتصادی نقصان کا اعتراف کرے۔ امریکہ اور نیٹو ممالک اور عالمی مارکیٹوں تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی کیلئے موثر اقدامات ہونے چاہئیں، دل اور دماغ جیتنے کیلئے کام اور مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ مہمند ایجنسی کی سلالہ چیک پوسٹ پر حملے جیسے واقعات کے ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اس امر کی یقین دہانی کرائی جائے کہ پاکستان کی خود مختاری پر حملے کے مترادف ایسا کوئی اقدام دوبارہ وقوع پذیر نہیں ہو گا اور نیٹو، ایساف اور امریکی حکام ایسی خلاف ورزیوں کے سدباب کیلئے موثر اقدامات اٹھائیں گے، وزارت دفاع اور پاکستان ایئر فورس اور اتحادی امریکی اور نیٹو حکام کے درمیان سرحدوں کے آر پار تعاون کے نئے فضائی قوانین مرتب کرنے چاہئیں۔ نیٹو، ایساف اور اتحادی سپلائی لائن دوبارہ کھولنے سے قبل اس کی شرائط پر ازسر نو غور کیا جانا چاہیے جن میں اشیاء کی نقل و حرکت کا کنٹرول سمیت دیگر امور طے کئے جانے چاہئیں جبکہ پاکستان میں انٹری، ٹرانزٹ اور ایگزٹ پوائنٹس کی سخت مانیٹرنگ کی جانی چاہیے۔ قومی سلامتی سے متعلق حکومت، وزارتوں، محکموں،شعبوں اور ذیلی اداروں، خود مختار اداروں اور تنظیموں کی طرف سے کسی غیر ملکی حکومت یا اتھارٹی کے ساتھ زبانی معاہدے نہیں ہونے چاہئیں۔

سفارشات میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کو وزارت دفاع اور برطانیہ کے درمیان مفاہمت کی یادداشت کا ازسر نو جائزہ لیا جانا چاہیے جس پر 2002ء میں دستخط کئے گئے تھے اسی طرح فروری 2012ء میں ختم ہونے والے یو ایس پی کے ون معاہدے کی تجدید کی جانی چاہیے، نئی شرائط میں پاکستان کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کے احترام کو یقینی بنایا جائے جبکہ اس کے قومی مفادات کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے۔ سفارشات میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے اندر کسی بھی قسم کے آپریشن برداشت نہیں کئے جائیں گے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے سے امور نمٹانے کیلئے کئے گئے معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں کے حوالے سے چار بنیادی رہنما اصول متعین کئے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ فوجی تعاون اور لاجسٹک سمیت کئے گئے معاہدوں کی تفصیلات وزارت خارجہ اور تمام متعلقہ وزارتیں اس کی الحاق شدہ تنظیموں اور محکمہ جات کو جائزے کیلئے بھجوائے جائیں گے، تمام معاہدے اور مفاہمت کی یادداشتوں پر وزارت قانون، انصاف و پارلیمانی امور کی توثیق کرائی جائے گی، تمام ایسے معاہدے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائے جائیں گے۔ کمیٹی کی اس کی توثیق کرے گی اور اس پر تمام فریقین سے مشاورت کے بعد اپنی سفارشات دے گی جسے منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کو بھجوایا جائے گا، متعلقہ وزیر ایسے معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشت پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پالیسی بیان دے گا۔

سفارشات کے مطابق پاکستان میں کام کرنے والے غیرملکی خفیہ اداروں کے افراد کی تعداد اور ان کی موجودگی کے بارے میں پیشگی اجازت اور اس میں شفافیت ہونی چاہیے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یو ایس، اتحادی اور نیٹو کنٹرینرز کا 50 فیصد پاکستان ریلوے کے ذریعے چلایا جانا چاہیے، پاکستان کے ذریعے آنے والی تمام اشیاء پر ٹیکسز سمیت دیگر چارجز لاگو کئے جانے چاہئیں کیونکہ اس مقصد کیلئے پاکستان کا انفراسٹرکچر استعمال کیا جاتا ہے، یہ چارجز کراچی، طورخم اور کراچی، چمن روڈ کی بحالی کیلئے استعمال کئے جانے چاہئیں۔ سفارشات میں کہا گیا ہے کہ کولیشن سپورٹ فنڈ اور دیگر چارجز کے حوالے سے ادائیگیوں اور بلنگ کا عمل تیز تر ہونا چاہیے۔ سفارشات میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی پر عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے نظرثانی کی ضرورت ہے اس ضمن میں کچھ رہنما اصول وضع متعین کئے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی خطے میں پر امن ماحول کی تخلیق پر فوکس ہونا چاہیے جبکہ اس میں اقتصادی ترقی اور سماجی خوشحالی کے اہداف کو مدنظر رکھا جانا چاہیے، بھارت کے ساتھ مذاکراتی عمل نتیجہ خیز، بامعنی اور پر امن ہونا چاہیے جس میں باہمی احترام اور مفاد کو مدنظر رکھا جانا چاہیے جبکہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کیلئے کوششیں کی جانی چاہئیں۔

سفارشات میں تجویز کیا گیا ہے کہ پاکستان کے اسلامی ممالک سے تعلقات کو مزید تقویت دی جائے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی پاکستان کی مکمل رکنیت کیلئے سرگرم کوششیں کی جائیں، چین سے سٹریٹجک پارٹنر شپ مزید گہری ہونی چاہیے، روس سے تعلقات کو مزید مستحکم بنایا جائے۔ افغانستان میں امن اور استحکام ہماری خاجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ہونا چاہیے، جبکہ اسلامی دنیا کے ساتھ بھی پاکستان اپنے بہترین تعلقات قائم کرے۔
خبر کا کوڈ : 147055
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش