0
Sunday 8 Apr 2012 23:10

ایم ڈبلیو ایم کا سانحہ چلاس کیخلاف پارلیمنٹ کے سامنے نماز جمعہ کی ادائیگی کا اعلان

ایم ڈبلیو ایم کا سانحہ چلاس کیخلاف پارلیمنٹ کے سامنے نماز جمعہ کی ادائیگی کا اعلان
اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین صوبہ پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور سیکرٹری جنرل گلگت بلتستان نیئر حسین مصطفوی اور نثار فیضی نے مشترکہ پریس کرتے ہوئے کہا ہے کہ افسوس کا مقام ہے کہ چھ روز گزر گئے ہیں، لیکن گلگت سے کرفیو کو ختم نہیں کیا، شہریوں کو اشیاء خوردونوش کے علاوہ کئی مسائل کا سامنے ہے لیکن گلگت بلتستان انتظامیہ جس سردمہری کا مظاہرہ کر رہی ہے وہ قابل مذمت ہے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک مکمل طور پر شرپسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہو چکے ہیں اور امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک سانحہ چلاس اور سانحہ کوہستان میں ملوث عناصر ابتک تختہ دار پر ہوتے۔ 

ظلم کی بات یہ ہے کہ ایک طرف ملت تشیع پر ظلم کی پہاڑ توڑے جا رہے ہیں تو دوسری طرف وزیر داخلہ دھمکیاں دے رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور گلگت سے فوراً کرفیو ختم کرے۔ فقط ایک فرد کے گرفتاری نے پورے گلگت بلتستان کو آگ اور خون کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور حکومت جانتی ہے کہ وہ شخص سانحہ کوہستان کے واقعہ میں ملوث تھا لیکن حکومتی رٹ اس وقت ہی چیلنج ہو گئی تھی جب اس کی گرفتاری کے لئے دو افراد کو موقعہ پر ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور یوں گلگت شہر کو دہشگردوں کے حوالے کر دیا گیا۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ شرپسندوں کو گرفتار کیا جاتا، لیکن یہاں شائد گنگا الٹی بہتی ہے کہ مظلوموں پر ہی ستم ڈھائے جا رہے ہیں۔

علامہ اصغر عسکری نے کہا کہ سانحہ چلاس کے بعد حکومت قاتلوں کو پکڑنے کی بجائے شہداء کے لواحقین کے ساتھ ناانصافیاں کر کے ملت تشیع کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر رہی ہیے، ہمیں اس ملک کی سلامتی اور استحکام عزیز ہے اس لیے ہتھیار اٹھانے کی بجائے آئینی طریقے سے اپنے حقوق حاصل کریں گے، ہم امن پسند ہیں اور رہیں گے۔ علامہ اصغر عسکری نے کہا کہ وادی گلگت بلتستان میں دہشتگردوں نے ظلم و بربریت کی نئی تاریخ رقم کی۔ گلگت و بلتستان جو امن و امان کا گہوارہ تھا، وہاں دہشتگردی اور فرقہ واریت کا نام و نشان تک نہیں تھا لیکن بعض ملک دشمن قوتوں نے اپنے مفادات کی خاطر اس خطے کو پہلے قومیت اور لسانیت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی اور جب وہ اپنے ان مذموم عزائم میں ناکام ہوئے تو ان محب وطن پاکستانیوں کو آگ اور خون کے اس سمندر میں دھکیل دیا۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ چلاس میں جس بے دردی ک سے نہتے مسافروں کو بسوں سے اتار کر مارا گیا وہ اپنی نوعیت کا منفرد ظلم ہے۔ یہ قافلہ جو کانوائے کی صورت میں راولپنڈی سے گلگت کی طرف جا رہا تھا، پولیس کی موبائل گاڑیاں ساتھ تھیں، مگر چلاس میں تمام انتظامیہ کی موجودگی میں مسافروں کو بسوں سے اتارا گیا، ان کے شناختی کارڈ دیکھے گئے اور جب تسلی ہو گئی کہ یہ شیعہ ہیں تو ان کو مار دیا گیا۔ بعض مسافروں کو پتھر مار مار کر شہید کیا گیا، بعض کے ہاتھ پائوں باندھ کر دریا میں پھینک دیا گیا اور افسوس یہ کہ یہ سب کچھ سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں ہوتا رہا۔ 

آج 6 دن گزرنے کے باوجود نہ کوئی قاتل گرفتار ہوا اور نہ ہی ان دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کیا گیا بلکہ ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت اور سکیورٹی فورسز ان قاتلوں کو گرفتار کرنے کی بجائے گلگت میں ان شہداء کے غم میں سوگوار لوگوں پر کرفیو مسلط کر دیا گیا، وہاں مریضوں کے لیے ادویات ناپید ہیں، خوراک اور پانی کی شدید قلت ہے۔ ابھی تک شہداء کی صحیح تعداد کے بارے میں نہیں بتایا جا رہا۔ گلگت میں آرمی کی طرف سے عوام میں مسلسل خوف و ہراس پیدا کیا جا رہا ہے اور اس وقت تک 60 سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ آخر حکومت کیا چاہتی ہے؟ حکومت کے اس رویے سے ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ نااہل حکمران ہمیں بھی ہتھیار اٹھانے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ملک میں خانہ جنگی پیدا کی جائے اور ملک دشمن قوتوں کے مفادات کو حاصل کیا جا سکے۔

علامہ اصغری نے کہا کہ ہم نے مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے، گلگت بلتستان میں پائیدار امن کے قیام کے لیے سات نکاتی چارٹرڈ آف ڈیمانڈ پیش کر دیا ہے، اب یہ حکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ اس پر سو فیصد عمل درآمد یقینی بنائیں، انہوں نے بتاہا کہ چارٹرڈ آف ڈیمانڈ میں گلگت بلتستان کے تمام شہداء کے جنازوں کو اُن کے علاقوں میں منتقل کرنے، اُن کے قاتلوں کی فوری گرفتاری یقینی بنانے، شاہراہ قراقرم پر دوران سفر لاپتہ ہونے والا تمام مسافروں کو با حفاظت اُن کے گھروں کو پہنچانے، چلاس میں موجود دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے، وہاں پر موجود دہشتگردوں کے تربیتی مراکز، گلگت کے شیعہ علاقوں میں لگائے جانے والا کرفیو کو ختم کرنے، علمائے کرام کی بلاجواز گرفتاریوں کا سلسلہ فی روکنے، گلگت بلتستان کے مسافروں کو راولپنڈی کے سفر کیلئے متبادل اور محفوظ راستہ کی فراہمی، این ایل آئی کو فی الفور گلگت بلتستان واپس بھیج کر راستہ کی حفاظت کی ذمہ داری اُن کے سپرد کرنے اور سانحہ کوہستان کے بعد رحمن ملک کی جانب سے منظور کیے جانے والے چارٹر ڈ آف ڈیمانڈ پر جھوٹے وعدوں کا سہارا لینے کی بجائے سو فی صد عمل درآمد یقینی بنانے کے مطالبات شامل ہیں۔
 
انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے مطالبات پورے نہ ہوئے تو ملک بھر میں احتجاج کی کال دے دی جائے گی اور ملک کے ہر علاقہ کے مکینوں کا رخ اسلام آباد کی جانب ہو گا۔ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہمارے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے، ہم مظلوموں کے حامی اور ظالموں کے مخالف ہیں، ہمارے سینے میں سانحہ چلاس کا زخم ہے، ہم انشاءاللہ شہداء کے خون کے ساتھ وفا کریں گے۔ 
خبر کا کوڈ : 151585
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش