0
Monday 17 Dec 2012 12:49

کشمیر پر سیاست، اب بس کریں، حامد میر

کشمیر پر سیاست، اب بس کریں، حامد میر
اسلام ٹائمز۔ حریت کانفرنس کے ایک وفد کو پاکستان بلانے کا مقصد صرف یہ نظر آتا ہے کہ حکومت عوام کو یہ تاثر دے سکے کہ وہ کشمیر پر کوئی سودے بازی نہیں کر رہی اور کشمیری قیادت کو اعتماد میں لے کر بھارت کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھا رہی ہے۔ پاکستان کے دورے پر آنے والے حریت کانفرنس کے وفد میں میر واعظ عمر فاروق اور دیگر اہم رہنما شامل ہیں جن کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کیا جائے کہ سید علی گیلانی اور ان کا کوئی نمائندہ اس وفد میں شامل نہیں۔ یاسین ملک کا بھی یہ خیال ہے کہ حریت کانفرنس کے وفد کو پاکستان کے عام انتخابات سے صرف چند ماہ پہلے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے یہ تاثر ملے کہ حریت کانفرنس مسئلہ کشمیر کے حل کی کسی کوشش میں شامل نہیں بلکہ ایک سیاسی حکومت کے انتخابی عزائم کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ محب وطن پاکستانیوں کی بڑی اکثریت کے لئے یہ امر نہایت تکلیف کا باعث ہے کہ پچھلے دس سال کے دوران پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے کی بجائے غیرملکی طاقتوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی۔ 

جنرل پرویز مشرف نے 2002ء میں کشمیریوں پر ایک ایسا فارمولا مسلط کرنے کی ٹھان لی جو 1931ء سے جاری کشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ غداری کے مترادف تھا اور اس مقصد کے لئے جنرل پرویز مشرف نے حریت کانفرنس کو تقسیم کر دیا۔ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے بھارت نواز لیڈروں کو اسلام آباد بلا کر زبردستی حریت کانفرنس کی قیادت کے ساتھ بٹھایا گیا تاکہ لائن آف کنٹرول کو ختم کرکے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا اعلان کر دیا جائے۔ پرویز مشرف اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہوئے لیکن افسوس کہ اب موجودہ حکومت کی کچھ شخصیات پرویز مشرف کے پرانے فارمولے کو کچھ نئے الفاظ کا جامہ پہنا کر دوبارہ پاکستانی اور کشمیری عوام کو بے وقوف بنانے کی تیاریوں میں ہیں۔ 

افسوس کہ پاکستان کے ارباب اختیار نے حریت کانفرنس کے وفد کو پاکستان بلانے سے پہلے سید علی گیلانی سمیت یاسین ملک اور شبیر شاہ کو اعتماد میں لینے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ میر واعظ عمر فاروق اور ان کے وفد میں شامل مہمان مظفر آباد پہنچے تو پاکستان میں موجود غلام محمد صفی، فاروق رحمانی، غلام نبی نوشہری، عبدالمجید میر، محمد حسین خطیب سمیت دیگر کئی کشمیری رہنما ان کے پاس نظر نہیں آئے جس سے یہ تاثر ملا کہ حریت کانفرنس کے وفد کو جلدی میں بلایا گیا یا پھر جان بوجھ کر کشمیری قیادت کی نااتفاقی کو دنیا کے سامنے اچھالا جا رہا ہے۔
 
پاکستان کا حکمران طبقہ یاد رکھے کہ 1947ء سے آج تک کشمیریوں کے ساتھ بے وفائیوں اور دھوکوں کی داستان بہت طویل ہے۔ اکتوبر 1947ء میں قائداعظم کو بتائے بغیر کشمیر میں ایک قبائلی لشکر بھیجا گیا اور اس لشکر کی وجہ سے بھارت کو کشمیر میں اپنی فوج بھیجنے کا موقع ملا۔ اس لشکر کے لئے جی ایچ کیو نے جو بندوقیں دیں ان پر پولیس نے قبضہ کر لیا اور یہ لشکر انتہائی ناقص بندوقوں کی مدد سے مار دھاڑ کرتا رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بھارت نے پاکستان کو پیشکش کی کہ وہ حیدرآباد دکن پر دعوے سے دستبردار ہو جائے تو بھارت کشمیر سے نکل جائے گا لیکن لیاقت علی خان نے بڑی حقارت سے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ پھر بھارت خود ہی یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا سیز فائر کرایا لیکن اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا۔ 1951ء میں پاکستان کے فوجی جرنیلوں نے لیاقت علی خان کو خوفزدہ کرنے کے لئے کشمیر کے نام پر راولپنڈی سازش کیس کا شوشہ کھڑا کیا جس کا اصل مقصد سیاسی حکومت کو کمزور کرنا تھا۔

بھارت اور چین کے درمیان 1962ء میں جنگ شروع ہوئی تو وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب خان سے کہا کہ بھارتی فوج نے کشمیر خالی کر دیا ہے، یہ کشمیر آزاد کرانے کا بہترین موقع ہے لیکن ایوب کو واشنگٹن نے روک دیا۔ 1965ء میں آپریشن جبرالڈ کے ذریعہ کشمیریوں کے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔ 1971ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ کیا گیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بھارت نے 1984ء میں سیاچن پر قبضہ کر لیا۔1987ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی۔ پاکستان نے اس تحریک میں عسکریت کو داخل کیا لیکن اس عسکریت کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دیا جب عسکریت پسندوں نے احتجاج کیا تو آئی ایس آئی کے ایک افسر میجر جنرل افتخار حسین شاہ نے انہیں صاف کہا کہ ہم کشمیر کی آزادی نہیں چاہتے بلکہ صرف بھارت کو زخم لگانا چاہتے ہیں۔ کچھ سال کے بعد یہ صاحب مشرف دور میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے گورنر بنے تو موصوف نے قبائلی علاقوں میں وہ خوفناک کھیل شروع کیا جس کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ 

کارگل کے ایڈونچر سے لے کر 2002ء میں حریت کانفرنس کا شیرازہ بکھیرنے تک پاکستان کے سیاسی و فوجی حکمرانوں کی اہل کشمیر کے ساتھ بے وفائیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان حکمرانوں سے گزارش ہے کہ اب بس کریں آپ کشمیریوں کے ساتھ کوئی بھلا نہیں کر سکتے تو انہیں آپس میں لڑانا اور تقسیم کرنا تو بند کر دیں، اگر آپ نے اپنی پالسی پر نظرثانی نہ کی تو خدانخواستہ آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں بھی آپ کے خلاف وہ جذبات پیدا ہو سکتے ہیں جو آج پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہیں۔ کشمیری قیادت سے بھی ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ اپنے اختلافات ختم کریں اور دنیا کے سامنے اپنا مزید تماشہ نہ بنائیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اپنی ڈبل اور ٹرپل گیم اب ختم کر دینی چاہیے تاکہ ہم متحد ہوکر اپنے مسائل خود حل کرنے کے قابل ہو سکیں۔
خبر کا کوڈ : 222040
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش