0
Saturday 29 Dec 2012 20:31

حکومت تحریک طالبان کی طرف سے امن کی پیشکش کو قبول کرے، مولانا فضل الرحمن خلیل

حکومت تحریک طالبان کی طرف سے امن کی پیشکش کو قبول کرے، مولانا فضل الرحمن خلیل
اسلام ٹائمز۔ انصارالامہ پاکستان کے امیر و دفاع پاکستان کونسل کے مرکزی رہنماء مولانا فضل الرحمن خلیل نے کہا ہے کہ حکومت تحریک طالبان کی طرف سے امن کی پیشکش کو قبول کرے اگر امریکہ افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کر سکتا ہے تو ہمیں بھی اپنی قوم اور ملک کے مفاد میں مذاکرات کاراستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اے این پی ماریں گے یا مرجائیں گے کا نعرہ لگا کر روشن خیال انتہاپسندی کو فروغ دے رہی ہے بھارت میں جنسی زیادتی کا شکار لڑکی پر میڈیا اور نام نہاد سول سوسائٹی کی خاموشی منافقت پر مبنی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی میں دفاع پاکستان کونسل کے اجلاس کے بعد واپس اسلام آباد پہنچنے پر ائیرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا مولانا فضل الرحمن خلیل نے کہا ہے کہ تحریک طالبان نے امن کی پیشکش کرکے مثبت قدام اٹھایا ہے۔ اس وقت ملک کی جو صورتحال ہے اس میں ٹی ٹی پی کی طرف سے آنے والے اس بیان کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ملک کے لوگوں سے لڑ کر جنگیں نہیں جیتی جاسکتیں بلکہ اپنے عوام کے ساتھ مذاکرات ہی کے ذریعے سے ملک میں امن قائم ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کسی دور میں اے این پی والے یہ کہا کرتے تھے کہ ہم بھارتی ٹینکوں پر بیٹھ کر پاکستان میں آئیں گے وہ اگر غدار نہیں قرار پائے اور اب ملک میں حکمرانی کر رہے ہیں تو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بھی مذاکرات ہوسکتے ہیں اور انہیں بھی قومی دھارے میں لایا جاسکتا ہے ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں امریکہ 56ممالک کے ساتھ آیا تھا اور گزشتہ گیارہ سالوں سے اس نے افغانیوں کو زیر کرنے کے لیے ہر طریقہ آزما لیا مگر وہ افغانیوں کو زیر نہیں کرسکا اب امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے اور پرامن انخلاء کے لیے وہ طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں ٹی ٹی پی کے لوگ ہمارے ہی ملک کے باسی ہیں ان کے ساتھ اگر مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایا جائے تو اس میں ملک وقوم کا مفاد ہے۔

مولانا فضل الرحمن خلیل نے کہا کہ ہم امریکہ کے حلیف ہیں اس لئے وہ بہت دور بیٹھے دشمن کے بجائے قریب بیٹھے دشمن پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ امریکہ ان پر ڈرون حملے کرتا ہے تو ان کے نہ جانے کتنے بچے، عورتیں اور بزرگ خاموشی سے اندھیری قبروں میں اتر جاتے ہیں اور ایسا ہر حملہ انہیں ہم پر حملہ آور ہونے پر اکساتا ہے۔ اے این پی لاکھ لبرل اور سیکولر سہی لیکن اس کے اکابرین اس بات کو تو سمجھیں کہ امریکی انہیں مارتے ہیں اور وہ ہمیں مارتے ہیں اور جب پرویز مشرف امریکیوں کو ہر سمت سے ان پر حملے کرنے کا لائسنس دے رہے تھے تو اس وقت اے این پی مشرف کی پالیسیوں کی حمایت کر رہی تھی۔ ان کی ہمارے ساتھ لڑائی آج بھی ختم ہوسکتی ہے اگر ہم امریکہ کی جنگ سے خود کو الگ کرلیں۔ مار دو، کچل دو فلسفے کے پرچاروں کو یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ اس جنگ پر قوم اور سیاسی جماعتیں اس لئے متفق نہیں کیونکہ وہ اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتی انہوں نے کہا کہ حکومت طالبان سے مذاکرات کرنے کے ساتھ ساتھ ڈرون حملے بھی بند کروائے۔
خبر کا کوڈ : 226225
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش