0
Thursday 24 Jan 2013 00:13

نمونیہ سے جاں بحق ہونے والوں معصوم بچوں کا خون پی پی حکومت کے دامن پر

نمونیہ سے جاں بحق ہونے والوں معصوم بچوں کا خون پی پی حکومت کے دامن پر
رپورٹ: ساجد حسین
 
پاک افغان بارڈر پر واقع قبائلی علاقے جنت نظیر وادی پارا چنار کرم ایجنسی میں شدید ترین سردی پڑتی ہے، پچھلے چند سالوں سے ملک بھر میں اکثر کم ترین درجہ حرارت پارا چنار کا ہی ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ منفی بیس ڈگری تک گر جاتا ہے۔ سردی اور برف باری سے لطف اندوز ہونا جہاں اس ملک کی اشرافیہ و امیر طبقے کے لئے ایک تفریح ہے، جس کے لئے مری جیسے علاقوں کو سہولیات دے کر اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن اس کے برعکس حکومت کی طرف سے پارا چنار کے ساتھ سوتیلی ماں جیسے سلوک کی وجہ سے یہی سردی عوام کے لئے وبال جان اور مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ پارا چنار میں شدید ترین سردی میں عوام کے لئے قدرتی گیس کی سہولت موجود نہیں۔ جس کی وجہ سے ہر گھرانہ موسم سرما میں ایک لاکھ تا ڈیڑھ لاکھ روپے مالیت کی جلانے کی لکڑی خریدتا ہے، جبکہ غریب عوام پہاڑوں سے مجبوراً لکڑیاں کاٹ کر گزارا کرتے ہیں، اس کے علاوہ بجلی کی بائیس سے زیادہ گھنٹے روزانہ کی لوڈشیڈنگ اور سب سے اہم مسئلہ شدید ترین سردی سے ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کے باعث درجنوں بچے نمونیہ میں مبتلا ہو کر جاں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور یہ ظلم کی انتہا ہے۔

گذشتہ ہفتے پارا چنار سے پشاور سفر کے دوران مسافر کوچ میں نمونیہ کا شکار ایک کمسن بچہ جو راقم سے اگلی سیٹ پر اپنی والدہ، نانی اور نانا کے ہمراہ بیٹھا تھا اور علاج معالجے کے لئے پشاور کے کسی پرائیوٹ کلینک جا رہا تھا، پارا چنار سے گاڑی روانہ ہوئی تو اس معصوم و کمسن بچے کی آہ و بقا جاری تھی۔ پارا چنار سے پشاور تک مسافر کوچ کے ذریعے چند سال پہلے جو فاصلہ صرف چار سے پانچ گھنٹے میں طے ہوتا تھا، لیکن اب جگہ جگہ پر چیک پوسٹوں اور سکیورٹی فورسز کے ناکوں کی وجہ سے یہ فاصلہ سات سے نو گھنٹے میں طے کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ مسافر کوچ جب ہنگو کے قریب پہنچی تو اس ننھے معصوم بچے کی حالت بہت زیادہ خراب تھی ایک طرف یہ معصوم بچہ رونے و فریاد کی سکت ختم ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ رو رہا تھا لیکن اس کی حالت دیکھ کر اس کی نانی اور ماں مسلسل روتی جا رہی تھیں، جس سے پوری مسافر کوچ پر غم و اندوہ کی حالت تھی۔

ہنگو کے علاقے رئیسان بازار میں واقع ایک میڈیکل پریکٹیشنر کی دکان کے سامنے گاڑی روکوائی گئی، جہاں میڈیکل پریکیٹشنر نے اس کمسن بچے کو ایک چھوٹی ڈرپ لگائی، راقم نے اس کمسن بچے کے نانا اور نانی جو غم کی حاالت میں تھے پوچھا کہ اس کا پارا چنار میں کیوں علاج معالجہ نہیں کرواتے، تو ان کا جواب تھا کہ پارا چنار میں علاج معالجہ کی وجہ سے تو یہ حال ہوا ہے۔ شدید سردی کی وجہ سے اس کمسن بچے کو بیماری لاحق ہوئی تو ہم نے علاج کے لئے ڈاکٹر کو دکھایا، ماہر ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے ہر ڈاکٹر نے اپنے اپنے انجکشن لگائے اور جب آخرکار حالت بہت بگڑ گئی تو پارا چنار کے سرکاری اسپتال میں چند دن کے لئے داخل کروا دیا۔ وہاں علاج تو ہوتا رہا لیکن اسپتال میں شدید ترین سردی اور بجلی کی مسلسل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے یہ کمسن بچہ اسپتال کی بجائے اگر گھر میں ہی ہوتا تو اچھا تھا، اس لئے یہ کمسن پھول ٹھیک ہونے کی بجائے مزید مرجھا گیا۔ بقول ان کے صرف ہمارا یہ لخت جگر ہی نہیں بلکہ پارا چنار اور اس کے مضافات کے دیہات کے درجنوں بچے ہر سال ماہر امراض اطفال ڈاکٹرز نہ ہونے اور شدید ترین سردی سے نمونیہ ہو جانے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ 

ہنگو رئیساں سے ڈرپ سمیت اس کمسن بچے کو اس کی نانی نے گود میں بٹھا کر ڈرپ کو سائیڈ پر لٹکا دیا۔ جس کے بعد دوبارہ سفر پر روانہ ہو گئے، ڈرپ ختم ہونے کے بعد تقریباً اڑھائی گھنٹے کی مسافت کے بعد جب مسافر کوچ کوہاٹ ٹنل پہنچی تو دوبارہ اس کمسن بچے کی حالت بہت بگڑ گئی۔ سانس بھی مشکل سے لے رہا تھا، اور اس کی نانی و ماں بھی مسلسل آہ و بکا کر رہی تھیں۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ مسافر کوچ میں سوار تمام مرد و خواتین بشمول ڈرائیور بہت ہی تعاون کرنے والے تھے، حالانکہ اکثر ڈرائیور سواریوں کا خیال نہیں رکھتے لیکن سواریوں کے کہنے پر ڈرائیور نے ایک بار پھر کوہاٹ ٹنل سے آگے نکل کر درہ آدم خیل کی طرف ایک میڈیکل سٹور کے سامنے گاڑی روک لی۔ مسافروں نے اس سٹور والے سے ڈاکٹر کا پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ اندر گھر میں ہے، اور سٹور والا خود اس ڈاکٹر کو گلی میں اندر جا کر بلانے چلا گیا، تقریباً پندرہ منٹ تک انتظار کرنے کے بعد ڈاکٹر کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ تمام سواریوں نے فیصلہ کیا کہ اتنا انتظار کرنے سے پشاور جانا ہی بہتر ہے۔
 
جونہی ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی تو ڈاکٹر بھی گلی سے نمودار ہوا اور اس کے بلانے والے میڈیکل سٹور والے نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔ وہ نوجوان ڈاکٹر تھا یا میڈیکل پریکٹشنر لیکن میڈیکل سٹور والا اس کو ڈاکٹر ہی کہہ کر پکار رہا تھا۔ لہجے سے آفریدی قبیلے کا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے مسافر کوچ میں ہی آکر بچے کو چیک کیا اور کہا کہ زیادہ انجکشن وغیرہ لگانے سے بچے کی حالت غیر ہے اور اس کا علاج بھی مذکورہ ڈاکٹر نے ایک انجکشن ہی تجویز کیا۔ اس لئے اپنے ساتھ موجود دوسرے فرد کو دکان سے انجکشن منگوایا اور خود ہی انجکشن لگانے لگا، لیکن کینولہ میں انجکشن لگاتے وقت یہ معلوم ہوا کہ شدید درد و آہ و بکا سے کینولہ کمسن بچے کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ اس لئے دوبارہ نیا کینولہ ڈالنے کی بجائے سرنج کے ذریعے ہی کمسن بچے کو انجکشن لگوایا گیا۔ یوں یہ ڈاکٹر صاحب جو خود زیادہ انجکشن لگانے کی وجہ سے بچے کی حالت غیر بتا رہے تھے، نے علاج کے طور پر خود ایک اور انجکشن لگا کر بچے کے نانا سے اپنی فیس و انجکشن کے پیسے لے لئے، جس کے بعد ایک بار پھر پشاور کی طرف روانہ ہوگئے۔ لیکن کمسن بچے کی حالت ٹھیک ہونے کی بجائے خراب تر ہوتی جا رہی تھی۔
 
دوسری طرف اس کی ماں و نانی بھی اپنے لخت جگر کے لئے مسلسل آنسو بہا رہے تھے اور یوں پوری مسافر کوچ پر غم و اندوہ طاری تھا۔ اب کی بار تو نانی نے کہا کہ کمسن بچے کے ہونٹ ذرد و خشک ہو گئے ہیں اور وہ شاید اللہ کو پیارا ہو گیا۔ لیکن ساتھ ہی سیٹ پر بیٹھے ایک شخص نے بچے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی کہ نبض چل رہی ہے۔ شائد زیادہ انجکشن لگانے کی وجہ سے غنودگی طاری ہے اور ساتھ یہ بھی مشورہ دیا کہ بچے کی ادویات میں سے ایک دوائی پیناڈول کے چند قطرے ڈراپر کے ذریعے ہونٹوں پر ڈالے جائیں تاکہ بچے کی پیاس بجھ جائے۔ یہ کمسن و بے زبان مریض جو کچھ بتا تو نہیں سکتا تھا کہ اسے کیا تکلیف ہے سمیت اس کی ماں اور نانی کی آہ و بکا اور مسافر کوچ میں سوار مسافروں کی یہ آہ و بکا سن کر افسوس کرتے کرتے آخرکار پار اچنار سے صبح آٹھ بجے نکل کر شام پانچ بجے کے قریب پشاور میں واقع کوہاٹ اسٹینڈ پہنچے۔
 
وہاں کوچ میں ہم سفر مسافروں نے معصوم بچے کے نانا کو ہر ممکن تعاون اور ماہر ڈاکٹر تک لے جانے کی پیشکش کی، لیکن اس نے شکریہ کے ساتھ کہا کہ میں نے پہلے ہی فون پر ڈبگری گارڈن میں واقع ایک ماہر امراض اطفال کے ساتھ معائنے کے لئے آج کی تاریخ لی ہے۔ لہذا معصوم بچے سمیت اس کی والدہ، نانی اور نانا کو ایک ٹیکسی مین سوار کرکے ڈبگری گارڈن لے جانے کا کہا گیا اور باقی مسافر اپنی اپنی منزلوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس کے بعد کی حالت کا راقم کو نہیں معلوم کہ کیا جب وہ کمسن بچہ اس ماہر فزیشن کے کلینک میں گیا ہوگا تو اس کی ایمرجنسی والی صورتحال دیکھ کر اس کو پہلے ہی ترجیح دے کر ڈاکٹر کو دکھایا ہوگا، یا پھر ڈاکٹر کے کلینک کے باہر انتظار کروا کے کہ رکو ۔۔۔۔۔۔ ابھی تمہاری باری نہیں آئی اس کمسن بچے اور اس کی ماں نانا و نانی کو بٹھایا گیا ہو گا، ۔۔۔۔ یا پھر  اس ماہر امراض اطفال ڈاکٹر کے کلینک تک پہنچتے پہنچتے کوہاٹ اڈہ تا ڈبگری پشاور کی پرہجوم ٹریفک میں وہ کمسن پھول واقعی اللہ کو پیارا ہو گیا ہو گا،۔۔۔ اس کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے یا پھر اس کمسن بچے کی والدہ نانی اور نانا۔۔

یہاں اس دلخراش منظر اور واقعے کی عکاسی کرنا اس لئے مقصود تھا کہ صرف کوئٹہ، مستونگ، کراچی، گلگت و بلتستان یا پورے پاکستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ناحق قتل ہونے والے افراد کے قتل کی ذمہ دار برسر اقتدار نااہل پی پی پی جس کی رئیسانی حکومت تو مظلوموں کی آہ سے نابود ہوئی، ساتھ ہی پارا چنار میں نمونیہ سے جاں بحق ہونے والے درجنوں کمسن بچے و بچیوں کا خون بھی پی پی پی حکومت کے دامن پر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کے نام کو کیش کرکے برسر اقتدار آنی والی پی پی حکومت پانچ سال گزرنے کے باوجود ان وعدوں پر بھی عمل نہ کر سکی جو بے نظیر بھٹو نے پارا چنار والوں سے کئے تھے جن میں سے ایک فاٹا میڈیکل کالج کا قیام بھی تھا،اس کالج کو اسکے اصلی مقام پارا چنار میں نہیں بنایا گیا بلکہ پارا چنار کے عوام پر شب خون مارا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بےنظیر بھٹو کی طرف سے منظور کردہ پارا چنار تا پشاور پی آئی اے فلائٹ جسے بعد میں برسر اقتدار نواز شریف حکومت نے بند کر دیا تھا، جسے پی پی پی حکومت اب تک بحال نہ کروا سکی۔ 

فاٹا میڈیکل کالج کی پارا چنار میں منظوری کا مقصد ہی یہی تھا کہ پارا چنار اور اس سے متصل افغانستان کے لاکھوں عوام کو میڈیکل کالج کی تعمیر سے ماہر و اسپشلیسٹس ڈاکٹرز کی سہولیات دور دراز پشاور میں آنے کی بجائے پارا چنار ہی میں مہیا کرکے قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکتا تھا۔ اسی طرح اگر پی آئی اے کی روزانہ پروازیں بحال ہو جاتیں تو اس کمسن مریض اور نمونیہ سے مرجھائے ہوئے پھول کو ایمرجنسی کی حالت میں پارا چنار سے پشاور مسافر کوچ میں پورے دن کی مسافت و تکالیف کی بجائے جہاز میں آدھے گھنٹے میں پہنچایا جا سکتا تھا۔ اس لئے یہ کہنے میں کوئی دو رائے نہیں کہ پارا چنار اور اس کے مضافات میں نمونیہ سے جاں بحق ہونے والے ان معصوم بچوں کا خون بھی پی پی پی حکومت کے دامن پر ہے۔
خبر کا کوڈ : 233943
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش