1
0
Sunday 24 Feb 2013 13:10

پاکستان کے اندر فرقہ واریت نہیں دہشتگردی ہے، شیعہ نہ ہوتے تو ملک کب کا ٹوٹ چکا ہوتا، شہنشاہ حسین نقوی

پاکستان کے اندر فرقہ واریت نہیں دہشتگردی ہے، شیعہ نہ ہوتے تو ملک کب کا ٹوٹ چکا ہوتا، شہنشاہ حسین نقوی
اسلام ٹائمز۔ دفتر نمائندۂ ولی فقیہ علامہ سید ساجد علی نقوی شعبہ مشہد المقدس کی پریس رپورٹ کے مطابق شیعہ علماء کونسل پاکستان کے رہنما حجۃ الاسلام والمسلمین سید شہنشاہ حسین نقوی نے مشہد المقدس میں ‘‘بیداری اسلامی میں انقلاب اسلامی اور شہدائے ملت جعفریہ کا کردار’’ کے عنوان سے منعقد ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے  ہوئے کہا کہ میں حب وطنی میں پاکستانیوں کے درمیان بات کر رہا ہوں، وگرنہ دوسرے ملک میں وطن عزیز کے منفی پہلوؤں کو بیان کرنے کا ایک شیعہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اگر شیعہ نہ ہوتے تو پاکستان کب کا ٹوٹ چکا ہوتا۔ ہم نے اتنے جنازے اٹھانے کے بعد بھی کبھی پاکستان کے ٹوٹنے کا تصور نہیں کیا، ورنہ جو اپنے سینے پر ہاتھ مار سکتا ہے وہ کسی اور کو بھی مار سکتا ہے۔ ہماری فطرت اور سرشت میں نہیں کہ ہم اسلامی سرزمین کے ٹکڑے ہوتے دیکھیں بلکہ یوں کہوں کہ یہ قربانیاں، جان نثاریاں، یہ شہادتیں ہم دے ہی اسی لیے رہے ہیں کہ ہم اس ملک کو ٹوٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔
 
شہنشاہ حسین نقوی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان 1947ء کو بنا اور قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ شیعوں کا کتنا حصہ تھا وہ تاریخ پاکستان میں موجود ہے۔ جسٹس امیر علی، راجہ صاحب محمود آباد خود قائد اعظم محمد علی جناح اور انکی بہن فاطمہ جناح اور علمائے کرام میں میر حسن جارچوی، علامہ رشید ترابی، اظہر حسن زیدی، حافظ کفایت حسین اور اس خطے میں شیعہ علماء نے جو کردار ادا کیا ہے، وہ سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ اگر بانی ملک کو ہی چھ ماہ میں مار دیا جائے تو اس ملک کی بنیادیں مستحکم ہونا مشکل امر تھا۔ امام خمینی (رہ) کو دس سال ملے، انقلاب اسلامی کو مضبوط کرنے کے لیے۔ آپ نے ایسے شاگرودں کی تربیت کی کہ اگر آج خمینی (رہ) ہوتے تو یہی کرتے جو خامنہ ای (حفظہ اللہ) کر رہے ہیں، کوئی فرق نہیں ہوتا، لیکن پاکستان میں قائد اعظم کو مار دیا گیا۔ فاطمہ جناح زیادہ عرصہ نہیں رہیں، راجہ صاحب محمود آباد دلبرداشتہ ہو کر لندن چلے گئے اور بانیان پاکستان کو گھر بٹھا دیا گیا۔
 
معروف عالم دین نے پاکستان کے حکمرانوں کو بےبس اور ایجنٹ طبقہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ڈیل پر آنے والے لوگ ہیں، جنہوں نے پانچ سال پورے کرنے تھے، چاہے جتنے ہی لوگ مارے جائیں اور وہ اصلی لوگ، نادیدہ قوتیں، اگر ان کا ذکر کیا جائے تو وہ شجرۂ ممنوعہ ہے، جو اس کا تذکرہ کرے گا وہ مار دیا جائے گا، ایک ہزار سے زیادہ مسنگ پرسن آپ کے ذہنوں میں رہنے چاہیں، جو بھی اُس شجرہ ممنوعہ کی طرف جاتا ہے، انہیں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم کے بعد آج تک پاکستان پر حکومت کرنے والے لوگ پاکستان سے سنجیدہ نہیں ہیں۔ یہ ایک شکوہ ہے، گلہ ہے، حقیقت ہے۔ قانوں کو روڈ پر چلنے والا نافذ نہیں کرتا، بلکہ کرسی پر بیٹھا شخص نافذ کرتا ہے۔ جس ملک میں اداروں پر اعتماد نہ ہو، ادارے اپنے کام انجام نہ دیتے ہوں اور ان پر بھروسہ نہ ہو، تو پھر پاکستان کے یہی حالات ہونے ہیں۔ پاکستان کے اندر فرقہ واریت نہیں ہے بلکہ دہشت گردی ہے۔ فرقہ واریت کا تو ایسا جنازہ نکلا ہے کہ 25 سے زائد سنی تنظیمیں ملت جعفریہ کے ایک فردِ فرید کو اپنا قائد ماننے کے لیے تیار ہیں۔ آج ملی یکجہتی کی تمام تر جماعتیں یہ فیصلہ کرچکی ہیں کہ جسے علامہ ساجد علی نقوی صدر منتخب کریں وہی ہمارا صدر ہوگا۔
 
آج دہشت گرد ٹولہ آپ کو کسی فورم پر نظر نہیں آئے گا، جو پاکستان میں شیعہ کافر کے نعرے لگاتے ہیں، جو پاکستان کے آج کے حالات کے ذمہ دار ہیں، جو شیعوں کو دیوار سے لگانے کی بات کرتے تھے، آج وہ خود دیوار سے لگے ہوئے ہیں، انہیں سنی اپنے ساتھ بٹھانے کو تیار نہیں ہیں، پس پاکستان میں فرقہ واریت نہیں بلکہ دہشت گردی ہے۔ وہ شخص جو آج ٹی وی چینلز پر کہتا ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کا سبب انقلاب اسلامی ایران ہے۔ میں کہتا ہوں ایسا نہیں ہے، دنیا میں اگر فرقہ واریت پھیلی ہے تو 1924ء سے پھیلی ہے، جب وہابیت کی بنیاد پڑی اور اس کی دلیل یہ ہے کہ 1963ء میں تو انقلاب اسلامی ایران رونما نہیں ہوا تھا، جب پاکستان کی تاریخ کا تیسرا بڑا واقعہ رونما ہوا تھا اور دو بڑے واقعات ابھی رونما ہوئے ہیں، اس وقت ہمیں 140 جنازے ملے تھے جبکہ 250 افراد شہید ہوئے تھے۔ 

علامہ شہنشاہ حسین نقوی کا کہنا تھا کہ بوڑھے شیطان برطانیہ نے تین مکاتب کی بنیاد رکھی تھی۔ 1۔ بہائیت 2۔ قادیانیت۔ 3۔ وہابیت؛ تینوں کی تاریخ پیدائش 1924ء ہے۔
ایک گروہ فارسی زبان والوں کے لئے، دوسرا عرب دنیا کے لیے اور تیسرا برصغیر کے لیے بنایا گیا۔ قادیانیت اور بہائیت کچھوئے کی چال چل رہی ہیں، لیکن ان سب سے زیادہ طاقتور وہابیت ہے۔
سب سے پہلا فرقہ وارنہ جرم انہوں نے آئمہ علیہم السلام کے مزارات کو منہدم کرکے کیا، کربلا پر چڑھائی کی اور 6000 ہزار افراد کو شہید کیا۔ یہ سب 1924ء اور 1925ء کے واقعات ہیں، اس وقت تو انقلاب اسلامی رونما نہیں ہوا تھا۔ سعودی حکومت اپنے ملک میں کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی داخل نہیں ہونے دیتی اور حاجیوں کو ایک ایک کتاب تھما دیتے ہیں، جس میں لکھا ہوتا ہے کہ شیعہ کافر ہیں۔
جب اس سانپ کا سر پاکستان میں کچل دیا گیا تو دہشت گردی کا آغاز ہوتا ہے، یہ ایک مخصوص گروہ ہے جو کہیں سے تنخواہ لیتا ہے اور شیعوں کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے لیے قرآن جلا دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔
 
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری قوم بحیثیت قوم سیاسی شعور نہیں رکھتی، پاکستان پیپلز پارٹی میں اکثریت شیعوں کی ہے، مسلم لیگ اور دوسری جماعتوں میں بھی شیعہ موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک مدت تک بحثیں رہیں کہ سیاست دین سے جدا ہے۔ ہمارا سلام ہو ان علماء پر جنہوں نے کوششیں کیں۔ اگر آج سے ہم کام کرنا شروع کریں تو پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم شیعہ ہوں گے۔ پاکستان کی دوسری بڑی قوت شیعہ ہیں اور نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں اعلان کیا تھا کہ اگر بینکوں کا ریکارڈ دیکھا جائے تو ملک کے 90 فیصد لوگ شیعہ ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان میں دو طرح کے شیعہ ہیں، ایک عاطفی شیعہ اور دوسرے فقاہتی شیعہ۔ عاطفی شیعہ وہ ہیں جو علم لگاتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، لیکن نماز ہاتھ باند کر بھی پڑھ لیتے ہیں، بلکہ میں تو اُن لوگوں کو بھی عاطفی شیعہ کہوں گا جو مسلک میں ہندو ہیں لیکن عزاداری کرتے ہیں۔ اگر ان پر کام ہو جائے تو ہم اپنا وزیراعلٰی بھی شیعہ بنا سکتے ہیں۔ ہمارے اندر ہم آہنگی کا نہ ہونا بھی مسائل کا باعث بنتا ہے۔ ہم اس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں صلاحیت اور میرٹ کی بنیاد پر امامت بنتی ہے۔
 
علامہ شہنشاہ نقوی نے کہا کہ اس وقت کی آئیڈیل شخصیات کو آج کے حالات کے ساتھ منطبق کیے بغیر تجزیہ کرنا درست نہ ہوگا۔ جون 1963ء ٹھیڑی کے واقعہ کے بعد 350 علماء کراچی میں رضویہ امام بارگاہ میں جمع ہو کر متحد صورت میں قائد ملت جعفریہ علامہ سید محمد دہلوی کو قائد منتخب کرتے ہیں اور پھر 1979ء میں جناب علامہ مفتی جعفر حسین کو قائد منتخب کیا گیا۔ 1984ء میں ہمیں بہترین قیادت نصیب ہوئی، علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) جنہوں نے سیاست میں رسمی طور پر داخل ہونے کا اعلان کیا۔ 1988ء میں ان کی مظلومانہ شہادت کے بعد ہمیں ایک اور قیادت نصیب ہوئی، جنہیں مقتدر علماء نے انتخاب کیا اور وہ علمائے کرام آج بھی زندہ اور اس قیادت پر متفق ہیں۔ 
ان کا مزید کہنا تھا کہ 1979ء میں انقلاب کے بعد ضیاء نے انقلاب اسلامی کی برکتوں اور نورانیتوں کو روکنے کے لیے اسلام کا نعرہ شیعہ دشمنی میں لگایا۔ اس نے شہید کو قتل کروایا اور جب شیعوں نے سینٹ اور پارلیمنٹ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا تو پھر سازش ہوئی، لیکن میرا سلام ہو سید نقوی پر جن کے اعصاب بہت مضبوط ہیں، جسے چاہیں بھلا دیتے ہیں، انہوں نے جدوجہد کو نہیں روکا۔
 
انہوں نے سوال کیا کہ کیا گذشتہ قائدین پر لوگوں کو اختلاف نہیں تھا؟ تاریخ کبھی منفی کردار رکھنے والوں کو یاد نہیں رکھتی، نامور لوگوں نے اُن کی مخالفت کی۔ مفتی جعفر حسین، شہید قائد ان سب کو مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کی سرزمین ہم سے زیادہ توجہ مانگتی ہے، خلوص و سچائی مانگتی ہے، اخلاقیات اور حقیقت بینی کا مطالبہ کرتی ہے، شخصیت پرستی کی جہاں ممنوعیت ہے وہاں اگر مدتوں بعد شخصیت بن جائے تو اسے توڑنا بھی کوئی اچھا کام نہیں ہے۔ ہم سے اس کی حمایت کا مطالبہ کرتی ہے۔ پاکستان کی سرزمین ہم سے برداشت مانگتی ہے۔ جماعتیں بنائیں، لیکن برداشت کی بنیاد پر۔ اپنا تو چراغ نظر آئے لیکن دوسروں کا سورج بھی نظر نہ آئے تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔ دوسروں کے پروگرام خراب نہیں کریں اور اگر حوزہ ہائے علمیہ میں منفی پہلوؤں کی بات ہو تو یہ اچھا نہیں، ہم کتابوں میں تو قطع و یقین کی بات کرتے ہیں تو پھر روز مرزہ کی زندگی میں شک و وہم و گمان پر کیوں چلتے ہیں۔ پاکستان میں قیادت کا مسئلہ نہیں بلکہ اطاعت کا مسئلہ ہے، اگر اطاعت بہتر ہو جائے تو باقی مسائل حل ہو جائیں گے۔ 

انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں اس عظیم الشان سیمینار کے انعقاد پر یہاں کے مسئولین کو تبریک پیش کی۔ قابل ذکر ہے کہ اس عظیم الشان سیمینار میں مشہد مقدس سے تعلق رکھنے والے آیات عظام، جن میں آیت اللہ سید محمد رضاحسینی آملی، آیت اللہ سید علی طباطبائی، آیت اللہ قاضی زادہ اور حوزۂ علمیہ کے دوسرے اساتید کے علاوہ پاکستانی، ہندوستانی، افغانی، آذربائیجانی طلاب کی کثیر تعداد نے شرکت کی، خاص طور پر کوئٹہ سے زیارت کے لیے تشریف لائے ہوئے شہداء کے عزیز بھی شریک ہوئے۔
خبر کا کوڈ : 242176
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Bohat khoab!
ہماری پیشکش