0
Tuesday 15 Oct 2013 16:08
دہشتگردی کو بھی امریکہ ایک پالیسی کے طور پر استعمال کررہا ہے

شام میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروپ کا کردار مثبت ہے، جان مکین

شام میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروپ کا کردار مثبت ہے، جان مکین
اسلام ٹائمز۔ امریکی سینیٹر جان مکین نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ شام میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروپ کا کردار مثبت ہے کیونکہ وہ شامی اپوزیشن فورسز کو معاونت فراہم کر رہا ہے۔ غالباً اسی قسم کی صورت حال کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ:
        جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!
 یعنی ایک طرف امریکہ افغانستان میں القاعدہ کے خلاف فوج کشی کے لیے ہزاروں میل سے چل کر ہمارے خطے میں آیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد مارے گئے، جب کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون طیاروں کے ذریعے میزائلوں کے حملے جاری ہیں، جن میں اگر القاعدہ کا کوئی ایک رکن ہلاک ہوتا ہے تو دس بیس غیر متعلقہ بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں اور اگر ہماری طرف سے دبی دبی زبان میں کوئی احتجاج ہوتا ہے تو ہمیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے کہ القاعدہ سے امریکہ کی داخلی سلامتی کو خطرہ ہے، اس لیے ڈرون حملے بند نہیں ہوسکتے، لیکن آج امریکا کا ایک انتہائی بااثر سینیٹر جان مکین شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف خانہ جنگی کرنے والے القاعدہ کے جنگجووں کی حمایت کا اعلان کر رہا ہے اور اسے اپنی اس دوغلی پالیسی پر کوئی خجالت نہیں ہے۔ اس صورت حال سے ان شبہات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ امریکہ القاعدہ کے نیٹ ورک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ 

افغانستان پر جارحیت کے ساتھ ہی عراق پر بھی چڑھائی کر دی، اس کے بعد اگلا نشانہ لیبیا کو بنایا گیا۔ اب شام میں تباہی پھیلائی جا رہی ہے۔ ان سارے معاملات میں القاعدہ کو بڑے پراسرار انداز میں استعمال کیا گیا ہے۔ سینیٹر مکین کے بیان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی کو بھی امریکہ ایک پالیسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اب یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکہ پہلے اپنے مقاصد کے لیے جنگجو گروہوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیتا ہے، جس طرح اس نے افغانستان میں اسامہ بن لادن کی قیادت میں عرب مجاہدین کو داخل کر کے اپنا الو سیدھا کیا اور جب سوویت یونین کو توڑنے میں کامیاب ہوگیا تو اسامہ اور اس کے ساتھی مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف جنگ شروع کر دی، جو کہ اب تک جاری ہے۔ یہ وہ دہرا کردار ہے جس کے باعث پوری دنیا انتشار کا شکار ہے، یہاں تک کہ امریکہ خود بھی مالی بحران کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ کے اقتدار پر قابض گروہ دنیا میں پرامن مگر غریب ممالک میں انتشار اور انارکی پھیلانے کے لیے انتہا پسندی کو فروغ دے رہا اور بعد میں یہی انتشار اور انارکی جنگ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 311312
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش