0
Wednesday 15 Oct 2014 17:00
نظریہ ضرورت دفن ہوچکا، اب زندہ نہیں ہونے دینگے

نااہلی کیس، سپریم کورٹ نے وزیراعظم کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کی گئی تقریر کا متن طلب کرلیا

نااہلی کیس، سپریم کورٹ نے وزیراعظم کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کی گئی تقریر کا متن طلب کرلیا
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم نااہلی کیس میں نواز شریف کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کی جانے والی تقریر کا متن طلب کر لیا ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ کہتے ہیں کہ اسمبلی فلور پر غلط بیانی کسی کا استحقاق نہیں، عدالت سیاسی معاملات پر ذمہ داریوں سے چشم پوشی نہیں کرے گی، نظریہ ضرورت دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتا۔ وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق درخواست کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، درخواست گزار گوہر نواز سندھو نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں غلط بیانی کی، آئی ایس پی آر کا اعلامیہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے بیان کی نفی کرتا ہے، جسٹس دوست محمد کھوسہ نے استفسار کیا کہ فوج کے ترجمان کی جانب سے محض ایک ٹوئٹ کیا گیا، کیا یہ ٹوئٹ ترجمان کی جانب سے تھا یا آرمی چیف کی جانب سے، قانون شہادت کے تحت یہ جائزہ لینا ہوگا کہ ٹوئٹر بیان کی قانونی حیثیت کیا ہے، گوہر نواز نے بتایا کہ تمام فریقین سے جواب طلب کرنے کے بعد ہی حقائق سامنے آئینگے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کسی خبر یا بیان کی قانونی حیثیت ثابت کرنا ہوگی، پہلے یہ تو ثابت ہوجائے کہ سچ اور جھوٹ کیا ہے پھر کیس کا فیصلہ دینگے۔ گوہر نواز نے بتایا کہ یہ سیاسی معاملہ نہیں قانونی ہے، عدالت اس معاملے پر فیصلہ دے سکتی ہے، جسٹس خواجہ نے کہا کہ عوامی نمائندے کو پارلیمینٹ کے اندر اور باہر صادق اور امین ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ فوج کی توہین پر تو سبھی آجاتے ہیں لیکن عدلیہ کے لئے کوئی نہیں آتا، جس کی روز توہین کی جاتی ہے، عدالت میں اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے مسترد کردہ وزیراعظم نااہلی ریفرنس پیش کیا گیا، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے اسحاق خاکوانی اور چوہدری شجاعت کی درخواستیں کیس سے الگ کر دیں، جن کی سماعت منگل کو ہوگی۔

دیگر ذرائع کے مطابق وزیراعظم نااہلی کیس کی سماعت کے دوران عدالت عظمٰی نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ نظریہ ضرورت دفن ہوچکا ہے، اب زندہ نہیں ہونے دیں گے، قوم کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جھوٹ بولے جاتے ہیں، قوم کے فیصلے بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہونے چاہئیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے وزیراعظم کی نااہلی کیلئے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ جسٹس دوست محمد نے درخواست گزار گوہر نواز سندھو سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا آپ کے مطابق ترجمان آئی ایس پی آر نے ٹویٹر کے ذریعے بیان کی تردید کی۔ کیا ٹویٹ کو قابل قبول شہادت کے طور پر مانا جاسکتا ہے؟ کیا ترجمان پاک فوج نے میڈیا پر آکر ایسی بات کی؟ کیا ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاک فوج کی ترجمانی کی یا آرمی چیف کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا آپ نے ''آربیٹریٹر'' کا لفظ کیوں استعمال کیا، انگریزی کے لفظ استعمال کرنے سے ابہام پیدا ہوتے ہیں۔ پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بکر نے زید سے کیا کہا۔ جسٹس دوست محمد نے کہا آپ کے بقول وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے، ایسے میں کیا ان کا بیان حلفی سچا ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف پر الزام کا دارومدار گواہ اور ثبوث پر ہے، عدالت میں قانون کے مطابق الزام ثابت کرنا ہوتا ہے۔
 
اسحاق خاکوانی کے وکیل عرفان قادر نے عدالت میں اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ پیش کی۔ وکیل عرفان قادر نے کہا اسپیکر کے مطابق آرٹیکل 62 کا معاملہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں، صادق اور امین کی بات آرٹیکل 62 میں کی گئی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 (1) جی کے تحت سپیکر کے پاس اختیار سماعت تب ہوگا جب عدالت میں جرم ثابت ہو۔ اس پر جسٹس دوست محمد نے کہا کے پی کے میں 6 ماہ کے دوران بلدیاتی انتخابات کا کہا جاتا رہا، پینے کا پانی اور مفت بجلی دینے کا بھی وعدہ کیا گیا، ایسے تو خیبر پختونخوا کے رہنما بھی صادق اور امین نہیں رہے، آپ ایک پرندے کو جال میں پھنسانے آئے ہیں، اس میں تو 100 پھنسیں گے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے آپ اتنی مستعدی سے فوج کی تضحیک کا معاملہ لے آئے، عدلیہ کی تضحیک پر کوئی بات نہیں کرتا۔
خبر کا کوڈ : 414767
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش