0
Friday 14 Aug 2015 22:39

وزیراعظم نے مشاہد اللہ سے انٹرویو پر وضاحت طلب کرلی

وزیراعظم نے مشاہد اللہ سے انٹرویو پر وضاحت طلب کرلی
اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم نواز شریف نے کابینہ کے رکن مشاہد اللہ خان کے اس انٹرویو پر ان سے وضاحت طلب کرلی ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ گزشتہ سال پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے ایک سازش تیار کی تھی جس کے ذریعے وہ فوجی اور سول قیادت کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ دھرنے کو ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مشاہد اللہ خان نے دعویٰ کیا کہ مبینہ سازش کا انکشاف اس وقت ہوا جب پاکستان کے سویلین انٹیلی جنس ادارے انٹیلی جنس بیورو نے لیفٹینٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی کی ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کی۔ تاہم اس انٹرویو پر وزیراعظم نے نون لیگی رہنما سے وضاحت کرلی ہے جبکہ وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جس ٹیپ کا ذکر کیا گیا اس کا کوئی وجود نہیں۔ ترجمان کے مطابق وزیراعظم کو ایسی کسی ٹیپ کا علم نہیں، نہ ہی کوئی ٹیپ کسی کو سنائی گئی۔

مشاہد اللہ کے مطابق اس ٹیپ میں جنرل (ر) ظہیر الاسلام مختلف لوگوں کو ہدایات دے رہے تھے کہ دھرنے کے دوران کس طرح افراتفری پھیلانی ہے اور وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کرنا ہے۔ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ 28 اگست کی شام وزیر اعظم نواز شریف نے بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے دوران یہ آڈیو ٹیپ انھیں سنائی۔ مشاہد اللہ نے انٹرویو میں بتایا کہ اس ٹیپ کو سن کر جنرل راحیل حیران رہ گئے، انہوں نے اسی وقت جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو اسی میٹنگ میں وزیر اعظم کے سامنے طلب کر کے وہی ٹیپ دوبارہ چلوائی۔ وفاقی وزیر کے مطابق جنرل ظہیر الاسلام سے پوچھا گیا کہ کیا یہ آواز ان ہی کی ہے جس کی تصدیق کے بعد جنرل راحیل نے جنرل عباسی کو میٹنگ سے چلے جانے کو کہا۔ نون لیگی رہنما نے انکشاف کیا کہ اس وقت جو سازش تیار کی جا رہی تھی اس کا نشانہ صرف سول حکومت یا وزیراعظم نہیں بلکہ یہ سازش بری فوج کے سربراہ کے خلاف بھی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ 31 اگست کے روز انٹیلی جنس بیورو اور بعض دیگر ذرائع سے حکومت کو خبر ملی کہ اسلحے سے بھری دو گاڑیاں وزیراعظم ہاؤس کی طرف آ رہی ہیں۔ ان کے مطابق س وقت تک پی ٹی وی پر قبضہ ہو چکا تھا اور لوگ سیکریٹریٹ اور وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھ رہے تھے، اسی وجہ سے حکومت نے فیصلہ کیا کہ وزیراعظم کو وزیراعظم ہاؤس سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس سازش میں جنرل راحیل شریف یا فوج بطور ادارہ کوئی کردار نہیں تھا، تاہم بعض بہت موثر اور سینیئر جرنیل اس سازش میں ملوث تھے، جن میں لیفٹینٹ جنرل ظہیرالاسلام بھی شامل تھے۔

مشاہداللہ کا مزید کہنا تھا کہ زیراعظم کی ساری توجہ ملکی استحکام اور اسے آگے لے جانے پر مرکوز ہے جبکہ پاکستان میں جمہوریت ابھی تنی طاقتور نہیں کہ جنرل ریٹائرڈ ظہیر اسلام عباسی کے خلاف کارروائی کرسکے۔
خبر کا کوڈ : 479886
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش