0
Sunday 30 Jan 2011 14:51

امریکا،ایران سمیت پوری دنیا میں حسنی مبارک مخالف مظاہرے،مصر میں نائب صدر اور نئے وزیراعظم کے اعلان کے باوجود مظاہرے جاری

امریکا،ایران سمیت پوری دنیا میں حسنی مبارک مخالف مظاہرے،مصر میں نائب صدر اور نئے وزیراعظم کے اعلان کے باوجود مظاہرے جاری
واشنگٹن:اسلام ٹائمز-ایران سے امریکہ تک دنیا میں مصری عوام کے حق میں مظاہرے کئے گئے۔ مظاہرین نے صدر حسنی مبارک سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔ مصر میں پانچ روز سے جاری احتجاج نے ایک عالمگیر شکل اختیار کر لی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں مصر کے سفارت خانے کے باہر مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ کے صدر حسنی مبارک اب اقتدار چھوڑ دیں۔ ادھر ایران کے دارالحکومت تہران میں بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور مصری صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جائیں۔ مظاہرین کی اکثریت نوجوان طالب علموں پر مشتمل تھی، جو صدر حسنی مبارک کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ جبکہ شام کے دارالحکومت دمشق میں بھی مصری صدر حسنی مبارک کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ مصر میں کرفیو ختم کیا جائے اور عوامی امنگوں کے مطابق حکومت قائم کی جائے۔
ادھر مصر میں نئے وزیراعظم اور نائب صدر کے اعلان کے باوجود کرفیو کے دوران پرتشدد مظاہرے جاری ہیں۔ اپوزیشن جماعت اخوان المسلمون نے اقتدار کی پرامن منتقلی کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ عالمی برادری نے مصری حکومت سے طاقت کے استعمال سے گریز کی اپیل کی ہے۔ ابتک ہلاک ہونے والوں کی تعداد سو سے زیادہ ہو گئی ہے۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ، اسکندریہ، سوئیز اور دیگر شہروں میں چھٹے روز بھی مظاہرین سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ قاہرہ کے تحریر اسکوائر پر پچاس ہزار افراد سے مظاہرین جمع ہو گئے۔ وزارت داخلہ کی عمارت میں گھسنے کی کوشش میں تین مظاہرین ہلاک ہو گئے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ کابینہ کا مستعفی ہو جانا مسائل کا حل نہیں، صدر حسنی مبارک کو بھی اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔ مصر کے تمام بڑے شہروں کی سڑکوں پر فوجی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں گشت کر رہی ہیں۔
گذشتہ روز ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں میں سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ جن میں دس سیکورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔ جبکہ وزارت صحت نے اڑتیس ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ صرف قاہرہ کے اسپتالوں میں ایک ہزار سے زائد زخمی لائے گئے۔ اسکندریہ، سوئیز، سینائی، شیخ زوئید اور دیگر شہروں میں سیکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ ادھر مختلف شہروں میں لوٹ مار کی وارداتوں میں بھی اضافہ رپورٹ کیا جا رہا ہے، قائرہ کے عجائب گھر سے بھی کئی نایاب مجسمے لوٹ لئے گئے، اس کے علاوہ جیلوں میں قیدیوں نے بھی بغاوت شروع کر دی ہے اور متعدد جیلیں نذر آتش کر دی گئی ہیں۔
دوسری جانب حکمران جماعت کے مرکزی اور علاقائی دفاتر پر حملوں کے بعد سیکریٹری جنرل احمد عیز نے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ کابینہ نے باضابطہ طور پر استعفے صدر حسنی مبارک کو پیش کر دئیے ہیں۔ ادھر اپوزیشن لیڈر محمد البرادعی تاحال نظربند ہیں۔ امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے صدر حسنی مبارک کو ٹیلیفون کے بعد موبائل فون سروس بحال کر دی گئی، تاہم انٹرنیٹ سروس مکمل بحال نہیں کی گئی۔ مذہبی رہنما القراد اوعی نے مظاہرین سے سرکاری اداروں پر حملے نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ قاہرہ اور اسکندریہ میں سڑکوں اور گلیوں میں جا بجا تباہ شدہ گاڑیاں پڑی ہیں۔
مصر میں خانہ جنگی کی صورتحال کے باعث سیکڑوں سیاح اپنے وطن واپسی کیلئے قاہرہ ایئرپورٹ پر جمع ہیں۔ جبکہ اسرائیل نے اپنے دو سو سیاحوں کو چارٹرڈ فلائٹ سے واپس لانے کا اعلان کیا ہے۔ مصر کی صورتحال پر عالمی برادری میں کی تشویش میں اضافہ ہو گیا۔ ڈیووس ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے موقع پر جاپانی وزیراعظم نے مطالبہ کیا کہ صدر حسنی مبارک مظاہرین سے مذاکرات کریں۔ امریکہ کے بعد برطانیہ نے بھی اہنے شہریوں کو مصر میں غیر ضروری سفر سے گریز کی ہدایت کی ہے۔ 
اے آر وائی نیوز کے مطابق مصر میں کابینہ کی برطرفی کے بعد صدر حسنی مبارک نے نائب صدر اور نئے وزیراعظم کا اعلان کر دیا ہے۔ صدر حسنی مبارک نے سابق انٹیلی جنس چیف عمر سلیمان کو نائب اور سابق ایئر چیف احمد شفیق کو نیا وزیراعظم مقرر کیا ہے۔ حسنی مبارک نے نئے وزیراعظم کو حکومت سازی کی دعوت بھی دی ہے۔ حلف برداری کی تقریب صدارتی ہیڈکوارٹرز میں ہوئی۔ تاہم مصری عوام کی جانب سے تاحال مظاہرے جاری ہیں اور تحریر اسکوائر پر پچاس ہزار سے زائد افراد جمع ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ صدر حسنی مبارک اقتدار سے الگ ہوجائیں۔ نئی حکومت نے آتے ہی کشیدگی والے علاقوں میں تازہ دم فوجی دستے تعینات کر دیئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 52582
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش