0
Monday 7 Mar 2016 11:50

سپریم کورٹ نے سندھ پولیس کی رپورٹ کو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیدیا

سپریم کورٹ نے سندھ پولیس کی رپورٹ کو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیدیا
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران امن و امان کے حوالے سے آئی جی سندھ کی پیش کردہ رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ کراچی رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کر رہا ہے، سماعت کے دوران آئی جی سندھ نے پولیس کی کارکردگی رپورٹ پیش کی، رپورٹ میں کہا گیا کہ شہر میں ہونے والے جرائم میں نمایاں کمی آئی ہے، 24 جولائی 2014ء سے اب تک بھتہ خوری میں 60 فیصد، بینک ڈکیتیوں میں 58 فیصد، اسٹریٹ کرائم میں 20 فیصد، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں 100 فیصد، جبکہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 69 فیصد کمی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے پولیس کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ آپ کے سارے اعداد و شمار کا تعلق 2015ء سے ہے، جب رینجرز نے آپریشن شروع کیا، وہ جس کارکردگی کا ذکر کر رہے ہیں، اس میں رینجرز، پولیس اور دیگر ایجنسیوں کا مشترکہ کردار ہے، پولیس کا کام صرف اعداد و شمار جمع کرنا نہیں، بلکہ تفتیش کرنا ہے، وہ یہ بتائیں کہ 2015ء میں ٹارگٹ کلنگ کی جتنی وارداتیں ہوئی ہیں، ان میں سے کتنے واقعات کے ملزمان پکڑے گئے، عدالت میں کتنے چالان پیش کئے گئے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ کوئی ایسا ملزم جسے پکڑا گیا، اور اس کے خلاف چالان بھی عدالت میں پیش کیا گیا ہو، اس کی تفصیل دیں، جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ پولیس بہت کام کر رہی ہے، ہم نے 451 اشتہاری ملزمان کو پکڑا ہے، صفورا گوٹھ، عباس ٹاؤن اور ایئر پورٹ حملہ کیس میں ملزمان پکڑے، غلام حیدر جمالی کے جواب پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ اگر 4 ہزار اشتہاری ملزمان شہر میں آزاد دندنا رہے ہوں، تو امن و امان کی صورت حال کا کیا بنے گا، 2 ہزار دہشتگرد آزاد گھوم رہے ہیں، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ امن ہوگیا، وہ جس کیسز کی بات کر رہے ہیں، وہ 2015ء کے کیس نہیں ہیں، اور وہ بھی ہماری مداخلت پر آپ نے پکڑے ہیں، 47 افراد کی لسٹ ہے اور آپ کہتے ہیں کہ اغوا برائے تاوان کے واقعات ختم ہوگئے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں کمی آئی ہے، لیکن شارٹ ٹرم کڈنیپنگ بڑھ گئی ہے، پولیس کے بھی شارٹ ٹرم کڈنیپنگ میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے، آپ کو معلوم ہے کہ شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کیا ہے، اس سلسلے میں عامر فاروقی تحقیقات کی ہے، اس بارے میں آپ کیا جانتے ہیں، آئی جی سندھ کی جانب سے تحقیقات کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرنے پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ کو اتنا بھی نہیں معلوم، تو پھر آپ کو وردی میں رہنے کا بھی حق نہیں ہے، جن کیسز کی تفتیش ہوئی، ان کے ملزمان کے نام اور پتے موجود ہیں، مگر آپ ان پر ہاتھ نہیں ڈالتے، بتائیں مفرور ملزمان کو کیوں نہیں پکڑے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پے رول پر رہا کئے گئے لوگوں کی گرفتاری کیلئے کیا کیا گیا، جس پر پراسیکیوٹر جنرل شہادت اعوان نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 70 افراد کو پے رول پر رہا کیا گیا تھا، جن میں سے 54 کے مقدمات نپٹا دیئے گئے، 16 مقدمات زیر التواء ہیں، 18 ملزمان کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 526013
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش