0
Monday 23 May 2016 14:30
انتہا پسندی اور دہشتگردی خطے میں عدم استحکام کا سبب بنی ہوئی ہے

ملا اختر منصور ایرانی سرحد سے پاکستان میں داخل نہیں ہوا، حسین جابری انصاری

شام کے بحران کو صرف سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جاسکتا ہے
ملا اختر منصور ایرانی سرحد سے پاکستان میں داخل نہیں ہوا، حسین جابری انصاری
اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوری ایران نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خطے کے ملکوں کے درمیان تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین جابری انصاری نے پیر کے روز اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی خطے میں عدم استحکام کا سبب بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر ایران کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ خطے کی سکیورٹی خطے کے ممالک کی ذمہ داری ہے، ان کے درمیان اتفاق رائے اور اجتماعی پالیسیوں کے بغیر خطے میں امن و استحکام کا امکان فراہم نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے شام کے بارے میں سعودی وزیر خارجہ کے بیان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ شام کے بحران میں شدت، سعودی عرب جیسے ملکوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور اس کا نقصان دنیا کی تمام قوموں کو پہنچ رہا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ شام کے بحران کو صرف سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔

حسین جابری انصاری نے بعض پاکستانی حکام کے ان دعووں کو سختی کے ساتھ مسترد کر دیا کہ طالبان کے سرغنہ ملا اختر منصور سے منسوب پاسپورٹ پر ایران کا ویزہ لگا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ ایرانی حکام نے اس کی سختی کے ساتھ تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کوئی بھی شخص مذکورہ تاریخ کو ایران سے پاکستان میں داخل نہیں ہوا۔ طالبان سرغنہ ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ تہران، افغانستان میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے۔ انہوں نے رومانیہ میں امریکی میزائل سسٹم کی تنصیب کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایران کے لئے خطرات کا باعث بننے والا کوئی بھی اقدام ناقابل قبول ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا کہ ایران کی دفاعی سرگرمیاں کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف نہیں بلکہ ملکی دفاع کے لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دو صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ایران نے آج تک کسی ملک کے خلاف جارجیت نہیں کی بلکہ اس کے برخلاف ایران کو مختلف حملوں اور جنگوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جابری انصاری نے یہ بات زور دیکر کہی کہ ایران کی فوجی حکمت عملی دفاعی ہے اور ہم اپنی قومی سلامتی کے خلاف کسی بھی اقدام کو قبول نہیں کریں گے۔

دیگر ذرائع کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین جابری انصاری نے ان رپورٹس کی تردید کی ہے کہ ڈرون حملے سے قبل افغان طالبان کے سربراہ ایران میں تھے۔ ترجمان کا کہنا تھا متعلقہ حکام نے اس بات کی تردید کر دی ہے کہ یہ شخص اس تاریخ کو ایران کی سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران افغانستان میں امن اور استحکام قائم کرنے کے حوالے سے ہر طرح کے مثبت اقدامات کا خیر مقدم کرتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستانی عہدیداران نے ہفتے کو خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ بلوچستان میں ہلاک ہونے والا شخص ملا اختر منصور ہوسکتا ہے، جن کی گاڑی کو ایران سے واپسی پر ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
خبر کا کوڈ : 540554
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش