0
Wednesday 24 Aug 2016 19:03

خطے میں ایران اور حزب اللہ لبنان کا اثرورسوخ بڑھتا جا رہا ہے، سابق موساد چیف

خطے میں ایران اور حزب اللہ لبنان کا اثرورسوخ بڑھتا جا رہا ہے، سابق موساد چیف
اسلام ٹائمز۔ فارس نیوز ایجنسی کے مطابق اسرائیل انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ سیما شین نے اسرائیلی اخبار "ہارٹز" میں شائع ہونے والے اپنے مقالے میں خطے میں سیاسی کھلاڑی کے طور پر ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر شدید پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ اس نے "ایران روس اتحاد کے اثرات" کے عنوان سے اپنے اس مقالے میں لکھا: "اسرائیل کیلئے خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے مستقبل کی امریکی حکومت سے گفتگو اور مذاکرات کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانا انتہائی ضروری ہے۔" وہ مزید لکھتا ہے: "گذشتہ سال کے دوران ہم نے ایک غیر معمولی دوستانہ تعلق کا مشاہدہ کیا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی ایک لمبی تاریخ موجود ہے، لیکن جوہری معاہدے پر دستخط کے بعد ایران اور عالمی طاقتوں میں یہ تعلقات نئے سرے سے معرض وجود میں آئے اور فروغ پانے لگے۔" سیما شین نے مزید لکھا: "ماسکو اور تہران کے درمیان جدید جوہری ری ایکٹر کی تعمیر سے لے کر بوشہر ایٹمی پلانٹ کی تکمیل، نگہداری اور زمین سے ہوا میں مار کرنے والے S-300 میزائل ڈیفنس سسٹم کی فراہمی پر مبنی سلسلہ وار معاہدات طے پائے ہیں۔ ماسکو نے کئی سال تک کچھ حد تک امریکہ اور اسرائیل کے دباو کے تحت ایس 300 میزائل ڈیفنس سسٹم ایران کو دینے میں ٹال مٹول سے کام لیا۔ لیکن اب دونوں ممالک کے درمیان جنگی طیاروں کی فراہمی سے متعلق مذاکرات انجام پا رہے ہیں۔"

موساد ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ نے اپنے مقالے میں مزید لکھا: "حالیہ دنوں میں دونوں ممالک شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کو محفوظ بنانے کیلئے ایکدوسرے سے فوجی اور انٹیلی جنس تعاون کرتے آئے ہیں۔ اس تعاون کا نتیجہ روسی جنگی طیاروں کی جانب سے شام میں ہوائی حملے انجام دینے کیلئے ہمدان کا نوژہ فوجی ہوائی اڈہ استعمال کرنے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ پہلی بار تھی کہ روس نے اپنے ملک سے باہر کسی فوجی اڈے کو شام میں حملوں کیلئے استعمال کیا اور اسی طرح ایران کی جانب سے بھی کسی دوسرے ملک کو اپنے فوجی ہوائی اڈے کے استعمال کی اجازت پہلی بار دی گئی تھی۔ اگرچہ اس بارے میں انجام پانے والا معاہدہ عارضی تھا اور ایران کے اندر سے ہونے والی تنقید کے نتیجے میں روک دیا گیا، لیکن ایک اعلامیے کے مطابق اس بات کا اعلان کیا گیا کہ ضرورت پڑنے پر یہ تعاون دوبارہ انجام پا سکتا ہے۔"
موساد ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ سیما شین نے خبردار کرتے ہوئے لکھا: "یہ تبدیلیاں مشرق وسطٰی خطے میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر ایران کی پوزیشن مضبوط ہونے کا باعث بنیں گی اور شام اور عراق سے متعلق مستقبل میں انجام پانے والے کسی بھی معاہدے میں ایران کو بنیادی کردار فراہم کر دیں گی۔ ان تبدیلیوں کے دو بڑے نتیجے ایران اور حزب اللہ لبنان کا مزید طاقتور ہو جانے اور سعودی عرب کی سربراہی میں سنی ممالک کے اتحاد کے مزید کمزور ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوں گے اور یہ دونوں نتیجے اسرائیل کے فائدے میں نہیں۔"

سیما شین مزید لکھتا ہے: "گذشتہ چند سالوں میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیل اور روس کے تعلقات بہت بہتر ہو رہے ہیں، لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اسرائیل کی قومی سلامتی سے مربوط اہم اور بنیادی ایشوز کے بارے میں دونوں ممالک کے درمیان متضاد مفادات موجود ہوسکتے ہیں۔؟ آپ اچھی طرح مشاہدہ کر رہے ہیں کہ روس کے مفادات مستقبل میں اسرائیل کے دشمنوں کے اثر و رسوخ میں اضافے پر مبنی ہیں، یعنی شام، عراق اور لبنان میں ایران اور حزب اللہ لبنان۔" سیما شین مزید لکھتا ہے: "یہ تبدیلیاں جو روس اور خطے میں اس کے اتحادیوں کیلئے انتہائی مطلوب ہیں، انجام پا رہی ہیں۔ امریکہ خطے میں مداخلت اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ وہ جہاں تک داعش کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوسکے، بشارالاسد کو اقتدار پر باقی رکھنے اور خطے میں روس کی مداخلت میں اضافے پر راضی ہوچکا ہے۔" موساد کا سابق چیف اپنے مقالے میں مزید لکھتا ہے: "ترکی بھی جو کہ شام کی ممکنہ تقسیم کے نتیجے میں کردوں کے طاقت پکڑ جانے سے پریشان ہے، بشار الاسد کی صدارت کو قبول کرنے اور ایران اور روس کو مضبوط بنانے کی طرف مائل ہوچکا ہے۔ سعودی عرب شیعہ بلاک کی طاقت میں اضافے پر پریشان ہے، لیکن وہ شام کے حکومت مخالف گروہوں کی فوجی اور مالی مدد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا ہے اور شام کی سیاسی صورتحال میں بڑی تبدیلی لانے سے قاصر ہے۔"

اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد کے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کا سابق سربراہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے: "اسرائیل خطے میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ روس سے مذاکرات اور گفتگو جاری رکھنا اہم ہے اور اگرچہ ہمارے درمیان مفادات کا ٹکراو موجود ہے، لیکن یہ مذاکرات جاری رہنے چاہئیں۔ اگر شیعہ بلاک کے مقابلے میں سنی بلاک کمزور ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں سنی عرب ممالک سے تعاون میں اسرائیل کی دلچسپی شاید کم ہو جائے۔ دوسری طرف ترکی کی جانب سے واضح طور پر اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرنے کے باعث تل ابیب کیلئے انقرہ سے تعلقات میں فروغ بھی مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔" سیما شین اپنے مقالے کے آخر میں یہ مشورہ دیتا ہے: "اسرائیل کیلئے ضروری ہے کہ وہ خطے سے متعلق اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے آئندہ امریکی حکومت سے اپنے مذاکرات کو زیادہ سے زیادہ موثر بنائے۔"
خبر کا کوڈ : 562934
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش