0
Tuesday 17 Apr 2018 10:34

بعض طالبان جو ایک فوجی افسر کیساتھ نظر آتے ہیں، مجھے اور میرے ساتھیوں کو دھمکاتے ہیں، منظور پشتین

بعض طالبان جو ایک فوجی افسر کیساتھ نظر آتے ہیں، مجھے اور میرے ساتھیوں کو دھمکاتے ہیں، منظور پشتین
اسلام ٹائمز۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج کے سربراہ کی جانب سے بالواسطہ طور پر ان کی تحریک پر تنقید کے بعد کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعض طالبان جو ایک فوجی افسر کے ساتھ نظر آتے ہیں، انہیں اور ان کے ساتھیوں کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے منظور پشتین نے کہا کہ ان کی تحریک صرف پاکستانی پشتونوں کے حقوق کیلئے ہے نہ کہ افغانستان کے پشتونوں کیلئے۔ ان کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی رہائی نہیں، ان کی عدالت میں پیشی، فاٹا اور قبائلی علاقوں سے فوجی چوکیوں کا خاتمہ نہیں بلکہ ان چوکیوں پر موجود اہلکاروں کے رویئے میں بہتری اور ماورائے عدالت قتل کے مقدمات میں ایک عدالتی کمشن کی تشکیل ان کے بنیادی مطالبات ہیں، جو پاکستان کے آئین اور قانون کے دائرے کے اندر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی تحریک کو سیاسی تحریک میں نہیں بدلنا چاہیں گے کہ پہلے ہی بقول اُن کے "وہ را اور این ڈی ایس جیسے بھارتی اور افغان خفیہ اداروں کے ایجنٹ جیسے گندے گندے الزامات کر سامنا کر رہے ہیں" پی ٹی ایم کے سربراہ نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھیوں سمیت کل 22 دوستوں نے تحریک شروع کی تھی۔ انہیں امید نہیں تھی کہ یہ اتنی بڑی تحریک بن جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ان کی تحریک سے متلعق بالواسطہ بیان سے کروڑوں پشتونوں کی دل آزاری ہوئی ہے اور ان کے بقول اس بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فوج کے سربراہ نے پشتونوں کو اپنا نہیں سمجھا۔ منظور پشتین نے کہا کہ پاکستان زندہ باد نامی تحریک جو دراصل ان کی تحریک کی مخالفت میں شروع ہوئی، اس کے سٹیج پر کون ہوتا ہے، ہم بتا نہیں سکتے، ہم یہ باتیں نہیں کرسکتے کہ ان کے سٹیج پر کون کون ہوتا ہے، کیونکہ اس گروپ کے بہت سارے لوگ ڈی آئی خان کینٹ میں رہتے ہیں اور وہاں ہمارے بہت سے سٹوڈنٹس ہیں جن کیلئے پھر خطرہ بن جاتا ہے۔ یہ وہی ہیں جو فوجیوں کے گلے کاٹ رہے تھے، اب ہمیں بھی تنگ کر رہے ہیں، لیکن ہم کوئی بھی قیمت دینے کیلئے تیار ہیں۔ منظور پشتین نے کہا کہ ان کی تحریک پر فوج کے سربراہ کے بیان کے بعد فرق نہیں پڑا، لوگ اپنی مرضی سے اس میں شامل ہو رہے ہیں اور مارچ یا جلسے کے دوران رکھے فنڈز والے گلّے میں پیسے بھی ڈال جاتے ہیں۔

سابق فوجی افسر بریگیڈیر ریٹائرڈ عمران ملک نے منظور پشتین کی تحریک سے متعلق پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان کی حمایت کی اور کہا کہ انہوں نے بروقت قوم کو سازش سے آگاہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا منظور پشتین کی تحریک میں جان اس وقت پڑی ہے جب ان کے بقول افغان صدر اشرف غنی نے ان کی حمایت کی۔ بریگیڈیر عمران نے پاکستان کے کسی فوجی افسر کے طالبان کے ذریعے ان کو دھمکانے کی بات پر ردِ عمل میں کہا کہ منطور پشتین سے یہ سوال کیا جانا چاہیئے کہ اس سے پاکستان یا پاکستان کی افواج کو کیا فائدہ ہوگا؟ پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 روز قبل ایک تقریب سے خطاب میں اپنی فوج کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ بڑی قربانیاں دینے کے بعد اب وہ فاٹا اور ملک بھر میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اب فاٹا میں کچھ لوگوں نے نئی تحریک شروع کردی ہے۔ پاکستان کے اندر اور باہر کچھ لوگ جو امن کے درپے ہیں، ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ جب تک قوم پاکستان کی فوج کے پیچھے کھڑی ہے، پاکستان کو کچھ نہیں ہوسکتا۔ بہت سے تجزیہ کاروں کے نزدیک فوج کے سربراہ کا اپنے اس بیان میں اشارہ پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب تھا۔ تاہم سوشل میڈیا پر بعض نامور تجزیہ کاروں نے اپنے ٹویٹس میں کہا کہ منظور پشتین پر الزامات کی بجائے ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 718482
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش