0
Sunday 25 Aug 2019 10:31
قاری اسحٰق غازی کی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل مسترد

پولیس ریاست کے ماتحت ادارہ ہے، انکی گواہی بھی قابل اعتبار ہے، سپریم کورٹ

پولیس ریاست کے ماتحت ادارہ ہے، انکی گواہی بھی قابل اعتبار ہے، سپریم کورٹ
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے نفرت انگیز مواد رکھنے کے کیس کا فیصلہ سنا دیا، عدالت عظمٰی نے قرار دیا ہے کہ نفرت انگیز مواد پھیلانا ہی نہیں رکھنا بھی جرم ہے، مجرم کو سزا دلانے کیلئے قانون کے معیار پر پورا اترتی پولیس اہلکار کی گواہی بھی کافی ہے۔ سپریم کورٹ پاکستان نے نفرت انگیز مواد برآمدگی کیس میں بڑا فیصلہ سنا دیا، اوکاڑہ کے قاری اسحاق کی بریت کی درخواست مسترد کردی، 5 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا برقرار رکھنے کا بھی حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی امین کے تحریر کردہ فیصلے میں پولیس کی گواہی قابل انحصار نہ ہونے سے متعلق درخواست گزار کا مؤقف یکسر مسترد کردیا۔ عدالت عظمی نے قرار دیا گیا کہ پولیس اہلکار بھی اتنے ہی اچھے گواہ ہو سکتے ہیں جتنا کہ کوئی بھی اور، قانون شہادت کے معیار پر اگر پورا اترتی ہو تو پھر پولیس کی گواہی غیر معتبر کیوں؟، اسے ہرگز مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کیس میں کوئی اور گواہ نہ ہو تو پولیس کی گواہی بھی جرم ثابت کرنے کیلئے کافی ہوگی۔

یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ انسداد دہشتگردی قانون کی دفعہ 9 کے مطابق صرف نفرت انگیز مواد پھیلانا اور تشہیر ہی جرم نہیں، بلکہ ایسا مواد پاس رکھنا بذات خود ایک بڑا جرم ہے۔ سپریم کورٹ نے قاری محمد اسحٰق غازی کی جانب سے دائر اپیل کی سماعت کے دوران پولیس کی گواہی کو قبول کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عوام میں سے کوئی گواہ دستیاب نہ ہو تو جرم ثابت کرنے کیلئے پولیس کی گواہی ہی کافی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی محمد امین احمد نے قاری محمد اسحٰق غازی کی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پولیس حکام دیگر کی طرح بہتر گواہ ہیں اور ان کے شواہد اس ہی معیار کے ہیں جیسے دیگر کے ہوتے ہیں۔ خیال رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے قاری اسحٰق کے خلاف دیئے گئے فیصلے کو برقرار رکھا تھا، جس میں ملزم پر مخصوص فرقے کے خلاف نفرت انگیز مواد پر مبنی پیمفلٹ تقسیم کرنے کا الزام ثابت ہوا تھا۔

قاری اسحٰق کو پولیس نے اوکاڑہ سے گرفتار کیا تھا، جنہیں بعد ازاں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 9 کے تحت 5 سال قید اور 1 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس امین احمد ریمارکس دیئے کہ پولیس، ریاست کے ماتحت ادارہ ہے اور ان کی گواہی بھی قابل اعتبار ہے۔ انہوں نے مزید ریمارکس دیئے تھے کہ عوام انصاف کی مدد کے لئے سامنے آنے کے بجائے محفوظ رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ جسٹس امین احمد سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کا حصہ تھے، جس کی سربراہی جسٹس منظور احمد ملک کر رہے تھے اور اس بینچ میں جسٹس سید منصور علی بھی شامل تھے۔ جب یہ اپیل سپریم کورٹ پہنچی تو درخواست گزار کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 382 بی کے تحت اپنی سزا مکمل کرکے جاچکے تھے۔ دفعہ 382 بی جیل میں موجود ملزمان کی سزا میں کمی کرنے سے متعلق ہے۔

اپیل کی سماعت کے دوران ان کے وکیل رائے بشیر احمد نے عدالت عظمٰی میں کیس کے حقائق اور قانونی نکات سے متعلق موقف پیش کیا۔ ان کے موقف میں قابل اعتراض پیمفلٹ کو مسترد کیا جانا، عوام میں سے کسی گواہ کا سامنے نہ آنا اور استغاثہ کی نفرت انگیز مواد کی عوام میں تقسیم کو ثابت کرنے میں ناکامی شامل تھی، جو ان کے مطابق انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 9 کو عائد کئے جانے کے لئے ضروری تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس امین احمد نے ریمارکس دیئے کہ پیمفلٹ کا مواد نفرت اور تفرقہ سے بھرا ہے، اسے دوبارہ بر آمد کیا جانا گھناؤنا ہوگا، یہ عوام میں اشتعال پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ کسی بھی فرقے کے خلاف نفرت انگیز مواد کی تقسیم ہی جرم نہیں بلکہ اسے اپنے پاس رکھنا بھی جرم ہے۔
خبر کا کوڈ : 812527
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش