0
Sunday 1 Dec 2019 19:16
اعلیٰ تعلیم غریب خاندانوں کے بچوں کی پہنچ سے باہر نکل چکی ہے

ایک قوم اور ایک پاکستان بنانے کیلئے ایک زبان میں ایک نصاب تیار کرنا ضروری ہے، حسن محی الدین

ایک قوم اور ایک پاکستان بنانے کیلئے ایک زبان میں ایک نصاب تیار کرنا ضروری ہے، حسن محی الدین
اسلام ٹائمز۔ منہاج القرآن کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹرحسن محی الدین قادری نے الحمراء کلچرل کمپلیکس قذافی میں منعقدہ قومی طلبہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1947 ء سے اب تک 22 تعلیمی پالیسیاں بنیں، سب کی سب ناکام ثابت ہوئیں، ایک قوم اور ایک پاکستان بنانے کیلئے ایک زبان میں ایک نصاب تیار کرنا ضروری ہے، جاپان، جرمنی، امریکہ، برطانیہ، چین سمیت کوئی ملک ایسا نہیں جس نے کسی اور کی زبان میں تعلیم حاصل کرکے ترقی کی ہو، پاکستان میں اغیار کی زبان کو تعلیمی زبان کے طور پر مسلط کرنے پر بضد صاحب اختیار پاکستان کو زمانہ غار کی طرف دھکیل رہے ہیں، دنیا کی زندہ زرخیز اور توانا 20 زبانوں میں اردو بھی شامل ہے، اردو زبان کو دفتری زبان بنانے کیلئے عدالتی فیصلوں کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ انہوں نے طلبہ حقوق، ایک زبان، ایک نصاب اور ایک پاکستان کے سلوگن کیساتھ قومی طلبہ کنونشن کے کامیاب انعقاد پر مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے مرکزی صدر عرفان یوسف اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دی۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو کنونشن میں خوش آمدید کہا۔

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ قیام پاکستان کے وقت شرح خواندگی 11 فیصد تھی، ہر سال ایک فیصد اضافہ بھی ہوتا تو آج شرح خواندگی 83فیصد سے تجاوز کر چکی ہوتی،پاکستان جنوبی ایشیاء میں تعلیم پر جی ڈی پی کا سب سے کم خرچ کرنیوالا ملک ہے، پڑھے لکھے پاکستان کے خواب کو بڑے بڑے بیانات سے نہیں عملی اقدامات سے تعبیر ملے گی، اگر ریاست کے ذمہ دار چاہتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے رومی، رازی، غزالی، اقبال اور قائداعظم جیسی ہستیاں پیدا کرنی شروع کر دیں تو پھر ہمیں ایک زبان اور ایک نصاب کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے، جن کے پاس اختیار اور وسائل ہیں انہیں نیند کیسے آ جاتی ہے؟ گزشتہ 10 سالوں میں ریاست کی عدم توجہی کے باعث فی طالب علم تعلیمی اخراجات میں 150 فیصد اضافہ ہو چکا، اعلیٰ تعلیم غریب خاندانوں کے بچوں کی پہنچ سے باہر نکل چکی ہے، جن بچوں نے سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئر، نیوٹریشنسٹ بننا تھا بھاری فیسیں نہ ہونے وجہ اور حالات کے جبر نے انہیں الیکٹریشن اور پلمبر بننے پر مجبور کر دیا۔

انہوں نے کہا نسلوں کیساتھ ہونیوالے اس جرم میں ہر وہ شخص شریک ہے جسے ریاست کے اختیارات اور وسائل کا امین بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کو منافع بخش کاروبار بنانے والے حکمران قیامت کے دن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ انہوں نے کہا کہ افغانستان تعلیم پر جی ڈی پی کا 3.2 اور پاکستان 2.4 فیصد خرچ کرتا ہے، سری لنکا جی ڈی پی کا 3.5 فیصد استعمال کر کے 91 فیصد شرح خواندگی رکھتا ہے، 2008 ء میں پلان بنایا گیا تھا کہ ہر سال ایک ہزار طالب علم سکالر شپ پر پی ایچ ڈی کے لیے بیرون ملک بھیجے جائیں گے مگر یہ تعداد 250 سے نہ بڑھ سکی، بیرون ملک عالیشان محلات تعمیر کرنیوالے حکمرانوں نے عالیشان یونیورسٹیاں اور کالج کیوں نہیں بنائے؟ انہوں نے مزید کہا کہ قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تعلیم سب کے لیے کا ویژن دیا اور پھر اس قوم کے کم آمدنی والے خاندانوں کے بچوں کیلئے ملک بھر میں منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت 600 سے زائد ماڈل سکول قائم کیے جہاں ایک لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں، الحمداللہ بہترین معیار تعلیم کی وجہ سے ہر سال ملک کے مختلف امتحانی بورڈز میں منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے بچے اول، دوم، سوم پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قائد تحریک منہاج القرآن نے عالمی معیار کے کالجز اور یونیورسٹیاں بنائیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں قوم کے بیٹے اور بیٹیاں تعلیم اور تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منہاج القرآن نے کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کے تحت دین اور دنیا کی تعلیم کو یکجا کر دیا، یہاں سے فارغ التحصیل سکالرز بیک وقت اسلامک اکانومسٹ بھی ہوتے ہیں اور فقہ کے سکالر بھی، وہ آئی ٹی ایکسپرٹ بھی ہوتے ہیں اور علوم شریعہ کے عالم بھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نظام تعلیم کو اول تا آخر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے طلبہ کو ان کے حقوق بھی دینے ہوں گے اور وسائل بھی، پاکستان کے طالبعلم دنیا کے بہترین دل اور دماغ رکھنے والے نوجوان ہیں، ہمیں ان کی صلاحیتوں پر اعتماد اور انحصار کرنا ہو گا، یہ پاکستان کا محفوظ اور خوشحال مستقبل ہیں، میں موجودہ حکمرانوں سے کہوں گا کہ وہ ریاست مدینہ کی تشکیل چاہتے ہیں تو پھر قومی وسائل کا رخ تعلیم کی ترقی کی طرف موڑیں، بڑی بڑی عالیشان سڑکیں اور عمارات کچھ سالوں کے بعد ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں، ان کی خوبصورتی گہنا جاتی ہے مگر ایک انسان کے کردار اور تعلیم و تربیت پر کی جانے والی انویسٹمنٹ اور محنت نسل در نسل پھل دیتی ہے، حکمران انسانیت اور تعلیم و تربیت پر انویسٹمنٹ کریں۔
خبر کا کوڈ : 830137
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش