0
Tuesday 8 Dec 2020 23:32

جی بی حکومت کی مدت ڈھائی سال، چھ ماہ کے اندر عبوری صوبہ بنانے پر غور

جی بی حکومت کی مدت ڈھائی سال، چھ ماہ کے اندر عبوری صوبہ بنانے پر غور
  اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان میں وفاق کے ساتھ انتخابات پر غور شروع کر دیا گیا ہے۔ قابل اعتماد ذرائع نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ وفاقی حکومت آئندہ چھ ماہ کے اندر اندر گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائے گی اور سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کے تناظر میں جی بی کو قومی اسمبلی و سینیٹ میں نمائندگی بھی دی جائے گی۔ موجودہ جی بی کی حکومت کی مدت ڈھائی سال ہوگی اور 2023 میں وفاق کے ساتھ جی بی میں بھی عام انتخابات کرائے جائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کے اہم ذمہ داروں کو بھی بتایا گیا ہے کہ ان کی مدت ڈھائی سال ہوگی۔ 2023 کے وسط میں جی بی حکومت وفاق کے ساتھ ہی تحلیل ہوگی اور پاکستان کے عام انتخابات کے ساتھ جی بی میں بھی انتخابات کرائے جائیں گے۔  

ذرائع کا کہنا تھا کہ جی بی کو قومی اسمبلی و سینیٹ میں نمائندگی دینے کی صورت میں انتخابات وفاق کے ساتھ کرانا ضروری ہے۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ وفاق میں حکومت ختم ہونے کے بعد جی بی میں بھی حکومت تحلیل کی جائے گی اور پورے پاکستان کے ساتھ انتخابات کرائے جائیں گے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جی بی کو عبوری صوبہ بنانے کا عمل چھ ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔ اس حوالے سے اسلام آباد کے ایوانوں میں ہوم ورک پر کام کیا جا رہا ہے اور لوازمات کو مکمل کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب عبوری صوبے کا سیٹ اپ اور فارمولا کیا ہوگا اس حوالے سے ابھی تک کوئی چیز فائنل نہیں اور نہ ہی جی بی کے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی ہے۔ ساری چیزوں کو اسلام آباد میں ہی فائنل کیا جا رہا ہے۔

عسکری قیادت کی دلچسپی
واضح رہے کہ رواں سال ستمبر کے وسط میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پارلیمانی رہنمائوں سے اہم ترین میٹنگ کی تھی اور اس میٹنگ میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے پر غور کیا گیا تھا، تاہم اس میٹنگ میں وزیر اعظم شریک نہیں ہوئے تھے۔ بعد میں سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق عسکری قیادت نے جی بی کو عبوری صوبہ بنانے کی ضرورت پر مکمل بریفنگ دی تھی اور پارلیمانی رہنمائوں کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔ پہلی مرتبہ پاکستان کی عسکری قیادت نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے عزم کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ پارلیمانی رہنمائوں کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔ اس سے پہلے سرتاج عزیز کمیٹی میں بھی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن، حساس اداروں کے نمائندے بھی شامل تھے۔

نون لیگ کی حکومت کے دور میں قائم ہونے والی اہم کمیٹی نے لگ بھگ ڈیڑھ سال بعد اپنی سفارشات تیار کر لیں، سفارشات میں جی بی کو مسئلہ کشمیر کے حل تک عبوری صوبہ بنانے، پارلیمنٹ سمیت دیگر قومی اداروں میں نمائندگی دینے کی سفارش کر دی۔ سرتاج عزیز کمیٹی میں وزارت خارجہ، داخلہ، جی بی حکومت، وزارت امور کشمیر، آئی ایس آئی، ایم آئی کے نمائندے اور ڈی جی ملٹری آپریشن شامل تھے۔ کمیٹی کے اراکین نے متفقہ طور پر گلگت بلتستان کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دینے کی سفارش کی، ساتھ ہی کمیٹی نے مسئلہ کشمیر کے تاریخی، ملکی و عالمی پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جی بی کو عبوری آئینی صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

آرمی چیف اور پارلیمانی رہنمائوں کی اہم میٹنگ کے بعد وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور نے 16 ستمبر کو اسلام آباد میں جی بی کے صحافیوں کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے جی بی کو صوبہ بنانے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے جس کے تحت خطے کو قومی اسمبلی و سینیٹ میں نمائندگی دی جائے گی۔ علی امین گنڈاپور نے یہ بھی بتایا کہ عبوری صوبہ بننے کے بعد بھی ٹیکس نہیں لگے گا اور سبسڈی برقرار رہے گی۔ وفاقی وزیر کی یہ بریفنگ دراصل آرمی چیف اور پارلیمانی رہنمائوں کی ملاقات کی تفصیل اور مقاصد کو پبلک کرنا تھا۔ کیونکہ پہلے سے ہی شیخ رشید اور دیگر رہنمائوں کے ذریعے ملاقات کی تفصیل منظر عام پر آرہی تھی۔

بعد ازاں وزیر اعظم نے بھی باقاعدہ اعلان کیا۔ یکم نومبر کو گلگت بلتستان کے یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان گلگت پہنچ گئے اور مرکزی تقریب میں شرکت کی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں جی بی کو عبوری صوبہ بنانے کا باضابطہ اعلان کیا لیکن مزید تفصیل نہیں بتائی کیونکہ اس وقت جی بی کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہو چکا تھا اور وزیر اعظم کوئی بھی اہم اعلان نہیں کر سکتے تھے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر امین گنڈاپور نے جی بی میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے ہر بار اعلان کیا کہ صوبہ بنانے کا فیصلہ ہو چکا ہے بلکہ جی بی صوبہ بن چکا ہے۔ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کیلئے آئین میں ترمیم کی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کیا جا رہا ہے۔

پی ڈی ایم اور سوالات
حکومت اور اپوزیشن میں بڑھتی ہوئی خلیج گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کسی بھی آئینی ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے لیکن حکومت کے پاس مطلوبہ تعداد موجود نہیں اور اپوزیشن کے بغیر یہ کام ناممکن ہے۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن کراچی کے جلسے میں جی بی کو عبوری صوبہ بنانے کی مخالفت کر چکے ہیں جبکہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کا تیور بھی بدل رہا ہے۔ عمران خان اور پی ڈی ایم کا تنائو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کو غیر یقینی بنا رہا ہے۔ اگر اپوزیشن تعاون نہیں کرتی تو جی بی کو عبوری صوبہ بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
خبر کا کوڈ : 902511
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش