0
Wednesday 14 Sep 2011 14:43

حکومت اتحادیوں کو عسکری ونگز ختم کرنیکا کیوں نہیں کہتی، چیف جسٹس

حکومت اتحادیوں کو عسکری ونگز ختم کرنیکا کیوں نہیں کہتی، چیف جسٹس
 کراچی:اسلام ٹائمز۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کا وقت آگیا ہے۔ اب بہانے بازی نہیں چلے گی یہ ایکشن کا وقت ہے، حکومت تحریری بیان عدالت میں جمع کرائے کہ مسلح گروہوں کا ساتھ نہیں دے گی۔ اتحادیوں کو عسکری ونگ ختم کرنے کے لئے کیوں نہیں کیا جا رہا، حکومت مجرموں کے ساتھ ہے یا عوام کے ساتھ، کراچی ٹاﺅن یا سٹی نہیں ایک ملک ہے، دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کے حالات کیسے درست ہو سکتے ہیں۔ کراچی میں بدامنی کی صورتحال پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے کراچی میں شدید بارش کے باوجود منگل کو اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق، ایڈوکیٹ جنرل سندھ فتح ملک، بیرسٹر ظفر اور بابر اعوان ایڈوکیٹ کے دلائل سنے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کراچی کو جنگل کا شہر بنانا چاہتی ہے، پولیس کو ریاستی اثر و رسوخ سے پاک کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔ یہاں تو ہندو سے بھی ہزاروں روپے فطرانہ وصول کیا جارہا ہے۔ بابر اعوان عدالت میں بیان دینے سے پہلے آپ کو صحیح معلومات حاصل کرنی چاہئیں، اپنے دلائل اس مقدمے تک محدود رکھیں، یہ مت بتائیں پہلے کیا ہوا اور کیا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت سے باہر کی باتوں کا عدالت سے کوئی تعلق نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا: مخلوط حکومت میں بھی حکومت اتنا تو کرسکتی کہ اتحادیوں سے کہے کہ وہ مسلح گروپوں سے لاتعلقی کا اظہار کریں۔ پولیس افسران خوف کا شکار ہیں، 92 پولیس اہلکار جاں بحق ہو چکے ہیں۔ حکومت امن و امان کے لئے رینجرز کو استعمال کیوں نہیں کر پائی۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا یہاں تمام لوگوں کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ کسی طرح زمینوں پر قبضہ کیا جائے، چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے پوچھا، کیا حکومت نے مسلح گروپوں کا تعین کر لیا ہے؟ اگر نہیں کیا، ایکشن کیسے لیں گے۔ حکومت نے اب تک پولیس کو مضبوط نہیں کیا، آپ کے پاس وقت پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔ 20 سال گذر گئے ہیں اور کتنا وقت چاہئے جسٹس سرمد جلال عثمانی نے اٹارنی جنرل سے پوچھا: آپ کے خیال میں کیا موجودہ حالات میں فوج بلانی چاہئے؟ اٹارنی جنرل نے کہا: میرے خیال میں عدالت کے نوٹس لینے کے بعد صورتحال بہتر ہوئی ہے لہٰذا فوج بلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہا: کراچی میں رینجرز کی مستقل تعیناتی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ آرٹیکل 137میں صوبائی حکومت کو مکمل اختیار ہے اور صوبائی اسمبلی خود فیصلہ کرسکتی ہے کراچی میں فیڈریشن اور حکومت ناکام نہیں ہوئی کراچی میں بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا لیکن سپریم کورٹ نے سانحہ کارساز کا ازخود نوٹس نہیں لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنا ریکارڈ درست کریں اور عدالت میں کوئی بیان دینے سے پہلے معلومات حاصل کریں۔ سانحہ کارساز کا عدالتی نوٹس لیا گیا تھا۔ بابر اعوان نے کہا کہ کراچی کی بدامنی پر ہم سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی حمایت کرتے ہیں۔ اس سے صورتحال بہتر بنانے میں کافی مدد ملی ہے اور وفاقی حکومت ہر طرح کی مدد کے لئے تیار ہے۔ بابر اعوان نے کہا عدالت میں بعض دوستوں نے صدر اور وزیر اعظم کو بزدل کہا، یہاں تک کہا گیا کہ 14اگست کو بھی باہر نہیں نکل سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت سے باہر کی باتوں کا عدالت سے کوئی تعلق نہیں، آپ کورٹ کو سیاسی میدان بنانا چاہتے ہیں تو یہ عمل درست نہیں۔ عدالت نے بابر اعوان کو ہدایت کی کہ وہ بدھ کو اپنے دلائل مکمل کریں۔ قبل ازیں ایڈوکیٹ جنرل سندھ فتح ملک نے اپنے دلائل میں کہا دہشت گردوں کی تربیت طالبان جیسی ہے یہ سول حکومت میں سر اٹھاتے ہیں، فوجی حکومت میں امن ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کراچی میں بدامنی کے بارے میں تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں گذشتہ 20 سال کے جرائم کے اعداد و شمار پیش کئے گئے اور عدالت سے کہا کہ حکومت کو تھوڑا اور وقت چاہئے۔ 1991ء کا آپریشن بہت سی وجوہات پر روکا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے پوچھا حکومت رینجرز کو مسلسل اختیارات کیوں نہیں دیتی۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ 5سال تک مزید لوگ مرتے رہیں؟ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ 1992ء کے آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسران خوف کا شکار ہیں، اب تک 92 پولیس اہلکاروں کو قتل کیا جا چکا ہے اور ان کے بچوں کو بھی قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ میرے خیال میں وفاق اور صوبائی حکومت ناکام نہیں ہوئی ہے، جس پر جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ اگر یہ ناکامی نہیں تو کیا کامیابی ہے؟ جسٹس غلام ربانی نے کہا کہ کراچی پاکستان کا دل ہے۔ اس پر بابر اعوان نے کہا کہ دل تو اپنا اپنا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری ملازمین کو جو نوکری اور عزت ملی ہے وہ پاکستان کی وجہ سے ہے لیکن سمجھ نہیں آتی کہ ہم پاکستان سے محبت کیوں نہیں کرتے۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ نوازشریف اور بے نظیر کے دور میں ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے گئے لیکن جیسے ہی پرویز مشرف کی حکومت آئی سب ٹھیک ہو گیا۔
عوامی تحریک کے رہنما رسول بخش پلیجو نے فاضل بنچ کو بتایا کہ گذشتہ 20 سال سے زائد عرصے میں کسی جرم کرنے والے کو سزا نہیں ملی اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو پولیس افسر جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف کارروائی کرے گا ہم اسے سلیوٹ کریں گے۔ سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔
اے پی پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ وقت بہت گزر چکا ہے ہم بھی سول حکومت کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر حکومت کچھ نہیں کر سکتی تو کم از کم اتحادیوں کو مسلح گروپوں سے لاتعلقی کا اظہار کرنے کا کہے۔ ایک موقع پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم یہاں تھیٹر لگانے کے لئے نہیں بیٹھے، کیس چلانے آئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 98705
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش