0
Wednesday 24 Jan 2024 15:00

علامہ سید ہاشم موسوی سے علمدار روڈ کے ملک گیر دھرنے سے متعلق تفصیلی گفتگو

علامہ سید ہاشم موسوی سے علمدار روڈ کے ملک گیر دھرنے سے متعلق تفصیلی گفتگو
دس جنوری 2013ء میں علمدار روڈ کوئٹہ کے سانحے کے بعد پاکستان کی تاریخ میں ملک گیر احتجاج ہوا۔ پورے ملک میں پاکستان کے شہریوں نے کوئٹہ کے شیعوں کے دھرنے کی حمایت کی اور اپنے گھروں سے نکل کر جگہ جگہ احتجاجی دھرنا دیا۔ امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی اسوقت کوئٹہ میں قائم مرکزی دھرنے کے قائدین میں سے ایک تھے۔ اسلام ٹائمز نے سانحہ علمدار روڈ کی گیارویں برسی کے موقع پر علامہ سید ہاشم موسوی سے دس جنوری 2013ء کے دھرنے کے آغاز اور اثرات سے متعلق گفتگو کی۔ علامہ سید ہاشم نے اس موقع پر تفصیلی طور پر دھماکے اور دھرنے کی صورتحال سے متعلق بتایا۔ جسے تحریری طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب 2013ء میں سانحہ علمدار روڈ کے بعد ہم نے تاریخ ساز دھرنے دیکھے۔ پورے پاکستان کے عوام کوئٹہ کے دھرنے کی حمایت میں نکلے تھے۔ اس سے پہلے ہم نے ایسا نہیں دیکھا تھا۔ اس دھرنے کا خیال کیسے آیا۔؟
علامہ سید ہاشم موسوی:
 دس جنوری 2013ء کی رات ایک ہولناک رات تھی، جب علمدار روڈ کوئٹہ میں دو دھماکے ہوئے اور شہداء کی تعداد سو کے قریب پہنچ گئی تھی، اس رات ہم کھانا کھانے میں مصروف تھے کہ ہمیں دھماکے کی آواز آئی، ہم پریشانی میں مبتلا ہوگئے کہ یہ آواز کہاں سے آئی ہوگی، کچھ دیر بعد ایک اور دھماکے کی آواز آئی، جو اس سے کہیں زیادہ بلند تھی، جیسے دھماکہ ہماری گلی میں ہی ہوا ہو۔ اس کے بعد ہم دفتر (مجلس وحدت ملسمین کے دفتر) گئے، جہاں پارٹی کارکنان جمع ہوئے تھے۔ ہمیں اطلاعات ملیں کہ علمدار روڈ میں ہونے والے دو دھماکوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پہلے دھماکے کے بعد ان کی مدد کے لئے جانے والے بہترین لوگ دوسرے دھماکے کا شکار ہوئے۔ جس کی وجہ سے شہادتوں کی تعداد سو سے زائد ہوگئی تھی۔

دفتر سے ہم سی ایم ایچ ہسپتال گئے، جہاں قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔ ہمارے پہنچنے پر کافی لوگ ہمارے پاس آکر کہنے لگے کہ انکے زخمیوں کا علاج نہیں کیا جا رہا، آپ اس حوالے سے کچھ کریں۔ اسی دوران دو سرکاری ملازم میرے پاس آئے اور اپنا تعارف کروایا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم آپ کی کیا خدمت کرسکتے ہیں؟ جس پر میں نے کہا کہ آپ دیکھیں لوگ پریشان ہیں، زخمیوں کا علاج نہیں کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے کچھ کریں۔ انہوں نے چند لوگوں سے فون پر بات کی اور میرے پاس آکر کہنے لگے کہ "حاجی آغا احتجاج سے فائدہ نہیں ہوگا۔" جب انہوں نے یہ بات کی تو مجھے احساس ہوا کہ انہیں اسے لئے بھیجا گیا ہے کہ مجھے کنونس کرسکیں کہ احتجاج کی کال نہ دوں۔

اگلے دن جمعہ کا دن تھا اور نماز جمعہ پڑھانے کی باری میری تھی۔ نماز سے پہلے ہم امام بارگاہ حسینی ہزارہ نچاری گئے، جہاں شہداء کے جنازے رکھے گئے تھے۔ ایک کمرے میں علاقے کے عمائدین جمع ہوئے تھے۔ حاجی قیوم بھی وہاں تھے۔ جن کے بیٹے گذشتہ شب کے واقعہ میں شہید ہوئے تھے، ہم نے انہیں تسلی دی۔ پھر بحث اس بات پر پہنچی کہ جنازوں کو کب دفن کریں۔ میں نے کہا کہ انہیں دفن نہیں کریں گے، ہم احتجاج کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج سے فائدہ نہیں ہوگا، ہم اس سے پہلے بھی احتجاج کرچکے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے دروازے پر بھی گئے ہیں، اعلیٰ قوتوں سے بھی ملے ہیں، کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ فائدہ نہ بھی ہو، پھر بھی ہمارے جوانوں، ہماری ماؤں بہنوں کے دل کی بھڑاس تو کم ہو جائے گی۔

اتنا بڑا غم ہے، سو افراد شہید اور اتنے زخمی ہوئے ہیں۔ بہرحال وہ راضی نہیں ہوئے۔ صرف ایک شخص نے میری حمایت کی۔ تھوڑی دیر بعد چند اور عمائدین آئیں، جو بحث میں شامل ہوئے اور انہوں نے میری تائید کی۔ عمائدین نے یہ طے کیا کہ ہم جنازوں کو سڑک پر لے جائیں گے اور احتجاج کریں گے، میڈیا کوریج کے بعد شہداء کی تدفین کریں گے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ جا کر اس فیصلے کا اعلان کریں۔ میں نے باہر یہ اعلان کیا کہ کوئٹہ یکجہتی کونسل کے فیصلے کے مطابق نماز جمعہ کے بعد احتجاج کریں گے۔
 
اسلام ٹائمز: احتجاج یعنی دھرنا دیں گے۔؟
علامہ سید ہاشم موسوی:
 نہیں، اس وقت دھرنے کی بات نہیں ہوئی تھی۔ جب وہ میٹنگ ختم ہوئی تو صرف احتجاج کی ہی بات ہوئی تھی۔ اس دن نماز جمعہ پڑھانے کی باری میری تھی۔ میٹنگ میں جب احتجاج کا فیصلہ ہوا تو نماز جمعہ کا وقت قریب پہنچ رہا تھا اور میں نماز کیلئے چلا گیا۔ جمعہ کے دوسرے خطبے میں اجتماعی مسائل پر گفتگو ہوتی ہے۔ دوسرے خطبے کے دوران مجھے راجہ صاحب (علامہ راجہ ناصر عباس جعفری) کی کال آئی۔ میں نے تقریر کے دوران انکی کال اٹھائی، تاکہ میری تقریر سے وہ سمجھ جائیں کہ میں خطابت میں مصروف ہوں۔ اسی دوران خداوند پاک نے میرے منہ سے یہ الفاظ جاری کئے کہ "ہم نماز جمعہ کے بعد دھرنا دیں گے اور جب تک بلوچستان حکومت کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ہم احتجاج کریں گے۔"، یہ بات اللہ نے میرے منہ سے جاری کی، کیونکہ یہ طے نہیں ہوا تھا کہ دھرنا دیں گے، صرف احتجاج کی بات ہوئی تھی۔ نماز کے بعد ہم واپس امام بارگاہ نیچاری پہنچے تو نجی ٹی وی چینل کے ایک نمائندے نے مجھے روک کر میری رائے لی۔ اس میں بھی میں نے یہ بات کی کہ ہم جنازوں کے ہمراہ دھرنا دیں گے اور جب تک صوبائی حکومت معطل نہیں ہو جاتی، ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔

اسلام ٹائمز: دھرنے کیلئے وزیراعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس جیسے آپشنز موجود تھے، پھر بھی علمدار روڈ میں دھرنے کی کیا وجہ تھی۔؟
علامہ ہاشم موسوی:
 دیکھیں، جب ہم نے احتجاج کی بات کی تھی تو اس وقت دھرنے کی بات نہیں تھی۔ نماز جمعہ کے بعد جب میں امام بارگاہ نچاری گیا تو عمائدین وہی بیٹھے تھے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ احتجاج کے لئے کیوں نہیں نکلے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے انتظار میں تھے۔ انہوں نے دوبارہ پوچھا کہ احتجاج کے لئے جانا چاہیئے؟ میں نے کہا کہ ہاں ہم نے مشترکہ طور پر فیصلہ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کے لئے نکلنے کا اعلان بھی آپ کریں۔ میں امام بارگاہ نیچاری کی مسجد کے اندر گیا اور مائیک آن کرکے اسپیکر پر پہلے چند نعرے لگائے، پھر اعلان کیا کہ کوئٹہ یکجہتی کونسل اور عمائدین کے فیصلے کے مطابق ہم جنازوں کے ہمراہ احتجاج کریں گے۔ آپ جنازے اٹھائیں اور علمدار روڈ پر واقع اسپورٹس کمپلکس کے قریب چلیں، وہاں جنازے رکھیں گے۔

اس اعلان پر شہداء کے لواحقین نے اپنے پیاروں کے جنازے اٹھائے اور وہ چلنے لگے۔ ہم مسجد سے باہر نکلے اور مظاہرین کے ساتھ چلنے لگے تو ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگ جنازوں کے ہمراہ اسپورٹس کمپلکس سے بھی آگے نکل چکے ہیں، ہم جلدی سے آگے گئے اور ان سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم، میں نے کہا کہ جنازے یہی رکھ دیں، وہاں تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا، جو مغرب تک جاری رہا، چونکہ تقاریر کے دوران بارش ہوئی تھی تو ہم نے کہا کہ زمین پاک ہے تو یہاں نماز باجماعت ادا کرسکتے ہیں، ہم نے پہلی نماز جماعت وہی ادا کی اور اس کے بعد وہی بیٹھے رہے۔
 
اسلام ٹائمز: ابتدائی طور پر صوبائی حکومت نے مذاکرات کی کوشش نہیں کی۔؟
علامہ ہاشم موسوی: ہاں، جب دھرنا شروع ہوا تو اس کی پہلی شب کو ہمیں اطلاع ملی کہ حکومت کی جانب سے ڈپٹی کمشنر اور پولیس کے افسران مذاکرات کے لئے آئے ہیں۔ ہمارے تین عمائدین ان کے پاس گئے اور ان سے مذاکرات کئے۔ ہمیں ان مذاکرات میں نہیں بلایا گیا۔ اس کے بعد مذاکرات کے لئے جانے والوں میں سے ایک شخص میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا کہ ہمیں احتجاج کو ختم کرنا چاہیئے۔ میں نے پوچھا کہ کیوں؟ تو انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہم سے وعدہ کیا ہے۔ میں نے کہا کہ صرف وعدوں سے کام نہیں چلے گا، انہیں نوٹیفیکیشن جاری کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ نوٹیفیکیشنز بھی جاری ہوگئے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ دھرنا ختم ہونے کا اعلان آپ کریں۔ جب میں اسٹیج کے قریب پہنچا تو وہاں شب چہل ہشتم کا جلوس آیا تھا اور عزاداری جاری تھی۔ ہم ماتم داری کے اختتام کا انتظار کر رہے تھے کہ اس کے بعد اعلان کریں۔ اسی دوران مجھے خیال آیا کہ جنہوں نے مذاکرات کئے ہیں، اعلان انہیں ہی کرنا چاہیئے۔ میں نے عمائدین کے پاس سے اٹھ کر واپس مسجد میں آگیا اور انہوں نے میرے بعد کوئی اعلان نہیں کیا۔

اسلام ٹائمز: پورے پاکستان میں مرکزی دھرنے کے دوسرے دن سے ہی دھرنوں کا آغاز ہوا۔ یہ کوآرڈینیشن کیسے ہوئی۔؟
علامہ سید ہاشم موسوی:
 دھرنے کے دوسرے دن علامہ راجہ ناصر عباس صاحب صبح آٹھ بجے کوئٹہ پہنچ گئے تھے۔ وہ دھرنے میں آئے اور مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کیا پروگرام بنایا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ابھی تک کچھ نہیں پتہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے نماز جمعہ میں اعلان کیا تھا کہ جب تک حکومت ختم نہیں ہوتی احتجاج جاری رہے گا۔ میں نے انہیں بتایا کہ وہ میں نے کہا، یکجہتی کونسل نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے۔ راجہ صاحب نے پریس کانفرنس کی اور پورے پاکستان کے شیعوں سے مطالبہ کیا کہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں، البتہ ہماری کال سے بھی پہلے جو سب سے پہلے ہماری حمایت میں نکلے تھے، وہ برطانیہ کے مومنین تھے، وہاں کے مومنین نے پاکستان کے ہائی کمیشن آفس کے سامنے دھرنا دیا تھا۔ بعد میں ہمیں علماء نے بتایا کہ وہاں ایک فیملی اپنے چھ روز کے بچے کے ساتھ آئی تھی۔ علماء نے ان سے درخواست کی کہ وہ بچے کو اس سردی میں ایسے نہ لائیں۔ تو انہوں نے کہا کہ اس بچے کی جان شہداء کوئٹہ کی جانوں سے زیادہ نہیں ہے، الحمداللہ اس بچے کو بھی کچھ نہیں ہوا۔ بعد ازاں خبر ملی کہ کراچی، اسلام آباد اور اسی طرح دیگر شہروں کے شیعوں نے بھی دھرنے کا آغاز کر دیا، ہم نے باقاعدہ طور پر یہ طے کیا کہ بلوچستان حکومت کے اختتام تک احتجاج جاری رکھیں گے۔

اسلام ٹائمز: دھرنے میں اسوقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے مذاکرات ہوئے تھے اور بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ پر دھرنا ختم کیا گیا۔ اس حوالے سے بتائیں۔؟
علامہ سید ہاشم موسوی:
 علمدار روڈ کے دھرنے کے تیسرے دن کچھ حکومتی نمائندے آئے اور ہم سے کہا کہ آپ چند عمائدین کو مختص کریں، جو وزیراعظم صاحب سے ملاقات کریں۔ شام کو علمدار روڈ پر امام بارگاہ پنجابی کے قریب بہت رش تھا۔ حکومتی نمائندوں نے کہا کہ اس طرح ہم کلیئرنس نہیں دے سکتے، اس صورت میں وزیراعظم نہیں آسکتے۔ جس پر میں نے ان جوانوں سے بات کی اور درخواست کی کہ وہ دھرنے کے مقام پر ہی رہیں۔ بہرحال اس کے بعد بھی وزیراعظم نہیں آئے۔ اس کے بعد رات کے تقریباً ایک بجے تھے، جب خبر آئی کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف آرہے ہیں۔ جب وہ آئے تو مذاکرات کے لئے بات چیت شروع ہوئی۔

وہیں پر وزیراعظم نے اعلان کیا کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کو معطل کر دیا جائے گا۔ جب ویراعظم چلے گئے تو ہم نے آپس میں فیصلے کے لئے گفتگو کی کہ دھرنا ختم کریں یا جاری رکھیں۔ اس کے اگلے روز کوئٹہ یکجہتی کونسل کے عمائدین دوبارہ اکٹھے ہوئے اور ہم نے فیصلہ کیا کہ اسٹیج سے دھرنے کے اختتام کا اعلان کریں گے۔ اس کے بعد امام بارگاہ پنجابی میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور سردار سعادت علی سمیت دیگر عمائدین موجود تھے۔ انہوں نے باقاعدہ طور پر دھرنے کے اختتام کا اعلان کیا۔

اسلام ٹائمز: وفاقی حکومت تک آپکی آواز پہنچ چکی تھی اور وزیراعظم خود آنیوالے تھے۔ کیا ضلعی انتظامیہ اور حکومت نے اسوقت بھی تعاون نہیں کیا۔؟
علامہ سید ہاشم:
 جس رات وزیراعظم صاحب آئے تھے، ان سے قبل تقریباً رات کے گیارہ بجے کے آس پاس کا وقت تھا کہ سول کپڑوں میں ملبوس دو افراد میرے پاس آئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آغا صاحب ہمیں آپ سے کام ہے۔ ہم امام بارگاہ میں بات کرنے گئے۔ وہاں ان کی تعداد چھ تھی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ایف سی کے آئی جی صاحب نے ہمیں بھیجا ہے۔ غالباً انہوں نے جنرل عبیداللہ کا نام لیا کہ جنرل صاحب نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور انہوں نے درخواست کی ہے کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لئے شامیانہ لگائیں گے اور دھرنا مظاہرین کے کھانے کا بندوبست کرنے کی ذمہ داری ایف سی کی ہوگی۔

میں نے ان سے کہا کہ آپ کا بہت شکریہ، مگر ہم جنرل صاحب سے یہی استدعا کرتے ہیں کہ انہیں ہماری سکیورٹی کے حوالے سے توجہ دینی چاہیئے تھی، اگر آپ آئندہ ہونگے تو ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کوششیں کریں، میں نے ان سے کہا کہ شامیانہ لگانے سے رات کے وقت سردی میں کچھ کمی آسکتی ہے، مگر دن میں ہم گرمی سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ اسی لئے شامیانہ بہتر نہیں ہوگا اور کھانے کا بندوبست بھی ہمارے مومنین کر رہے ہیں۔ آپ اس حوالے سے زحمت نہ کریں۔ آپ سکیورٹی کے معمولات کو سنبھالتے کہ ایسے واقعات پیش نہ آتے۔

اسلام ٹائمز: دھرنے کی کامیابی کی کیا وجوہات سمجھتے ہیں۔؟
علامہ ہاشم موسوی:
 دھرنے کی کامیابی کی سب سے پہلی وجہ اللہ تعالیٰ پر توکل تھا۔ اس کے بعد یہی کہ ہم سب نے ہمت و استقامت کا مظاہرہ کیا اور سڑکوں پر نکلے۔ اس کے بعد پاکستان اور دنیا بھر میں ہمارا ساتھ دینے والے مومنین کے باعث ہمارا دھرنا کامیاب ہوا۔ ہمارے شہدائے عزیز اور مظلومیت کے سلسلے میں احتجاج ہونا چاہیئے تھا، کیونکہ عوامی احتجاج اثرانداز ہوتا ہے۔ بالخصوص اس وقت جب پورے پاکستان کے مومنین اور مسلمین اس سلسلے میں ہمارا ساتھ دیں، ہمارے دھرنوں میں پاکستان کے مومنین نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے۔ حتیٰ کہ گلگت بلتستان اور پاراچنار سمیت ملک کے سرد ترین علاقوں میں بھی منفی 20 ڈگری سینٹی گریڈ میں مومنین نے ہماری حمایت میں دھرنا دیا۔

اس کے علاوہ ہر بار کوئٹہ کے مومنین کے اتحاد، ہماری بہنوں کی زحمتوں، جوانوں اور خاص طور پر اتحاد پورے پاکستان میں مومنین کے اتحاد کے باعث ہم کامیاب ہوئے۔ اس حوالے سے پوری قوم نے کسی سیاسی جماعت سے کسی تعلق کے بغیر کہا کہ ہم کوئٹہ کے مومنین کے مطالبات کی حمایت میں ہیں اور کہا کہ جو بات وہ کریں گے، ہم انکے ساتھ ہیں۔ مسلمین نے بھی اکثر مقامات پر دھرنا دے کر ہمارا ساتھ دیا۔ ہماری دھرنوں میں تمام سیاسی جماعتیں بھی ہمارے پاس آئیں اور تعزیت کا اظہار کیا۔ ان کے رہنماؤں نے بھی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ہمارے دھرنے میں خطاب کیا تو اس حوالے سے ان کا بھی رول ہے۔ 

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب علمدار روڈ میں 2013ء کے دھرنے کی بات آپ نے کی۔ کوئٹہ میں اور بھی دھرنے ہوئے۔ ان میں بھی آپ نے اپنا کردار ادا کیا۔؟
علامہ ہاشم موسوی: 
دیکھیں کوئٹہ میں جو چار دھرنے ہوئے ہیں، پہلا دھرنا جو 2013ء میں ہوا، وہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں ڈالا کہ یہ راستہ اپنایا جائے۔ اسی سال فروری میں ہونے والے دوسرے دھرنے پر میں عمرہ کے لئے گیا تھا۔ میں کوئٹہ میں موجود نہیں تھا۔ 2014ء میں بھی ہونے والے دھرنے کی بنیاد میری تجویز پر رکھی گئی۔ باقی ساتھیوں نے میرا ساتھ دیا اور 2021ء میں سانحہ مچھ کے بعد شروع ہونے والے دھرنے کے لئے بھی میں نے اصرار کیا۔ البتہ وہاں ہم سے پہلے ہماری قوم کے جوان پہنچ گئے تھے، ہم نے انہیں قائل کیا اور اسے ایک منظم شکل دی۔ ہمارے جانے کے بعد باقاعدہ دھرنے کا آغاز ہوا اور قوم ہمارے ساتھ بیٹھ گئی۔
خبر کا کوڈ : 1111116
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش