0
Thursday 22 Jun 2023 18:55

تہران میں فلسطینی رہنماؤں کی موجودگی اور صیہونیوں کی پریشانی

تہران میں فلسطینی رہنماؤں کی موجودگی اور صیہونیوں کی پریشانی
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

رہبر انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام اور امت مسلمہ کا بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ فلسطین کے مسئلے پر جتنی پیشرفت حاصل ہوگی، عالم اسلام کے مسائل میں بھی پیشرفت حاصل ہوگی۔ رہبر انقلاب اسلامی کے دفتر کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس کے اعلیٰ رتبہ وفد نے اسماعیل ہنیہ کی سربراہی میں بدھ کے روز رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر مسئلۂ فلسطین کی درست سمت پیشرفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ فلسطین کی نوجوان اور مومن نسل کا احساس ذمہ داری کرتے ہوئے انفرادی اور اجتماعی طور پر میدان عمل میں وارد ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ  نے گذشتہ چند برسوں کے دوران فلسطین کے حالات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ماضی میں جوان نسل کے میدان میں نہ آنے کی وجہ سے فلسطین کا مسئلہ بھی جمود کا شکار رہا، لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور فلسطینی جوانوں نے عزم و ولولے اور اسلام پر اعتماد کے ساتھ میدان میں قدم رکھا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ کو مقاومت و مزاحمت کا محور قرار دیا اور فرمایا کہ غرب اردن کے علاقے میں اب تک اچھی پیشرفت دیکھنے کو ملی ہے اور یہ علاقہ دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا۔ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے فرمایا کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن جنین کے جوان صہیونی افواج کا جینا دو بھر کریں گے اور صیہونی فورسز اپنے اہلکاروں کو محاصرے سے نکالنے کے لئے طیاروں سے مدد لینے پر مجبور ہوجائیں گی، لیکن جنین میں چند روز پہلے ایسا ہی ہوا۔ رہبر انقلاب نے فرمایا کہ عالمی سطح پر وسیع پروپیگنڈے کے باوجود حالات فلسطینی عوام کے حق میں ہیں۔ اس سال اسلامی ممالک کے علاوہ یورپ میں بھی القدس کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں اور شرکاء نے صہیونی حکومت سے کھل کر اپنی مخالفت ظاہر کر دی کہ جسے زیادہ سے زیادہ تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کی جانب سے فلسطین کی حمایت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی (رہ) نے انقلاب کے آغاز میں ہی ایمان اور دلی اعتقاد کی بنیاد پر فلسطین کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ ایران کی طرف سے مسئلہ فلسطین کی حمایت، سفارتی یا تیکنیکی نہیں بلکہ فقہ اور شریعت کے اصولوں کی بنیادوں پر استوار ہے۔ آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے فلسطین کو امت مسلمہ کی سرزمین قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ تمام مسلمانوں پر فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنا واجب اور ایک شرعی ذمہ داری ہے۔ ملاقات کے دوران حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے مسئلہ فلسطین کی حمایت پر ایران کا شکریہ ادا کیا اور فلسطین کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی۔ اسماعیل ہنیہ نے رہبر انقلاب اسلام سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم آپ کی موجودگی میں اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ مزاحمتی گروہ، فلسطین کی سرزمین سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور قدس کی آزادی تک جدوجہد اور جہاد کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ خداوند عالم کے لطف و کرم سے اور فلسطین کی نوجوان اور مومن نسل کی مدد سے مستقبل قریب میں مسجد الاقصیٰ، غاصبوں کے چنگل سے آزاد ہو جائے گی اور آپ کے ساتھ ہم سبھی وہاں نماز ادا کریں گے۔

سعودی عرب اور مصر کے سفر کے بعد حماس کے رہنماء تہران پہنچے ہیں، تاکہ ایرانی حکام کے ساتھ فلسطین سے متعلق تازہ ترین سیاسی اور میدانی پیش رفت پر تبادلہ خیال کرسکیں۔ حماس کا وفد اس تحریک کے سیاسی رہنماء اسماعیل ھنیہ کی سربراہی میں پیر کے روز تہران پہنچا۔ حماس کے وفد کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب اسلامی جہاد کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ اور ان کے ہمراہ وفد بھی تہران میں ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ان دونوں گروہوں کے رہنماؤں کے مختلف ممالک کے بیک وقت دوروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونی دشمن کے خلاف فلسطینیوں کے درمیان ایک قسم کا تعاون ابھرا ہے اور جیسا کہ حماس کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ حالیہ تنازعات میں اسلامی جہاد اور حماس کے درمیان ایک طرح کا تعاون پیدا ہوا ہے۔ یاد رہے صہیونی فوج کی جانب سے مقبوضہ علاقوں پر راکٹ حملے مزاحمتی حماعتوں پر مشتمل مشترکہ آپریشن روم کے فیصلے سے کیے گئے۔

موجودہ حالات میں جہاں مغربی کنارے اور غزہ میں صیہونی حکومت اور مزاحمتی گروہوں کے درمیان کشیدگی میں شدت آئی ہے، فلسطینی رہنماؤں کے دورہ ایران کو مختلف زاویوں سے پرکھا جا سکتا ہے۔ یہ مسئلہ ہر ایک پر عیاں ہے کہ اسلامی جمہوریہ گذشتہ چار دہائیوں کے دوران فلسطینی قوم کا سب سے بڑا حامی رہا ہے اور اس نے مختلف طریقوں سے غاصبوں کے خلاف مزاحمتی گروہوں کی حمایت کی ہے اور خود مزاحمتی قائدین نے بارہا اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ایران اور خاص طور پر شہید جنرل قاسم سلیمانی نے فلسطینی مزاحمتی محاذ کو مسلح کرنے میں  کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ کہے بغیر کہ حالیہ ہفتوں میں نیتن یاہو نے ایران کے ساتھ تناؤ کی سطح میں اضافہ کیا اور ہمیشہ کی طرح جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس تناظر میں حماس اور اسلامی جہاد کے وفد کا تہران کا دورہ صیہونی دشمن کے لیے ایک قسم کی تنبیہ ہے کہ تہران کے پاس اس حکومت کے مفادات پر حملہ کرنے کے بہت سے راستے ہیں۔

 فلسطینی مزاحمتی رہنماؤں کا تہران کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب مغربی کنارہ ایک ابلتے ہوئے مقام کی طرح ہے، جہاں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان ایک نئی جنگ کا امکان ہے اور جیسا کہ عبرانی میڈیا نے کہا ہے کہ صہیونی فوج اور سکیورٹی فورسز اپنے آپ کو وسیع آپریشن کے لیے تیار کر رہی ہیں۔ ان تحریکوں کے جواب میں "عرین الاسود" گروپ نے بھی فلسطینی جنگجوؤں کو چوکنا رہنے کا حکم جاری کیا اور خبردار کیا کہ وہ غاصبوں کو فیصلہ کن جواب دے گا۔ ایسی کشیدہ صورت حال میں تہران میں فلسطینی گروہوں کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ مزاحمتی گروہوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تاکہ قابض دشمن کے خلاف ہم آہنگی سے کام لیا جا سکے۔ بےشک فلسطینیوں کے درمیان اتحاد صیہونی حکومت کو ناکام بنا دے گا اور اسے فلسطینیوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے سے بھی روکے گا۔

تل ابیب کے حکام فلسطینی گروپوں کے ایران اور خطے کے دیگر مزاحمتی فریقوں کے درمیان اتحاد سے خوفزدہ ہیں اور بارہا اس مسئلے کا اعتراف کرچکے ہیں۔ نیتن یاہو نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل کے 90 فیصد سکیورٹی چیلنجز ایران سے آتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تہران میں فلسطینیوں کی موجودگی صیہونیوں کو مزید پریشان کرے گی۔ دوسری جانب حماس کے رہنماؤں کا دورہ تہران ایسے عالم میں انجام پا رہا ہے کہ حالیہ مہینوں میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان سیاسی تعلقات مکمل بحالی کی طرف جا رہے ہیں۔ سعودیوں نے تقریباً دو دہائیوں کے بعد حماس کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کیے ہیں اور اسماعیل ہنیہ ایک وفد کے ہمراہ سعودی عرب گئے اور اس ملک کے حکام سے ملاقاتیں کیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان فلسطینی گروہوں کو مضبوط کرنے کے حوالے سے مفاہمت ہوگئی ہے۔ حماس اور اسلامی جہاد کے وفود کی بیک وقت   تہران آمد اور سعودی عرب کے وزیر خارجہ "فیصل بن فرحان" کا حالیہ دوران اس حقیقت کو واضح کرتا نظر آتا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ اور ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں مسئلہ فلسطین کی حمایت کو عالم اسلام کا مشترکہ نقطہ قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کے بعد ریاض نے حماس کے کئی قیدیوں کو رہا کیا ہے، جن میں اس تحریک کے سرکردہ ارکان میں سے ایک محمد الخضری بھی شامل ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودیوں نے فلسطینیوں کے مزاحمتی گروپوں کے خلاف اپنے سابقہ ​​طرز عمل کو تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1065492
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش