0
Sunday 31 Mar 2024 17:37

علی ؑ کی علی ؑ والوں سے باتیں

(21 رمضان المبارک یوم شہادت امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام پر خاص تحریر)
علی ؑ کی علی ؑ والوں سے باتیں
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com

جس طرح قرآن مجید فرقان حمید کے بارے میں طے ہے کہ یہ اللہ سبحانہ تعالےٰ کا کلام ہے، یعنی قرآن کے ذریعے اللہ تعالےٰ اپنی مخلوق سے باتیں کرتا ہے۔ اسی تناظر میں حضرت علی علیہ السلام کا ایک مشہور قول ہے کہ  ”میں اپنے اللہ سے باتیں کرتا ہوں اور میرا اللہ مجھ سے باتیں کرتا ہے۔“ پوچھنے والے نے سوال کیا کہ یا امیرالمومنین ؑ اس کی وضاحت فرمائیں کہ اللہ آپ سے کیسے باتیں کرتا ہے اور آپ اللہ سے کیسے باتیں کرتے ہیں۔؟ تو حضرت علی ؑ نے فرمایا  ”جب میں نے اللہ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں تو اللہ کے گھر میں جا کر نماز اور عبادات انجام دیتا ہوں اور اپنی باتیں اللہ تک پہنچاتا ہوں اور جب میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھ سے باتیں کرے یا میں اللہ کی باتیں سنوں تو میں قرآن کھول کر تلاوت کرتا ہوں۔“
 
اسی فلسفے کے تسلسل میں علی ؑ کے چاہنے والوں نے اگر علی ؑ سے باتیں کرنا ہوں تو انہیں چاہیئے کہ رسول اکرم ؐ کے فرمان کے تحت علی ؑ کا ذکر چھیڑیں، قرآن میں علی ؑ کی شان میں تین سو سے زائد نازل ہونے والی آیات کی تلاوت و مطالعہ اور پیغمبر اکرم ؐ کی ہزاروں احادیث کی تلاوت و مطالعہ کریں، جن میں علی ؑ کے فضائل و خصائل موجود ہیں اور اگر علی ؑ کی باتیں سننا ہوں یا چاہیں کہ علی ؑ ہم سے مخاطب ہوں تو انہیں سب سے پہلے نہج البلاغہ کی تلاوت کرنا چاہیئے، جس میں علی ؑ نے اپنے ماننے و چاہنے والوں یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ علی ؑ سے چاہت کا دعویٰ کرنے اور علی ؑ کو ماننے کا دعویٰ کرنے والوں سے دل کھول کر باتیں کی ہیں۔

علی ؑ نے انہیں توحید بھی بتائی ہے، رسالت کے ساتھ بھی متمسک کیا ہے۔ واجبات و عبادات کی حقیقت بھی بتائی ہے۔ گناہ و ثواب کے فلسفے بھی بتائے ہیں۔ جنگ و حرب کے طریقے بھی بتائے ہیں۔ عارضی دنیا میں اچھی زندگی گزارنے کے سلیقے بھی سکھائے ہیں۔ اپنے کردار اور نفس کا احتساب کرنا بھی بتایا ہے۔ منفی و مثبت سیاست کے انداز سے بھی آشنا کرایا ہے اور اچھے برے حکمرانوں کے ساتھ اچھی بری حکومتوں اور نظام کا تعارف بھی کرایا ہے۔ آج ہم حضرت علی علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے علی ؑ کی وہ باتیں علی ؑ کے چاہنے والوں کے سامنے رکھ رہے ہیں، جو علی ؑ نے مختلف مواقع پر اپنے چاہنے والوں سے کی ہیں۔

اگرچہ بظاہر تو یہ باتیں علی ؑ نے اپنے زمانے میں موجود اپنے چاہنے والوں سے کی تھیں، لیکن امام کا کلام ہمیشہ کلام الامام ہوتا ہے اور کسی ایک زمانے یا کسی ایک گروہ یا شخص کے لیے نہیں ہوتا بلکہ رہتی دنیا اور تا قیام قیامت ہوتا ہے، اس لیے ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں، اب بھی یہ کلام اتنا ہی معتبر اور موثر ہے۔ علی ؑ کا کلام آج بھی ہمارے کردار، ہمارے حالات، ہمارے افعال اور ہمارے اعمال کی نشاندہی کر رہا ہے اور ہمیں آئینہ دکھا رہا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم آئینہ دیکھ کر حقائق تسلیم کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 92 میں مولا علی ؑ اپنے چاہنے والوں سے فرما رہے ہیں: ”اے وہ لوگو، جن کے جسم یکجا اور خواہشیں جدا جدا ہیں۔ تمہاری باتیں تو سخت پتھروں کو بھی نرم کر دیتی ہیں اور تمہارا عمل ایسا ہے کہ جو دشمنوں کو تم پر دندان آز تیز کرنے کا موقعہ دیتا ہے۔ اپنی مجلسوں می تم کہتے پھرتے ہو کہ یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے اور جب جنگ چھِڑ ہی جاتی ہے تو تم اُس سے پناہ مانگتے ہو۔

جو تم کو مدد کے لیے پکارے، اس کی صدا بے وقعت اور جس کا تم جیسے لوگوں سے واسطہ پڑا ہو، اُس کا دل ہمیشہ بے چین ہے۔ حیلے حوالے ہیں، غلط سلط اور مجھ سے جنگ میں تاخیر کرنے کی خواہشیں ہیں۔ جیسے نادہندہ مقروض اپنے قرض خواہ کو ٹالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ذلیل آدمی ذلت آمیز زیادتیوں کی روک تھام نہیں کرسکتا اور حق تو بغیر کوشش کے نہیں ملا کرتا۔ اس گھر کے بعد اور کس امام کے ساتھ ہو کہ جہاد کرو گے۔ خدا کی قسم جسے تم نے دھوکہ دے دیا ہو، اُس کے فریب خوردہ ہونے میں کوئی شک نہیں اور جسے تم جیسے لوگ ملے ہوں تو اس کے حصہ میں وہ تیر آتا ہے، جو خالی ہوتا ہے اور جس نے تم کو (تیروں کی طرح) دشمنوں پر پھینکا ہو، اُس نے گویا ایسا تیر پھینکا ہے، جس کا سوفار ٹوٹ چکا ہو اور پیکان بھی شکستہ ہو۔

خدا کی قسم میری کیفیت تو اب یہ ہے کہ نہ میں تمہاری کسی بات کی تصدیق کرسکتا ہوں اور نہ تمہاری نصرت کی مجھے آس باقی رہی ہے اور نہ تمہاری وجہ سے دشمن کو جنگ کی دھمکی دے سکتا ہوں۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے، تمہارا مرض کیا ہے اور اس کا چارہ کیا ہے۔ اس قوم (اہل شام) کے افراد بھی تو تمہاری ہی شکل و صورت کے مرد ہیں۔ کیا باتیں ہی باتیں رہیں گی۔ جانے بوجھے بغیر اور صرف غفلت و مدہوشی ہے۔ تقویٰ و پرہیز گاری کے بغیر (بلندی) کی حرص ہی حرص ہے، مگر بالکل ناحق۔“

نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 72 میں امیرالمومنین ؑ اپنے سپاہیوں اور لشکر کے ساتھیوں اور چاہنے والوں سے فرماتے ہیں: ”جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، جسے اللہ نے اپنے خاص دوستوں کے لیے کھولا ہے۔ یہ پرہیزگاری کا لباس اللہ کی محکم زرہ اور مضبوط سپر ہے، جو اس سے پہلو بچاتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا ہے، خدا اسے ذلت و خواری کا لباس پہنا اور مصیبت و ابتلا کی ردا اوڑھا دیتا ہے اور ذلتوں اور خواریوں کے ساتھ ٹھکرا دیا جاتا ہے اور مدہوشی و غفلت کا پردہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے اور جہاد کو ضائع و برباد کرنے سے حق اس کے دل پر لے لیا جاتا ہے۔ ذلت اُسے سہنا پڑتی ہے اور انصاف اس سے روک لیا جاتا ہے۔ میں نے اس قوم سے لڑنے کے لیے رات بھی اور دن بھی اعلانیہ بھی اور پوشیدہ بھی، تمہیں پکارا اور للکارا اور تم سے کہا کہ قبل اس کے کہ وہ جنگ کے لیے بڑھیں، تم ان پر دھاوا بول دو۔

خدا کی قسم جن افراد قوم پر ان کے گھروں کے حدود کے اندر ہی حملہ ہو جاتا ہے، وہ ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ لیکن تم نے جہاد کو دوسروں پر ٹال دیا اور ایک دوسرے کی مدد سے پہلو بچانے لگے۔ یہاں تک کہ تم پر غارت گریاں ہوئیں اور تمہارے شہروں پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا۔ اسی بنی غامد کے آدمی ہی کو دیکھ لو کہ اس کی فوج کے سوار (شہر) انبار کے اندر تک پہنچ گئے اور حسان ابن حسان بکری کو قتل کر دیا اور تمہارے محافظ سواروں کو سرحدوں سے ہٹا دیا اور مجھے تو یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ اس جماعت کا ایک آدمی مسلمان اور ذمی عورتوں کے گھروں میں گھس جاتا تھا اور ان کے پیروں سے کڑے (ہاتھوں سے کنگن) اور گلوبند اور گوشوارے اتار لیتا تھا اور ان کے پاس اس سے حفاظت کا کوئی ذریعہ نظر نہ آتا تھا۔

سوائے اس کے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون کہتے ہوئے صبر سے کام لیں یا خوشامدیں کرکے اس سے رحم کی التجا کریں۔ وہ لدے پھندے ہوئے پلٹ گئے، نہ کسی کے زخم آیا، نہ کسی کا خون بہا۔ اب اگر کوئی مسلمان ان سانحات کے بعد رنج و ملال سے مر جائے تو اسے ملامت نہیں کی جا سکتی بلکہ میرے نزدیک ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ العجب ثم العجب خدا کی قسم ان لوگوں کا باطل پر ایکا کر لینا اور تمہاری جمیعت کا حق سے منتشر ہو جانا۔ دل کو مردہ کر دینا ہے اور رنج و اندوہ بڑھا دیتا ہے، تمہارا بُرا ہو، تم غم و حزن میں مبتلا رہو۔ تم تو تیروں کا از خود نشانہ بنے ہوئے ہو، تمہیں ہلاک و تاراج کیا جا رہا ہے، مگر تمہارے قدم جمے ہوئے ہیں اور تم جنگ سے جی چراتے ہو۔ اللہ کی نافرمانیاں ہو رہی ہیں اور تم راضی ہو رہے ہو۔

اگر گرمیوں میں تمہیں ان کی طرف بڑھنے کے لیے کہتا ہوں تو تم یہ کہتے ہو کہ یہ انتہائی شدت کی گرمی کا زمانہ ہے، اتنی مہلت دیجیے کہ گرمی کا زور ٹوٹ جائے اور اگر سردیوں میں چلنے کے لیے کہتا ہوں تو تم یہ کہتے ہو کہ کڑاکے کا جاڑا پڑ رہا ہے، اتنا ٹھہر جائیے کہ سردی کا موسم گذر جائے۔ یہ سب سردی اور گرمی سے اس طرح بھاگتے ہو، تو پھر خدا کی قسم تم تلواروں کو دیکھ کر اُس سے کہیں زیادہ بھاگو گے۔ اے مردوں کی شکل و صورت والے نامردو، تمہاری عقلیں بچوں کی سی اور تمہاری حجلہ نشین عورتوں کے مانند ہے۔ میں تو یہی چاہتا تھا کہ نہ تم کو دیکھتا، نہ تم سے جان پہچان ہوتی۔ ایسی شناسائی جو ندامت کا سبب اور رنج و اندوہ کا باعث بنی ہے۔

اللہ تمہیں مارے، تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میرے سینے کو غیض و غضب سے چھلکا دیا ہے۔ تم نے مجھے غم و حزن کے جرعے پے درپے پلائے، نافرمانی کرکے میری تدبیر و رائے کو تباہ کر دیا۔ یہاں تک کہ قریش کہنے لگے کہ علی ؑ ہے تو مردِ شجاع لیکن جنگ کے طور طریقوں سے واقف نہیں۔ اللہ اُن کا بھلا کرے، کیا اُن میں سے کوئی ہے، جو مجھ سے زیادہ جنگ کی مزادلت رکھنے والا اور میدان ِ وغا میں میرے پہلے سے کار نمایاں کئے ہوئے ہو۔ میں تو ابھی بیس برس کا بھی نہ تھا کہ حرب و ضرب کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا اور اب تو ساٹھ سے بھی اوپر ہوگیا ہوں، لیکن اُس کی رائے ہی کیا، جس کی بات نہ مانی جائے۔“

نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر  93 میں بڑے پردرد اور دل شکستہ انداز سے اپنے ساتھیوں کی حالت کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”میرا ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا ہے، جنہیں حکم دیتا ہوں تو مانتے نہیں۔ بلاتا ہوں تو آواز پر لبیک نہیں کہتے۔ تمہارا بُرا ہو۔ اب اپنے اللہ کی نصرت کرنے میں تمہیں کس چیز کا انتظار ہے۔ کیا دین تمہیں ایک جگہ اکٹھا نہیں کرتا اور غیرت و حمیت تمہیں جوش میں نہیں لاتی۔؟ میں تم میں کھڑا ہو کر چلاتا ہوں اور مدد کے لیے پکارتا ہوں۔ لیکن تم نہ میری کوئی بات سنتے ہو، نہ میرا کوئی حکم مانتے ہو۔ یہاں تک کہ ان نافرمانیوں کے بُرے نتائج کھل کر سامنے آجائیں۔ نہ تمہارے ذریعے خون کا بدلا لیا جاسکتا ہے۔ نہ کسی مقصد تک پہنچا جا سکتا ہے اور تم اُس اونٹ کی طرح بلبلانے لگے، جس کی ناف میں درد ہو رہا ہو اور اس لاغر و کمزور شُتر کی طرح ڈھیلے پڑ گئے، جس کی پیٹھ زخمی ہو، پھر میرے پاس تم لوگوں کی ایک چھوٹی سے متزلزل و کمزور فوج آئی۔ اس عالم میں کہ گویا اسے اس کی نظروں کے سامنے موت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔“

ان تینوں خطبات میں علی ؑ نے اپنے چاہنے ماننے والوں بلکہ اپنے ساتھیوں اور سپاہیوں کے حوالے سے جس دُکھ بھری رائے کا اظہار کیا ہے، وہ ہر دور کی طرح آج کے دور میں بھی موجود ہے۔ اگر علی ؑ کے چاہنے ماننے والے اپنے اپنے گریبانوں میں احتسابی نظریں ڈالیں اور جائزہ لیں کہ وہ اپنے آقا و مولا کی کتنی باتوں پر دل و جان سے عمل کرتے ہیں۔؟ اپنے آقا و مولا کی کتنی صداؤں پر لبیک کہتے ہیں؟ اپنے آقا و مولا کا کتنا ساتھ دے رہے ہیں؟ تو سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، کیونکہ حالات آج بھی وہی منظر دکھا رہے ہیں، جو چودہ سو سال پہلے تھے۔
خبر کا کوڈ : 1126063
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش