0
Tuesday 5 Jan 2010 14:31

مغرب کو ایران کا الٹی میٹم

مغرب کو ایران کا الٹی میٹم
آر اے سید 
اسلامی جمہوریۂ ایران کے وزير خارجہ منوچہر متکی نے اتوار کے دن ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے تہران کے تحقیقی ری ایکٹر کے لئے افزودہ یورینیم فراہم نہ کیا تو ایران اسے مقامی سطح پر تیار کرنے کا آغاز کر دے گا۔وزیر خارجہ منوچہر متکی نے مغربی ممالک کو ایک مہینے یعنی جنوری کے اختتام تک کا الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر انہوں نے دو راستوں یعنی افزودہ یورینیم کی فروخت یا ایران کے کم افزودہ یورینیم کو بیس فیصد افزودہ یورینیم سے تبدیل نہ کیا تو ایران یورینیم کی افزودگی کا کام ملک کے اندر ہی شروع کر دے گا۔امریکہ اور اس کے حواری ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے شروع ہی سے معاندانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔وہ مختلف حیلے بہانوں سے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو متنازعہ بنانے نیز ایران کے ایٹمی شعبے کی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔انقلاب کی گزشتہ تیس سالہ تاریخ کا اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو امریکہ کی اسلامی انقلاب سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔امریکہ نے اسلامی انقلاب کو ختم کرنے نیز مختلف شعبوں میں ایران کی ترقی و پیشرفت کو روکنے کی متعدد کوششیں کی ہیں اس حوالے سے جہاں سیاسی اور فوجی میدان میں امریکہ نے سر توڑ کوششیں کی ہیں ان میں ایک مسئلہ ایران کا پرامن ایٹمی پروگرام بھی ہے۔ ایران پر جنگ مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ انواع و اقسام کی تجارتی اور اقتصادی پابندیاں بھی عائد کی گئیں لیکن یہ تمام کوششیں نقش برآب ثابت ہوئیں اور ایران نے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایران کا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ وہ ایٹمی توانائی کو صرف پرامن مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن امریکہ اور اس کے حواریوں نے ایران کے کئی بار کے اعلان کے باوجود اس کو تسلیم نہیں کیا اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔امریکہ نے کبھی ایٹمی توانائي کے عالمی ادارے آئی اے ای اے اور کبھی سیکوریٹی کونسل کے ذریعے ایران کے ایٹمی پروگرام کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔لیکن ایران کی حکومت اور عوام نے ایٹمی حقوق سے کبھی بھی دستبرداری کا اعلان نہیں کیا اور ہمیشہ یہ اعلان کیا ہے کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول ایران کا مسلمہ حق ہے۔
ایران نے ایک موقع پر رضاکارانہ بنیاد پر یورینیم کی افزودگی کو روکنے کے مغرب کے معاہدے پر بھی عمل کیا۔لیکن اس کے جواب میں مغربی ممالک نے ایران کو دھوکے اور فریب کے علاوہ کچھ نہ دیا۔کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے تحت مغربی دنیا نے ایران کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ اپنے کم افزودہ یورینیم کو ہمارے حوالے کر دے تو ہم بیس فیصد افزودہ یورینیم ایران کو واپس کر دیں گے۔اسلامی جمہوریۂ ایران نے مغربی ممالک کی اس تجویز کو قبول کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایران اپنے کم افزودہ یورینیم کو حوالے کرنے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ یورینیم کا یہ تبادلہ ایران کے اندر انجام پائے ۔ایرانی حکام نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ہمارے پاس ایسی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ہم اپنا یورینیم مغربی ملکوں کے حوالے کر دیں اور جواب میں یہ ممالک اسکو افزودہ کر کے ہمیں واپس بھی کریں کیونکہ ان ممالک کا ریکارڈ خراب رہا ہے اور انہوں نے اپنے وعدے کبھی پورے نہیں کئے۔یوں بھی ایران آئی اے ای اے کا رکن ہے اور آئی اے ای اے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تہران کے تحقیقی ری ایکٹر کے لئے مطلوبہ ایندھن فراہم کرے۔ایران کی اس تجویز کے جواب میں امریکہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایران نے اپنا چار سو ٹن یورینیم مغربی ممالک کے حوالے نہ کیا تو امریکہ ایران کے خلاف مزيد سخت پابندیاں لگانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنائے گا۔امریکہ کی اس دھمکی کے جواب میں وزير خارجہ منوچہر متکی نے یہ کہا ہے کہ مغربی ممالک ہمیں مہلت دینے کی بجائے ہمارے الٹی میٹم پر غور کریں کیونکہ اگر انہوں نے جنوری کے اختتام تک ایران سے یورینیم کا تبادلہ یا ایران کو بیس فیصد افزودہ یورینیم فروخت نہ کیا تو ہم افزودگي کا عمل اپنے ملک میں شروع کر دیں گے۔ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکہ اور مغرب کی دوغلی پالیسی اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اسرائیل جو این پی ٹی کا رکن بھی نہیں ہے اور اس کے پاس سینکڑوں ایٹمی وار ہیڈ بھی موجود ہیں امریکہ سمیت کوئی بھی ملک اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا جبکہ ایران نے نہ صرف این پی ٹی معاہدے پر عمل کیا ہے بلکہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے سے بھی ہمیشہ تعاون کیا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری اسرائيل کو ہر طرح کی مراعات دینے کے لئے تیار ہیں حالانکہ وہ مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کے لئے واضح خطرہ ہے اسی طرح امریکہ ہندوستان کے ساتھ سول ایٹمی معاہدے کرنے میں ذرا برابر جھجک محسوس نہیں کرتا حالانکہ وہ این پی ٹی کا ممبر بھی نہیں ہے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی نیز امریکی سیاست پر قابض صیہونی ٹولے کی حقیقت اور ذہنیت کا ادراک کرنے والے اکثر تجزيہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام ایک بہانہ ہے۔امریکہ اس انقلابی حکومت کو دباؤ میں رکھ کر اپنی تسلط پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔امریکی پالیسی ساز اداروں نے سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد پوری دنیا پر یک قطبی نظام مسلط کرنے کی کوشش کی،لیکن ایران کے اسلامی انقلاب اور اسکے افکار نے امریکہ کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا۔ایران کی حکومت نہ صرف امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں کے سامنے  نہیں جھکی بلکہ اس نے لاشرقیہ اور لاغربیہ کا نعرہ دیکر دنیا کی دوسری ملتوں کو بھی بیدار کر دیا۔آج امریکہ کی بغل میں لاطینی امریکہ کے ملکوں میں امریکی پالیسیوں کے خلاف جو نفرت پائي جاتی ہے وہ ایرانی انقلاب کے اثرات میں سے ایک ہے۔امریکہ نے دنیا پر تسلط جمانے اور ایران کو ڈرانے دھمکانے کے لئے ایران کے ہمسایہ ممالک عراق اور افغانستان کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا وہ ایران کا محاصرہ کر کے اسے اپنے دباؤ میں رکھنا چاہتا تھا۔لیکن امریکی پالیسی سازوں کے غلط اندازوں نے امریکہ کو افغانستان اور عراق کے دلدل میں ایسا پھنسا دیا ہے کہ اب وہ چاہے بھی تو اس سے عزّت اور کامیابی سے باہر نہیں آسکتا۔بہرحال اسلامی جمہوریۂ ایران کے وزیر خارجہ منوچہر متکی نے امریکہ اور اسکے ہمنوا مغربی ممالک کو ایک مہینے کا الٹی میٹم دیکر ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ایران نے نہ ماضی میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور نہ اب کریگا اور ایرانی قوم اور حکومت امریکہ کی گیدڑ بھبکیوں سے متاثر ہوئے بغیر ترقی و پیشرفت کے راستے کو جاری و ساری رکھے گي۔
خبر کا کوڈ : 18022
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش