0
Monday 11 Nov 2013 22:05

عقیدت کے پھول (حصہ اول)

عقیدت کے پھول (حصہ اول)
ترتیب و جمع آوری: ایس ایچ بنگش

معرکہ حق و باطل کربلا کا ذکر دنیا بھر کی تمام زبانوں و ادب اور شاعری کی کتابوں میں ملتا ہے۔ یہ اعزاز صرف سید الشہداء امام حسین و کربلا کو حاصل ہے کہ کربلا نے ادب و شاعری کو کئی اصناف جیسے مرثیہ، نوحہ، قصیدہ سوز و سلام عطا کئے۔ یہ اصناف کربلا ہی کے مرہون منت ہیں۔ اسلئے سید الشہداء امام حسین (ع) و کربلا کا احسان نہ صرف دنیا بھر کے انسانوں پر ہے بلکہ ادب و شاعری پر بھی ہے۔ اسلئے تو شاعر نے کہا تھا۔

انسان کو بیدار تو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین


غلام محمد قاصر:

جو پیاس وسعت میں بےکراں ہے سلام اس پر
فرات جس کی طرف رواں ہے سلام اس پر

سبھی کنارے اسی کی جانب کریں اشارے
جو کشتی حق کا بادباں ہے سلام اس پر

جو پھول تیغِ اصول سے ہر خزاں کو کاٹیں
وہ ایسے پھولوں کا پاسباں ہے سلام اس پر


مری زمینوں کو اب نہیں خوفِ بے ردائی
جو ان زمینوں کا آسماں ہے سلام اس پر

ہر اک غلامی ہے آدمیّت کی ناتمامی
وہ حریّت کا مزاج داں ہے سلام اس پر

حیات بن کر فنا کے تیروں میں ضوفشاں ہے
جو سب ضمیروں میں ضوفشاں ہے سلام اس پر

کبھی چراغِ حرم کبھی صبح کا ستارہ
وہ رات میں دن کا ترجماں ہے سلام اس پر


میں جلتے جسموں نئے طلسموں میں گِھر چکا ہوں
وہ ابرِ رحمت ہے سائباں ہے سلام اس پر

شفق میں جھلکے کہ گردنِ اہلِ حق سے چھلکے
لہو تمہارا جہاں جہاں ہے سلام اس پر


علامہ اقبال:
علامہ اقبال نے سن اکسٹھ ہجری کی یزیدیت کو بےنقاب کرتے ہوئے فرمایا،

عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ
کٹا حسین کا سر نعرہ تکبیر کے ساتھ


اسی طرح آج کے دور اکیسیویں صدی کے یزید وقت امریکہ کے ایجنٹ القاعدہ، طالبان و سپاہ یزید کی صورت میں ہیں، ان خوارج و یزیدان عصر کی اسلام دشمنی اور فتنہ کے بارے میں بھی اقبال نے پیشن گوئی کی تھی، اور یوں برملا اظہار کیا تھا۔

ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ


عقل گوید شاد شو آباد شو
عشق گوید بنده شو آزاد شو

عشق را آرام جان حریت است
ناقه اش را ساربان حریت است


آن شنیدستی که هنگام نبرد
عشق با عقل و ہوس پرور چه کرد

آن امام عاشقان پور بتول
سرو آزادی ز بستان رسول

الله الله بای بسم الله پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر


بهر آن شهزاده ی خیر الملل
دوش ختم المرسلین نعم الجمل

سرخ رو عشق غیور از خون او
شوخی این مصرع از مضمون او


درمیان امت ان کیوان جناب
ہمچو حرف قل هو الله در کتاب

موسی و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آید پدید

زنده حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است


چون خلافت رشته از قرآن گسیخت
حریت را زهر اندر کام ریخت

خاست آن سر جلوه ی خیرالامم
چون سحاب قبله باران در قدم

بر زمین کربلا بارید و رفت
لاله در ویرانه ها کارید و رفت


تاقیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد

بهر حق در خاک و خون غلتیده است
پس بنای لااله گردیده است

مدعایش سلطنت بودی اگر
خود نکردی با چنین سامان سفر


جوش ملیح آبادی:

کیا صرف مسلمان کو پیارے ہیں حسین
چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسین


انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین


معین الدین چشتی:

شاه است حسین پادشاه است حسین
دین است حسین دین پناه است حسین

سر داد نداد دست در دست یزید
حقا که بنائے لا الہ است حسین


امام حسین علیہ السلام:

نانک چند نانک لکھنوی ہندوستان کا ایک مشہور ہندو شاعر

نقش جمیل حسنِ نبوت حسین ہے
روشن چراغ قصر رسالت حسین ہے

درِّ ثمین درج کرامت حسین ہے
خورشید آسمان امامت حسین ہے

اسکا کوئی جواب اگر ہے جہاں میں
تو حضرت حسن ہیں اسی خاندان میں

کرب و بلا کا واقعہ آئینہ دار ہے
اسلام کے چمن میں اسی سے بہار ہے

عالم بہ رنگ صبر و رضا آشکار ہے
جو حشر تک رہے گی یہ وہ یادگار ہے

گھر بار اپنا راہ خدا میں لٹادیا

تبلیغ امر حق کے لیے سر کٹا دیا

دہن تھی شرع جلوہ پہ آئے نہ کچھ زوال
ہر لحظہ تھا حفاظت اسلام کا خیال

جب مذہب اور قوم کا پیدا ہوا سوال
بربادیوں کا دل میں نہ لائے کبھی ملال

تکمیل دین پاک کا سامان کر دیا
اکبر سے نوجوان کو قربان کر دیا

اکبر پہ کیا ہے، عون و محمد سے آفتاب
قاسم سا نوجوان مثال ابو تراب

تازہ تھا جن کے حسن سے اسلام کا شباب
ہر اک تہور اور شجاعت میں انتخاب

ان کی شہادتوں کو پریشانیوں کو دیکھ
دین کے لیے حسین کی قربانیوں کو دیکھ

اس راہ میں ہر عزیز چھٹا آشنا چھٹا
آل نبی پہ ظلم و ستم کون سا چھٹا؟

کنبہ چھٹا دیار رسول خدا چھٹا
سب کچھ ہوا نہ دامن صبر و رضا نہ چھٹا

گو دل پہ لاکھ داغ  الم لے گئے حسین
ایثار کا ہمیں یہ سبق دے گئے حسین

ہٹنے نہ پائے جادہ حق سے کبھی قدم
آنے نہ پائے دل میں کبھی مصائب کا کوئی غم

برسائیں آسمان اگر ناوکِ ستم
دم لے نہ ایک دم، رہے جب تک دم میں دم

زخم گلوئے اصغر بے شیر دیکھ لے
قربانی حسین کی تصویر دیکھ لے


غازہ ہے حسن حق کا شہادت حسین کی
اسلام کے چمن میں ہے نزہت حسین کی

روشن ہے مثل مہر امامت حسین کی
کم ہو گی تا بہ حشر نہ دولت حسین کی

تھا خاص سلسلہ جو رسول خدا کے ساتھ
دین خدا بچا لیا صبر و رضا کے ساتھ

کیا تبصرہ ہو راز و نیاز حسین پر
نازاں ہے کائنات نماز حسین پر

قرباں حقیقتیں ہیں مجاز حسین پر
نغمہ سرا جہاں ہے ساز حسین پر

نیرنگیوں کا رنگ عجب دیکھتا ہوں میں
افسوس تجھ کو مہر بہ لب دیکھتا ہوں میں

دعوٰی تو یہ شراب محبت سے چور ہے
پھر کس لیے حسن کی منزل سے دور ہے؟

پست میں تو ہے چرخ پہ فرق غرور ہے
جوش ولولہ ہے اور نہ وفا کا شعور ہے


ہے روح کو سکوں نہ ترے دل کو چین ہے
پھر کس لیے زبان پہ نام حسین ہے؟

عاشق ہے تو حسین کے نقش قدم پہ چل
چاہے خوشی تو جادہ رنج و الم پہ چل
جو وہ بتا گئے ہیں اسی راہ غم پہ چل
سر کا خیال چھوڑ دے تیغ ستم پہ چل


دنیا کی کلفتوں کو مسرت سے جیت لے
اٹھ معرکہ حسین کی صورت سے جیت لے

دنیا ہے رنگ  کرب و بلا میں رنگی ہوئی
شکل وفا ہے آج جفا میں رنگی ہوئی
ہے کائنات حسنِ فضا میں رنگی ہوئی
کفنی پہن لے صبر و رضا میں رنگی ہوئی


دیوانہ بن، حسین کی ایسی ادا بنا
اپنے لہو کے داغ کو قبلہ نما بنا

لے روشنی، جمال حسین شہید سے
لے تازگی، خیال حسین شہید سے
لے زندگی، وصال حسین شہید سے
لے چاندنی جلال حسین شہید سے

نام حسین آج بھی تابانیوں میں ہے
کچھ زندگی کا لطف پریشانیوں میں ہے

بنتا ہے تو غلام حسین شہید کا
پیتا ہے روز جام حسین شہید کا
رہتا ہے لب پہ نام حسین شہید کا
سمجھا نہیں پیام حسین شہید کا
خود کام اپنے کام میں تو شاد کام ہے
ہے مبتلا ہوس میں، محبت کا نام ہے
مخفی نہیں ہے راز حسین شہید کا
حق نے اٹھایا ناز حسین شہید کا
یہ سلسلہ دراز حسین شہید کا
ہے نام حق  نماز حسین شہید کا

واللہ زیرتیغ بھی سجدہ ادا کیا
تو ان کا نام لیوا ہے اور تونے کیا کیا؟

ہے جن کی چشم شوق میں رعنائی حسین
ڈرتے نہیں بلا سے وہ سودائی حسین
اعداء کا وہ ہجوم، وہ تنہائی حسین
مجلس میں کہہ رہے ہیں یہ شیدائی حسین

نانک نے کربلا کا مرقع دکھا دیا
نظم آج وہ پڑھی کہ کلیجا ہلا دیا


جبین کائنات ہندوستان کے مشہور اور معروف ہندو شاعر اہلبیت (ع) جناب مرحوم ماتھر لکھنوی کا کلام:

یہ حقیقت یہ بلندی اور یہ شان حسین
بن گیا اسلام کی بنیاد ایمان حسین
کربلا کی جلوہ گہہ یا ہے میدان حسین
معرفت کی انتہا ہے نور ایمان حسین
عصر کو عاشور کی کیونکر نہ ہو جاتا وفا
وعدہ پیغمبری تھا عہد و پیمان حسین
جھکتے جھکتے جھک گئی در پر جبین کائنات
رفتہ رفتہ ہو گیا تعمیر ایوان حسین
فہم انسان سے بھی اونچی ہیں یقیں کی منزلیں
حد امکان بنی ہے حد امکان حسین
سر بسجدہ ہیں پیمبر اور نواسہ پشت پر

اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی بھلا شان حسین
بہتی دھاروں میں لہو کی رفتہ رفتہ ڈوب کر
خوشنما ہوتی گئی زلف پریشان حسین
اب تو کوئی قوم بھی باہر نکل سکتی نہیں
چھا گیا خالق کی رحمت بن کے دامان حسین
آنسوؤں میں روح غم اور دل میں حق کی روشنی

ضوفشاں ہے آج بھی شمع شبستان حسین
ڈوب کر خون وفا میں بن گیا اک یادگار
ہے شفق کے رنگ میں عکس گریبان حسین
آیتیں نیزے پہ پڑھ کے کر دیا حق کو بلند
اب کلام اللہ ہے لیکن بعنوان حسین
دو وسیلے ہیں گنہگاران امت کے لیے
حضرت زینب کی چادر اور دامان حسین
جلوے یک جا ہو رہے ہیں قلب ماتھر کے لیے
روشنی پہونچا رہی ہے شمع عرفان حسین


نام حسین(ع)

حسین نام ہے باغ وفا کی نکہت کا
حسین نام ہے ہر پھول سے محبت کا
دوبارہ دین محمد نے زندگی پائی
حسین نام ہے اسلام کی حفاظت کا
بدل دیا تھا لہو نے نظام کون و مکاں
حسین نام ہے عاشور کی قیامت کا
بلندیاں ہیں انہیں کی ولا سے وابستہ
حسین نام ہے دونوں جہاں کی عظمت کا
یہی سمجھ کے تو آئے تھے دہر میں آدم
حسین نام ہے انسان کی خلافت کا
نہ ہوتے یہ تو نہ ہوتا جہاں میں دین خدا
حسین نام ہے توحید کی قدامت کا
خدا کا شکر مصیبت سے بچ گیا اسلام
حسین نام ہے رد بلائے بیعت کا
بلند نیزے پہ جنبش لبوں کی کہتی ہے
حسین نام ہے قرآن کی فصاحت کا
حسینیت نے دہائی ہے شرک کی طاقت
حسین نام ہے معبود تیری وحدت کا
وہ جذب جس میں کہ مذہب کی کوئی قید نہیں
حسین نام ہے انسان سے محبت کا
نہ سمجھے کوئی مگر ہم سمجھتے ہیں ماتھر
حسین نام ہے اسلام کی صداقت کا

قطعہ

یہ روز روز کا جھگڑا تمام ہو جائے
ہر اک شریک عزائے امام ہو جائے
یہ فرقہ وار فسادات ہو نہیں سکتے
اگر حسین کی تعلیم عام ہو جائے


نوحہ
ذوالفقار نقوی


علی کی بیٹی ہے سر برہنہ، نبی کی عترت یوں دربدر ہے
بتا مسلماں ہے کیسی اجرت، رسول کو کیا دیا ثمر ہے

دہائی دیتی ہیں بنت حیدر ،خرد سے لے کام تو اے ظالم
لگائی ہے جس کو آگ تم نے، وہی تمہارے بنی کا گھر ہے

گلے میں عابد کے طوق ڈالا، ترس نہ بیمار پر بھی کھایا
اجاڑ ڈالا جو بن میں لاکر، وہ ساری دنیا کا راہبر ہے

جلایا تم نے ہے جسکا کرتا، جسے اندھیرے میں تم نے ڈالا
علی کی پوتی ہے اے لعینو، وہ دختر شاہ بحر و بر ہے

ہے نوک نیزہ پہ جس کی گردن، وہی ہے اسلام کا محافظ
اسی نے ظلمت سے دیں نکالا ،اسی سے حق کی ہوئی سحر ہے

جو نخل ایماں بے آب دیکھا، کی آب یاری لہو سے اپنے
نہ کوئی آندھی گرا سکے گی، یہ ایسا سینچا ہوا شجر ہے

جگر کے ٹکرے ہیں مصطفی کے، جو دشت میں تم ہو گھیر لائے
دیا ہے قرآن جس نے تم کو، اسی پہ خنجر ہے اور تبر ہے

صدائے ھل من پہ کربلا میں، بڑھا مسلماں نہ کوئی آگے
گرا جو جھولے سے بہر نصرت ،وہ شہہ کا ننھا سا اک پسر ہے

لبوں کی جنبش سے جس نے اپنی، یزیدی فوجوں کا پلٹا لشکر
دکھائے جس نے علی کے تیور، وہ بحر الفت کا اک گہر ہے

بڑے ہی نازوں سے جس کو پالا، حسین کی غمزدہ بہن نے
گرا یوں گھوڑے سے کھا کے برچھی ،کہ پارہ پارہ ہوا جگر ہے

وہ شہ کی بیٹی کے سر کا سایہ، وہ ام فروہ کے دل کا ٹکڑا
ہوا ہے پامال جس کا لاشہ ،یتیم شبر ہے بے پدر ہے

حسین ابن علی کے صدقہ ،کرم ہو نقوی پہ بھی خدایا
بدل دے ظلمت کو روشنی میں، رموز حق سے یہ بے خبر ہے

(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 319887
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش