0
Saturday 26 Sep 2015 12:50

احساس۔۔۔ عید کا ایک فراموش شدہ پہلو

احساس۔۔۔ عید کا ایک فراموش شدہ پہلو
تحریر: ساجد علی گوندل
Sajidaligonda88@gmail.com


احساس یعنی ایک نازک سا رشتہ، ایک ایسی ڈور کہ جو تمام موجودات عالم کو نہایت خوبصورتی سے آپس میں جوڑے ہوئے ہے۔ یہ ایک ایسا رشتہ ہے کہ شائد کوئی اس کی تعریف تو نہ کر پائے مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگر اس کو دنیا سے اٹھا لیا جائے تو نظام کائنات درہم برہم ہو کر رہ جائے، نہ زمین خزائنِ عالم کو اپنے سینے میں سمائے، نہ آسمان بطور سائباں جلوہ فگن ہو، نہ ستاروں کی وہ مسکراہٹیں رہیں اور نہ ہی سورج کی وہ تپش، نہ ہی چاند کا وہ حسن باقی ہو اور نہ ہی بلبل نغمہ سرا ہو۔ اگرچہ رشتہ احساس ہے تو ریشم کی طرح نرم و نازک مگر باوجود نزاکت کے عالم ہستی کو اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے۔

فلسفے کی رو سے کائنات میں کل تین طرح کے وجود پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ایک کو ممکن الوجود سے تعبیر کیا جاتا ہے، جبکہ ممکن الوجود ایک ایسا وسیع مفہوم ہے کہ جو کائنات کے تمام وجودات (سوائے وجود واجب و ممتنع) سب کو شامل ہے، جبکہ کائنات کے تمام موجودات میں سے سب سے اشرف و اعلٰی موجود حضرت انسان ہے کہ جس کی خلقت پر خود خداوند متعال نے ناز کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ولقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم" اور اسی طرح اگر اس اشرف المخلوخات موجود یعنی انسان کی زندگی سے رشتہ احساس کو نکال دیا جائے تو گویا یہ انسانیت سے زندگی چھیننے کے مترادف ہوگا۔

اسی افضل و اکرم مخلوق (انسان) کی زندگی میں اللہ تعالٰی نے بے شمار نعمات رکھی ہیں، اس قدر کہ ان کا شمار کرنا ممکن نہیں ، بزبان قرآن "ان تعدوا و نعمت اللہ لا تحصوھا" خداوند کی ان نعمات میں سے ایک نعمت، نعمت عید ہے۔ لفظ عید، عود مصدر سے ہے کہ جس کے معنی بار بار آنے کے ہیں، یعنی کسی چیز کا بار بار آنا۔ عید اصل میں احساس انسانیت ہی کا دوسرا نام ہے، خداوند متعال نے اس خاص احساس کو عید کا نام اس لئے دیا، تاکہ یہ احساس بار بار انسان کی زندگی میں آئے اور وہ فرائض و ذمہ داریاں کہ جو غفلت انسانی کی نذر ہوگئیں یا پھر جان بوجھ کر انسان نے ان سے منہ موڑ لیا ہے، ان کو  یاد دلائے۔ عید چاہے عید فطر ہو یا قربان ہر دو صورت میں انسان کو اس کے فراموش کردہ احساسات  کی یاد دلاتی ہے، چاہے وہ احساس و ذمہ داری فردی ہو یا معاشرتی۔

آج کا انسان مادیت میں کچھ اس طرح غرق ہوچکا ہے کہ مال، دولت و شہرت طلبی کی ہوس نے اسے  اپنے بھی بھلا رکھے ہیں۔ لہذا عید کا بار بار انسانی زندگی میں لوٹ کر آنا، اسے اپنوں کی یاد دلاتی ہے، اس میں ایک نیا احساس پیدا کرتی ہے۔ اپنے بھلائے ہوئے ہمسائے کا  احساس، اپنے محلے کے یتیموں کا احساس، اپنے اردگرد بہت سارے ضرورت مندوں کا احساس، اس معصوم بچی کا احساس کہ جو معاشرے کی ایجاد کردہ لعنت جہیز کے نہ ہونے کی وجہ سے گھر بیٹی ہے۔ غریب کے ان بچوں کا احساس کہ جو رات کو بھوکے پیٹ سو جاتے ہیں، اپنے اس نادار بھائی کا احساس کہ جس کے گھر عید پہ بھی دال بنتی ہے۔ لہذا عید اپنوں اور غیروں کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے، عید ملک قوم کی فلاح و بہبود میں اپنا فردی و اجتماعی حصہ ڈالنے کا نام ہے۔

عید فقط سیر و تفریح کا دن نہیں بلکہ عید وہ دن ہے کہ جس دن ہم ذلت سے نکل کر عزت کا راستہ اختیار کریں۔ عید کا دن اپنوں، اپنے وطن، اپنی افواج پاکستان سے قریب ہونے و اپنے دشمن امریکہ، اسرائیل و آلسعود فکر کے حامل طالبان (کہ جو اسلام کے اصلی چہرے و اسلام ناب محمدیﷺ کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں) سے بیزاری کا دن ہے۔ لہذا عید کے دن انسان ترقی و تکامل کی طرف سفر شروع کرے نہ کہ اس باعظمت دن خدا کی حدود کو پامال کیا جائے۔ جیسا کہ حضرت علیؑ کا ارشاد گرامی ہے کہ "انسان کے لئے ہر وہ دن عید کا دن ہے کہ جس دن وہ نافرمانی خدا سے دور رہے۔"

لہذا آج انسانی دنیا میں احساس ایک متروک اور فراموش شدہ مفہوم ہے کہ جسے زندہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ معاشرے کی وہ ذمہ داریاں، ضروریات اور انسانی احساسات کہ جنہیں آج معاشرے نے اپنے قدموں تلے روند دیا ہے، انھیں دوبارہ زندہ کیا جاسکے اور نتیجتاً معاشرے کی تمام برائیوں کا سدباب ہوسکے۔ المختصر یہ کہ انسانی تمدّن میں مرتے ہوئے انسانی جذبات و احساسات کو زندہ کرکے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بطریقِ احسن انجام دیا جاسکتا ہے اور دکھاوے کے مصافحے و معانقے کے بجائے حقیقی طور پر دم توڑتے رشتوں کو پھر سے جوڑا جاسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 487490
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش