0
Monday 7 Dec 2015 09:36

امریکہ میں دہشتگردی کا ذمہ دار بھی امریکہ ہی ہے

امریکہ میں دہشتگردی کا ذمہ دار بھی امریکہ ہی ہے
تحریر: ابو فجر لاہوری

مغرب کی طرف سے مشرق میں لگائی جانیوالی آگ آج ان کی اپنی دہلیز پر پہنچ چکی ہے۔ امریکہ ہو یا فرانس، جن دہشتگردوں نے بھی حملے کئے ہیں وہ امریکہ کے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں، طالبان ہوں یا القاعدہ، داعش ہو یا کوئی اور گروہ، سب کے سب "میڈ اِن یو ایس اے" ہیں۔ مکافات عمل تو کائناتی قانون ہے جس سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا۔ اب امریکی ریاست کیلی فورنیا میں فائرنگ کے ہونے والے واقعہ میں 14 افراد کی ہلاکت کے بعد امریکی تحقیقاتی ادارے حرکت میں آ گئے ہیں۔ امریکی اداروں کے مطابق وہ ابتدائی تفتیش کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ دہشتگردی کا واقعہ تھا۔ اس کے بعد امریکی انتظامیہ بھی اس واقعہ کے حوالے سے فعال ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تینوں ملکوں امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان میں یہ پتا چلانے کی کوشش کی گئی کہ اس واقعہ میں ملوث میاں بیوی دراصل کون تھے اور وہ دہشتگردوں کے ساتھی کیسے بنے؟ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق یہ دونوں امریکی باشندے تھے جو دہشتگردی کے واقعہ کے فوراً بعد پولیس فائرنگ میں مارے گئے۔ ان میں سید رضوان فاروق اور تاشفین ملک شامل ہیں۔

رضوان فاروق امریکی محکمہ صحت میں ہیلتھ انسپکٹر کی حیثیت سے ملازم تھا اور اس کی طرف سے فائرنگ اپنے رفقاء کار پر کی گئی جو ان کی کاؤنٹی کے، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے زیراہتمام ٹریننگ کے حوالے سے ایک سوشل سروسز سنٹر میں موجود تھے۔ اس کیس کی تحقیقات ایف بی آئی کر رہی ہے۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ سید رضوان فاروق اور تاشفین ملک نے حملہ کمانڈو طرز پر کیا۔ انہوں نے ماسک پہن رکھے تھے، فوجی قسم کی جیکٹیں بھی پہنی ہوئی تھیں۔ ان کے ہاتھوں میں رائفلیں اور دستی بم تھے۔ امریکی حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں متوسط طبقے کی آبادی میں رضوان فاروق کے گھر سے 12 پائپ بم اور سیکڑوں گولیاں ملیں۔ اگر یہ سب کچھ درست ہے، تو پھر اس کی ذمہ داری امریکی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان پر نہیں۔ جہاں یہ خاتون کبھی رہا کرتی تھی۔ اب وہ ایک مدت سے امریکی شہری تھے۔ ان کی منفی سرگرمیوں کی ذمہ داری خود امریکہ کو قبول کرنی چاہیئے۔ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ تاشفین ملک پیدا پاکستان میں ضرور ہوئی تھی، مگر بعد ازاں طویل عرصہ سعودی عرب میں رہی اور پھر سید رضوان فاروق سے شادی کے بعد امریکی شہری بن گئی۔ اس سلسلے میں امریکی حکام نے تمام کارروائی ضوابط کے مطابق مکمل کی تھی۔

جب امریکہ نے دہشتگردی کے اس واقعہ کی تحقیقات کا دائرہ سعودی عرب اور پاکستان تک پھیلایا تو سعودی حکام نے صفائی پیش کی کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق تاشفین ملک کا نہ تو کبھی کسی جنگجو گروپ سے کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی اس کا نام دہشتگردی کے حوالے سے زیر نگرانی رکھے جانے والے افراد کی کسی فہرست میں کبھی رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دہشتگردی کی راہ پر امریکہ میں رہتے ہوئے امریکی شہری کی حیثیت سے چلے۔ امریکہ کو اسی طرح کا جواب پاکستانی اداروں کو بھی دینا چاہیئے نہ کہ خوف زدہ ہو کر بھیگی بلی بننا چاہیئے۔ امریکی معاشرے میں ہتھیاروں کی بہتات ہو گئی ہے اور اب وہاں ان کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ کچھ برسوں سے وہاں ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جن میں عام شہریوں نے فائرنگ کرکے اپنے ہم وطنوں کی جانیں لے لیں۔ امریکہ کے صرف تعلیمی اداروں کی بات کریں تو 2015ء کے گیارہ مہینوں میں وہاں کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں فائرنگ کے 52 واقعات ہوئے جن میں 30 افراد ہلاک اور 53 زخمی ہو گئے۔ یہ صورتحال امریکی انتظامیہ کیلئے بڑی پریشان کن ہے۔ وہاں ہونیوالے دہشتگردی کے واقعات کی ذمہ داری بھی اسی پر ہے۔ یہ ذمہ داری پاکستان پر تھوپنا کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 503155
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش