2
0
Saturday 19 Dec 2015 15:00

نیا فوجی اتحاد، کھودا پہاڑ۔۔۔

نیا فوجی اتحاد، کھودا پہاڑ۔۔۔
تحریر: ثاقب اکبر

گذشتہ منگل (15 دسمبر 2015ء) کو ریاض میں رواں سال کا آخری تحفہ عالم انسانیت کو پیش کیا گیا اور وہ ہے ’’سعودی قیادت میں 34 اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد۔‘‘ اس اتحاد کے بارے میں طرح طرح کے تبصروں اور چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ طرح طرح کے کارٹون اور لطیفے بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ کوئی شخص یا کوئی گروہ بیٹھا اس اتحاد کے بارے میں لطیفہ سازی کر رہا ہے بلکہ یہ سارے لطیفے اور کارٹون خود اس اتحاد کے اندر ہی سے برآمد ہو رہے ہیں۔ اس لحاظ سے اس اتحاد کو چھیڑ خوباں سے چلی جائے کی دعوت میں خود کفیل سمجھا جانا چاہیئے۔ آیئے ذرا ان لطائف پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

جب اچانک اس کی خبر پاکستان پہنچی تو سیکرٹری خارجہ نے بے ساختہ اس پر حیرت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاض نے اسلام آباد کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا۔ بعدازاں ’’بڑے میاں‘‘ نے احسان فراموشی کے طعنے سے بچنے کے لئے گوشمالی کی تو آئیں بائیں شائیں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور جس دفتر وزارت کے سربراہ کو اس خبر پر حیرت تھی، اس کے ترجمان نے ایسا بیان دیا کہ ایک نیا لطیفہ پیدا ہوگیا۔ انہوں نے اتحاد میں شمولیت کا شرماتے شرماتے اقرار تو کیا لیکن اس دلہن کی طرح جس سے پوچھا گیا کہ کیا تمھیں یہ دولہا قبول ہے تو اس نے کہا: آپ کہتے ہیں تو پھر قبول ہی ہے لیکن اس دولہے کے ساتھ مجھے جانا کہاں ہے اور کرنا کیا ہے؟ اگر ہماری بات پر اعتبار نہ ہو تو قاضی خلیل کا یہ بیان پڑھ لیجیے: ’’پاکستان اس اتحاد کا باقاعدہ رکن ہے، تاہم سعودی حکومت سے اتحاد میں پاکستان کے ممکنہ کردار کے بارے میں مزید تفصیلات طلب کی ہیں۔‘‘ گویا کرنا کیا ہے یہ ابھی بابا جان سے پوچھنا ہے۔

کسی منچلے نے اس اتحاد کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’جو دے اس کا بھی بھلا، جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔‘‘ اگر آپ کو اس جملے پر حیرت ہوئی ہے تو یہ حیرت آپ کی سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر کی اس وضاحت کے بعد دور ہو جائے گی۔ ’’اتحاد میں شامل کئے جانے والے ممالک اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے خود فیصلہ کریں گے۔ اس اتحاد کا مقصد سکیورٹی تعاون کے لئے ایک پلیٹ فارم دینا ہے، جس میں ٹریننگ ساز و سامان، فوج اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لئے مذہبی راہنماؤں کی فراہمی شامل ہے۔‘‘ گویا سب نے اپنی اپنی مرضی کرنا ہے۔ یہ بیان پڑھ کر ہمیں بے ساختہ اس مضمون کا عنوان سوجھا ہے، جسے ہم نے نامکمل اس لئے چھوڑ دیا کہ ہمیں اپنے قارئین کی سوجھ بوجھ پر بھروسا ہے۔ قارئین کی مزید تشفی کے لئے انڈونیشیا کا بیان بھی پیش کیا جاسکتا ہے، جسے اتحاد میں شامل کیا گیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ غور کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرے گا۔

مختلف ملکوں میں مختلف عہدیداروں کے مختلف بیانات اسی طرح سامنے آرہے ہیں جیسے پاکستان میں منظر عام پر آئے ہیں۔ اس سلسلے میں لبنان کی مثال بھی دلچسپ ہے جس کے ’’عیسائی صدر‘‘ نے اس ’’اسلامی اتحاد‘‘ کا خیر مقدم کیا ہے اور ’’مسلمان وزیر خارجہ‘‘ نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ 34 کے عدد میں یمن اور فلسطین بھی شامل ہیں۔ ان دونوں ممالک کے حوالے سے تبصرہ کرنے میں وسعت اللہ خان ہم پر بازی لے گئے ہیں۔ ان کا تبصرہ جنھوں نے پڑھا ہے ان کے لئے قند مکرر کی حیثیت رکھتا ہے: ’’البتہ فہرست میں یمن ضرور شامل ہے، جس کی حکومت کے بارے میں یہی طے نہیں کہ آج کے دن ریاض میں قیام پذیر ہے یا کل عدن میں نمودار ہوگی اور جو اتحاد ابھی بنا ہی نہیں، اسی کے چھ رکن ممالک اپنے ہی مجوزہ اتحادی (یمن) پر مسلسل حملے کئے چلے جا رہے ہیں۔ 34 ممالک کی فہرست میں مملکتِ فلسطین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ جانے بغیر کہ باقاعدہ مسلح افواج اور طے شدہ سرحدوں سے محروم فلسطین اس مجوزہ اتحاد میں کیا نچوڑے گا۔"

یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ یہ وہی مظلوم مملکت فلسطین ہے جس کی آزادی کے لئے آج تک سعودی عرب نے کسی فوجی حکمت عملی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ مختلف ممالک میں فوجی کارروائیاں انجام دینے والے سعودی عرب نے آج تک ایک گولی بھی اسرائیل کے خلاف نہیں چلائی اور نہ ایک گولی دے کر فلسطینیوں کی مدد کی ہے۔ ہمیشہ اس نے فلسطینیوں کو وہ گولی دی ہے جو ہمارے قارئین سمجھ گئے ہوں گے۔ اس فہرست میں اس کا نام شامل کرنا بھی گولی دینے ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ شاید آپ سمجھتے ہوں کہ 34 کی فہرست میں شامل ترکی ایک بہت بڑی فوجی طاقت ہے۔ جی ہاں ترکی ایک بڑی فوجی طاقت ہے، جسے امریکی صدر اوباما نے حکم دیا ہے کہ وہ عراق میں غیر قانونی طور پر بھیجے گئے اپنے فوجی دستے واپس بلائے۔ اس حوالے سے یہ سوال بڑا اہم ہے کہ ترکی اس اتحاد میں امریکہ کے ایما پر کام کرے گا یا سعودی عرب کے ایما پر؟ کیونکہ ترکی پہلے ہی اس نیٹو فوجی اتحاد کا حصہ ہے جس کی سربراہی امریکہ کے پاس ہے، جبکہ دوسری طرف ترکی کے اسرائیل کے ساتھ قریبی سفارتی، فوجی اور اقتصادی تعلقات قائم ہیں۔

اس 34 رکنی فوجی اتحاد میں بحرین کا نام بھی دلچسپی سے خالی نہیں، جہاں کی خاندانی بادشاہت کو بچانے کے لئے پہلے ہی سعودی فوج موجود ہے اور جس کے ساحلوں پر امریکہ کا پانچواں بحری بیڑا لنگر انداز ہے۔ ویسے تو کئی ایک افریقی ممالک کو اس فوجی اتحاد کی رکنیت کا شرف بخشا گیا ہے، لیکن ان دنوں نائیجیریا میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے پیش نظر نائیجیریا کا نام خاصا اہم لگتا ہے، جس کے صدر کو ’’خادم الحرمین‘‘ نے فون کرکے اپنے عوام کے قتل عام پر مبارکباد دی ہے۔ نائیجیریا کے صدر واقعی شاہی مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ وہ بوکوحرام کی نیند تو حرام نہیں کرسکے، اپنے نہتے عوام پر عرصۂ حیات انھوں نے ضرور تنگ کر دیا ہے۔ ان سارے حقائق کے بعد اگر آپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس اتحاد کے قیام پر امریکی صدر باراک اوباما نے خوشی کا اظہار کیا ہے تو آپ کو حیرت نہیں ہوگی۔ ایسے لطیفوں پر کون باذوق کھل کھلا کر نہیں ہنستا۔ اس پر تو ’’بھولی‘‘ کا تبصرہ بھی بہت دلچسپ ہے، جس نے زیادہ فری ہونے والے سے کہا :’’میں بھولی تو ہوں لیکن اتنی بھی نہیں۔‘‘
خبر کا کوڈ : 506302
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

muhammad
Iran, Islamic Republic of
very very good article
محمد علي شريفي
Iran, Islamic Republic of
بهت اچها ثاقب صاحب
ہماری پیشکش