0
Wednesday 4 Jan 2017 01:30

نام نہاد اسلامی الائنس کی سربراہی

نام نہاد اسلامی الائنس کی سربراہی
تحریر: ایس ایم شاہ

سارے مسلمان جسد واحد کی مانند ہیں، بدن کے ایک حصے میں درد ہوتا ہے تو پورا بدن بے چین ہو جاتا ہے، اللہ تعالٰی نے مسلم ممالک کو  معدنیات سے مالا مال کیا، تیل کے ذخائر بھی مسلمانوں کے حصے میں آئے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو تیل غریب مسلمانوں کے گھروں میں چولہا جلانے کا سامان ہوا کرتا تھا، آج استعماری طاقتوں کے ہتھے چڑھ کر مسلمانوں کو جلانے کے لئے اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک مسلمان ملک کا دوسرے مسلمان ملک پر حملہ آور ہونا، جو پہلے محال تصور کیا جاتا تھا، اب یہ روز کا معمول بن چکا ہے۔ مغربی طاقتیں اپنی دیرینہ دشمنی کو ظاہر کرنے کے لئے لڑاؤ اور حکومت کرو کے فارمولے پر شدت سے عمل پیرا ہیں، لیکن مسلمان ہیں جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ مغربی طاقتیں مسلمانوں کے درمیان شدت پسندی اور عسکریت پسندی کو فروغ دے کر انھیں دہشتگرد متعارف کروانے میں دن رات مصروف ہیں، انہی مقاصد کی خاطر وہ بعض عرب بادشاہوں کی ڈکٹیٹرشپ کو بھی جمہوریت کا لبادہ پہنا کر ان کی حفاظت کر رہا ہے اور اپنے مذموم مقاصد کی خاطر انھیں اپنا آلہ کار بنا کر استعمال کر رہا ہے، ان میں سعودی عرب سرفہرست ہے۔

جہاں سعودی عرب پوری دنیا میں تکفیریت اور شدت پسندی کو فروغ دے رہا ہے، وہاں امریکہ کے بااثر سنیٹر (Chris Murphy) نے وہاں  کے بڑے تھینک ٹینک میں خطاب کرتے ہوئے ایک بڑی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے، جسے کامران خان نے دنیا نیوز پر بھی پیش کیا تھا۔ اس کے بقول سعودی عرب  پاکستان میں اس وقت 24000 دینی مدارس چلا رہا  ہے، جبکہ 1956ء میں ان مدارس کی تعداد صرف 244 تھی، یہ مدارس بھرپور طریقے سے تکفیری سوچ کو پروان چڑھانے میں مصروف عمل ہیں۔ ان کے علاوہ ہزاروں دوسرے مدارس کو بھی ان کی طرف سے مالی مدد فراہم کی جا رہی ہے، ان مدارس میں عمومی طور پر عسکریت پسندی اور تشدد کی طرف باقاعدہ ترغیب دی جاتی ہے۔ 1960ء سے لے کر اب تک وہابی مکتب فکر کی ترویج کے لئے امریکہ 100 ارب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کر چکا ہے۔" سعودی عرب اس وقت شام میں براہ راست داعش کی مدد کر رہا ہے، جبکہ یمن پر ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے سے آئے روز جارحانہ حملے کر رہا ہے، جن میں ہزاروں افراد جان سے گئے ہیں، ہزاروں افراد زخمی حالت میں کسمپرسی کی حالت  پڑے ہیں، لاکھوں افراد بے گھر اور ہزاروں افراد موت و حیات کی کشمش میں زندگی گزار رہے ہیں۔

آج اسرائیلی سربراہ بھی برملا اعلان کر رہا ہے کہ ہمیں اب عرب دنیا سے کوئی خطرہ نہیں، حلب کی آزادی پر جہاں امریکہ اور یورپین ممالک میں غم کی فضا حاکم ہے، وہاں سعودی عرب سمیت ہمارے پاکستان کے طالبان اور داعش نواز وہابی فکر رکھنے والے افراد کے ہاں بھی صف ماتم بچھی ہوئی ہے، اب موصل کی فتح پر بھی یہی لوگ آہ و فغاں کے لئے تیاری کر رہے ہیں۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ داعش صرف ایک ٹولے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تنگ نظر، عسکریت اور تشدد پسند مکتب فکر کا نام ہے، عرصہ دراز سے سعودی عرب عالم اسلام کی نمائندگی میں دشمنان اسلام سے نبرد آزما ہونے کے بجائے اپنے ہی مسلمانوں کے لئے گلے کا کانٹا بنا ہوا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کے اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے، لیکن بدقسمتی سے اس کے پاس ان کو چلانے کی صلاحیت رکھنے والی فوج کا فقدان ہے، اب امریکہ اور آل سعود کی ملی بھگت سے غریب اسلامی ممالک کو یکے بعد دیگرے نشانہ بنایا جا رہا ہے، تاکہ امریکہ کا اسلحہ بھی بکے اور ظالم شہنشاہیت بھی باقی رہے، اب اس دائرے کو مزید بڑھانے کے لئے 39 ممالک پر مشتمل ایک نام نہاد اسلامی  الائنس بھی بنایا گیا ہے، جس میں سارے مسلمانوں کی نمائندگی تو دور کی بات، خود عرب کے بہت سارے ممالک اس کے سرسخت مخالف ہیں۔ گذشتہ سال جنرل راحیل شریف صاحب کو دوران ملازمت ہی اس کی سربرائی کی آفر ہوئی تھی، شاید اسی وجہ سے وہ بروقت سبکدوش بھی ہوگئے۔

جنرل راحیل شریف صاحب کو پاکستان کی پاک فوج جیسی عظیم فوج کے سپہ سالار ہونے کا موقع فراہم میسر آیا، ان کے اپنے بقول اپنی ماں کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو دہشتگردی سے نجات دلانے کا عزم لیکر میدان میں اترے، اپنی سپہ سالاری کے دور میں انھوں نے ضرب عضب  اور دوسرے آپریشنز کے ذریعے ان دہشگردوں کے دائرہ کار کو  تنگ کرنے کے لئے احسن اقدامات کئے، لیکن ایک سوال ان کے دوران ملازمت میں بھی عام پاکستانی ہونے کے حوالے سے میرے ذہن میں ہمیشہ کھٹکتا ہی رہتا تھا کہ یہ شخص بار بار سعودی عرب کا دورہ کیوں کرتا رہتا ہے، لیکن بچپنے سے پاکستان اور پاک فوج سے محبت میرے دل میں راسخ تھی، اس وجہ سے میں اس بات کو بیان کرنا نہیں چاہتا تھا، آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے کہ آج تک اتنی مختصر مدت میں کسی آرمی چیف نے سعودی عرب کے شاید ہی اتنے دورے کئے ہوں، جتنے راحیل شریف صاحب نے کئے ہیں۔ نواز شریف صاحب جب بھی وہاں کا رخ کرتے تھے، جنرل صاحب ہمیشہ ان کے ہمراہ ہی ہوتے تھے، ابھی ان  کی سبکدوشی کو  ایک ماہ سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا  تھا کہ فوراً نام نہاد خادمین حرمین شریفین کی دعوت پر لبیک کہہ کر بلا تامل وہاں چلے گئے اور سعودی قیادت میں دہشتگردوں کی حمایت میں بننے والے نام نہاد اسلامی ملٹری الائنس کے باقاعدہ سربراہ مقرر ہوگئے ہیں۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان ڈیلینگ پہلے ہی ہوچکی تھی۔

اب یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں: کیا راحیل شریف صاحب اس لئے یہ عہدہ سنبھال رہے ہیں، تاکہ عرب دنیا جو اپنے مسلمانوں بھائیوں کو نشانہ بنانے کی بجائے ان کے حملے کا رخ امریکہ اور اسرائیل کی طرف موڑ لیا جائے؟
دوسرا سوال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اب وہ خود وہاں کے فوجی سربراہ کی حیثیت سے شام میں داعش کی حمایت کو روکیں گے اور یمن کے نہتے مسلمان شہریوں پر روزانہ بموں کی برسات کو  بھی کنٹرول کر لیں گے؟
عرب الائنس میں تمام مسلمان ممالک کو شامل کرکے عالم اسلام کی ایک مشترکہ فوج تشکیل دیں گے؟ ۔۔۔
یہ سوالات سب اپنی جگہ، لیکن ظاہر حال سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی صورت متوقع نہیں، سعودی عرب جو امریکہ کا دیرینہ حامی ہے، ساتھ ہی ان کے شہزادے نے کھل کر کہا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے کی صورت میں ہم اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اچانک ان استعماری طاقتوں کو سرکوب کرنے پر تل جائیں۔ علاوہ ازیں یمن میں حوثیوں کےہاتھوں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی مسلسل شکست کے بعد ہی وہ یہ الائنس بنانے پر مجبور ہوئے ہیں، ایسے میں ہم کسی صورت راحیل شریف صاحب کے اس اقدام کے بارے میں حسن ظن نہیں رکھ سکتے۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کا یہ اقدام پاکستان کی خارجہ پالیسی پر کاری ضرب ثابت ہوگا، مزید برآں وہ فوجی سربراہ جس کے پاس پاکستان کے تمام مخفی راز ہیں، اس کا ریٹائرڈ ہوتے ہی ملک چھوڑ کر کسی اور کی خدمت کے لئے کمربستہ ہونا پاکستان کی دفاعی طاقت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

ہم بس راحیل شریف صاحب سے اتنا ہی کہہ سکتے ہیں، جناب آپ کے لئے وہاں ڈالرز اور ریال کی ریل پیل ہوگی، ہر قسم کی آسائشیں بھی میسر آئیں گی، لیکن آخر کار سب نے اسی پانچ چھ فٹ کی زمین میں سفید کپڑے کے ساتھ ہی جانا ہے۔ جب آپ اس الائنس کے سربراہ ہوں گے، تب ان کے تمام تر جرائم اور قتل و غارت کے منصوبوں میں آپ صف اول میں ہوں گے۔ آپ شام میں بے گناہ جاں بحق ہونے والے لاکھوں افراد کو کیا جواب دیں گے؟ آپ یمن کے اجڑے خاندانوں اور مہلک ہتھیاروں کے ذریعے زمین میں دھنس جانے والے بے گناہ مسلمانوں کے خون بہانے کا کیا جواز پیش کریں گے؟ آپ تکفیریوں کے ہاتھوں پاکستان میں شہید ہونے والے ساٹھ ہزار سے زائد بے گناہوں کو قیامت کے دن کیا جواب دیں گے؟ آپ دہشتگردوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر جام شہادت نوش کرنے والے آٹھ ہزار سے زائد فوجی جوانوں کو کیسے قانع کریں گے؟ آپ اپنی والدہ کو کیا جواب دیں  گے، جو تادم مرگ دہشتگردوں کے بارے میں نالاں و پریشان رہیں اور آپ کو ان کی سرکوبی کی خصوصی وصیت بھی کر گئیں۔ آپ اپنے نشان حیدر کے حامل عظیم بھائی شبیر شہید کو کیا جواب دیں گے، جو اس دھرتی کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوگئے؟ ایک پاکستانی باسی ہونے کے ناطے ہم یہی توقع رکھتے ہیں کہ راحیل شریف صاحب اپنے وقار کو برقرار رکھتے ہوئے اس استعماری لابی کا حصہ بننے کا اپنا فیصلہ فی الفور واپس لیں گے۔ یوں ان کی عزت میں بھی اضافہ ہوگا اور پاکستان کا وقار بھی بڑھے گا۔ پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد!
خبر کا کوڈ : 596911
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش