4
0
Monday 30 Jan 2017 16:30

شام کا مسئلہ سہ ملکی ضمانت کے سائے میں!

شام کا مسئلہ سہ ملکی ضمانت کے سائے میں!
تحریر: عرفان علی

شام کے حوالے سے تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ وادی بردیٰ کا اہم ترین علاقہ عین الفیجہ تکفیری دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کروا لیا گیا ہے۔ یعنی اب دمشق کے ستر لاکھ شامی شہریوں کو پانی کی فراہمی دوبارہ شروع کر دی جائے گی، کیونکہ عین الفیجہ کے چشمے سے دمشق کو پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ دمشق کے مغرب میں دیگر علاقوں کو بھی دہشت گردوں کے قید سے آزاد کروا لیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ آستانہ مذاکرات کے بعد کی کامیابیاں ہیں۔ وسطی ایشیاء کے ملک قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ’’تصفیہ شام‘‘ کے عنوان کے تحت 23 اور 24 جنوری کو دو روزہ بین الاقوامی اجلاس قزاقستان کی حکومت کی میزبانی اور روس، ایران و ترکی کی ضمانت کے سائے میں منعقد ہوا۔ یہ اہم اجلاس شام کے اہم شہر حلب کی آزادی اور سات اہم مسلح گروہوں کی جانب سے سیز فائر کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد اس لئے بلایا گیا تھا، تاکہ ان سے بات چیت کرکے اسی سیز فائر کو طول دینے اور طریقہ کار سے متعلق اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ جن سات مسلح گروہوں نے سیز فائرپر اتفاق کیا تھا، ان میں احرار الشام، جیش الاسلام، جیش المجاھدین، جیش ادلب، فیلق الشام، جبھۃ الشامیہ اور الثور الشام شامل تھیں، ان گروہوں کے مسلح دہشت گردوں کی کل تعداد ساڑھے 51 ہزار ہے۔

دو روزہ آستانہ اجلاس کے اختتام پر روس، ترکی اور ایران نے مشترکہ بیان جاری کیا۔ اس میں ان تینوں ممالک کے ماسکو اجلاس مورخہ 20 دسمبر 2016ء میں جاری کئے گئے مشترکہ بیان اور اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کی قرارداد 2336 کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ البتہ مشترکہ بیان میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ شام کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، یہ صرف سیاسی عمل کے ذریعے حل ہوسکتا ہے، جس کی بنیاد اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کی قرارداد نمبر 2254 ہے۔ مزید کہا گیا کہ تینوں (ضامن) ممالک فریقین پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے 29 دسمبر 2016ء کے سیز فائر معاہدے کے تحت اتنظامات کو یقینی بنائیں گے، جس کی حمایت سلامتی کاؤنسل کی قرارداد 2336 بھی کرتی ہے۔ سیز فائر کا مقصد متشدد کارروائیوں، انسانی حقوق و دیگر قوانین کی خلاف ورزیوں میں کمی، اعتماد کا قیام اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ اس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کی قرارداد 2165 کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ اس مشترکہ بیان کے مطابق یہ سب کام شام کے شہریوں کی حفاظت اور آزادنہ نقل و حرکت کے لئے ضروری ہیں۔ تینوں ضامن ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ سہ طرفہ میکنزم تیار کیا جائے، جس کے تحت سیز فائر کے معاہدے پر مکمل طور پر عمل کیا جائے۔ تینوں ممالک نے آستانہ اجلاس کو شامی حکومت اور اپوزیشن کے مابین براہ راست مکالمے کا موثر پلیٹ فارم قرار دیا۔ تینوں ممالک نے داعش اور جبھۃ النصرہ سے مشترکہ لڑائی لڑنے پر اتفاق کیا۔ عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ سیاسی عمل کی حمایت کریں اور یہ تینوں ممالک اقوام متحدہ کی سہولت کاری سے اس سیاسی عمل میں تعاون کریں گے، جس کی قیادت بھی شامی کریں اور جسے شامی own بھی کریں۔

آستانہ میں روسی وفد کے سربراہ الیکزینڈر لارینٹیف نے کہا کہ سہ فریقی آپریٹیو گروپ فروری سے سیز فائر مانیٹرنگ کا آغاز کر دے گا۔ اس اجلاس میں شام کے وفد کی سربراہی بشار ال جعفری کر رہے تھے جو اقوام متحدہ میں شام کے سفیر ہیں۔ آستانہ اجلاس کے اختتام پر انہوں نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے اور ان کے نمائندگان کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ آستانہ اجلاس کا مقصد سودے بازی نہیں تھا بلکہ لڑائی کا خاتمہ تھا۔ ایک مخصوص مدت کے لئے لڑائی بند کرنے پر اتفاق ہوا ہے، اس سے شامیوں کے دو فریقوں میں مکالمے کی راہ ہموار ہوگی اور یہ ایک ہدف تھا، جسے آستانہ اجلاس میں حاصل کیا گیا ہے۔ البتہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ان کے لئے پریشان کن اور دردناک بات تھی، اسی کمرے میں ان شامیوں کے ساتھ بیٹھیں کہ جو غیر ملکی ایجنڈا سے منسلک ہیں اور غیر ملکی حکام کے لئے کام کر رہے ہیں اور ان میں سے بعض دہشت گردوں سے committed ہیں۔ ایسا ماسکو اور اقوام متحدہ میں پہلے بھی ہوچکا ہے، لیکن کوئی مسئلہ نہیں، ہم یہ قیمت ادا کرکے بھی اپنے عوام اور ریاست کو بچائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ وہ یہ سب کچھ ایک مخصوص فریم ورک اور ایجنڈا کے تحت کر رہے ہیں اور کوئی چیز بغیر منصوبہ بندی کے نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا کہ سہ طرفہ میکنزم کا فارمولا شام کی حکومت کی مشاورت سے طے کیا جائے گا۔

ایران کے کردار پر مخالفین کی تنقید کے سوال پر انہوں نے کہا کہ سیاسی ایشوز پر کسی کی خوشی یا ناراضگی یا جذبات کی بجائے اصل نکتے کو دیکھا جائے اور وہ اصل نکتہ اختتامی مشترکہ بیان ہے، جو آستانہ اجلاس کے بعد جاری ہوا ہے۔ بشار ال جعفری نے کہا کہ ایران ان تین ممالک میں سے ایک ہے، جو 29 دسمبر 2016ء کے سیز فائر معاہدے کے تین ضامن ہیں اور ان دہشت گردوں نے اس معاہدے کو قبول کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ آستانہ اجلاس اور مجوزہ جنیوا اجلاس دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، کیونکہ آستانہ اجلاس صرف سیز فائر کے لئے تھا۔ آستانہ اجلاس کے بعد مخالف گروہ نے اعتراض کیا تھا کہ انہیں دہشت گرد نہ کہا جائے، جس پر بشار ال جعفری کا کہنا تھا کہ وہ گروہ جنہوں نے آستانہ اجلاس میں شرکت کی، ان کی اس شرکت کا مطلب یہی ہے کہ وہ دہشت گردی کو ختم کرتے ہوئے لڑائی بند کرنے کے عمل میں شریک ہو رہے ہیں، یعنی انہوں نے دہشت گردی کو مسترد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ داعش اور جبھۃ النصرہ کو اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دیا ہے۔ سیز فائر معاہدے کی سیاسی قیمت کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی چیز ہی نہیں سوائے سیاسی کامیابی کے اور یہ اطمینان بخش کامیابی ہے۔

البتہ انہوں نے واضح کیا کہ شام کی حکومت اور مسلح گروہوں کے مابین کوآرڈی نیشن کا میکنزم کیا ہوگا، اس کا انحصار ترکی پر ہے، کیونکہ مسلح گروہوں کی طرف سے ضامن ترکی ہے۔ ان کے مطابق سیز فائر کا دورانیہ ایک سال سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اور اس دوران فوجی ماہرین تیکنیکی تفصیلات کا فیصلہ کریں گے۔ ترکی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ مشترکہ بیان میں کئے گئے عہد پر عمل بھی کرے گا، یعنی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لڑائی لڑنے پر ترکی نے ایران اور روس کے ساتھ مشترکہ بیان میں اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی، سعودی عرب اور قطر تینوں شام میں قتل عام میں براہ راست یا بالواسطہ ملوث رہے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ تینوں ممالک شام کے بارے میں اپنی پالیسیوں اور خود اپنے عوام سے متعلق پالیسیوں کو تبدیل کریں۔ آگ سے کھیلنا اور ہارے ہوئے کارڈ پر جوا کھیلنا بند کر دیں۔ ان میں سے ہر کوئی ہار چکا ہے، کیونکہ اب دہشت گردی ان کے عقبی صحن میں آچکی ہے، جس کے بارے میں ہم شروع سے انہیں متوجہ کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی سپورٹ کرنے والے سارے ممالک اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں۔

مخالفین کے اعتراضات سے متعلق سوالات کے جوابات میں انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت کی کہ کوئی گروہ آئے اور کہے کہ ہمیں فیڈرل ازم چاہیے اور پھر شام کا کوئی علاقہ علیحدہ کرکے اپنی چھوٹی سی ریاست قائم کرکے اسے فیڈرل ازم کا نام دے تو یہ قابل قبول نہیں بلکہ فیڈرل ازم سمیت ہر تجویز پر عمل کا فیصلہ شام کے عوام نے کرنا ہے اور یہ عوامی ووٹ کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ شام کے سیکولر ریاست ہونے کے بارے میں وضاحت کی کہ اس پر شام کا اصرار ہے، لیکن ترکی اور مسلح گروہ اس کے مخالف ہیں اور ان کی درخواست پر سیکولرازم کا تذکرہ مشترکہ بیان میں نہیں کیا گیا ہے۔ بشار ال جعفری نے حیرت کا اظہار کیا کہ ترکی کی حکومت خود کہتی ہے کہ ترکی ایک سیکولر ملک ہے، لیکن شام کی سیکولر ریاست کا وہ مخالف ہے۔

آستانہ اجلاس میں حکومت کے مخالفین محمد علوش کی سربراہی میں آئے تھے۔ علوش جیش الاسلام کا رہنما ہے۔ یہ غالباً زھران علوش کا بھائی ہے، جو شامی فوج کی کارروائی میں مارا گیا تھا۔ اس کے والد عبداللہ علوش سعودی عرب میں رہتے ہیں۔ یہ اور اس کا گروہ سعودی وہابی بادشاہت کے مفادات کے تابع ہے۔ اس وفد میں سابق فوجی جنرل اسد الذوبی اور جارج صبرا (سیرین نیشنل کاؤنسل) بھی شامل تھے۔ زھران علوش اور اس کے گروہ کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں شام کے وزیر دفاع، نائب وزیر دفاع اور معاون نائب صدر جاں بحق ہوئے تھے۔ آستانہ اجلاس کے بعد محمد علوش نے 24 جنوری 2017ء کو اپنے بیان میں بشار الاسد کو شام کے سیاسی حل سے خارج قرار دیا اور سیاسی عمل میں ایران کے کسی بھی قسم کے کردار کی مخالفت کی۔ کیا اس مخالفت سے یہ سمجھا جائے کہ آستانہ اجلاس ناکام ہوگیا؟ کیا تصفیہ شام کے لئے جاری سیاسی عمل تعطل کا شکار ہوگیا؟ تو اس کا جواب بشار ال جعفری نے دے دیا کہ اس کا جو ہدف تھا، وہ حاصل ہوچکا ہے۔ سہ فریقی میکنزم کی تفصیلات ایران، روس اور ترکی نے طے کرنی ہیں۔ دوسری جانب جنیوا میں جو اجلاس 8 فروری کو ہونا تھا، وہ موخر ہوگیا ہے اور اب فروری کے آخری عشرے میں شاید منعقد ہو۔

اصل میں مسئلہ یہ ہے یہ شام کے بحران کے حل کی ڈور کے کئی سرے ہیں، جن میں سے ایک سعودی عرب اور ایک قطر کے ہاتھ میں بھی ہے، جبکہ ان سب سے زیادہ طاقتور امریکہ ہے۔ اس ڈور کے دیگر سرے فرانس اور برطانیہ کے ہاتھ میں ہیں۔ روس نے شام کے مسئلے کی بنیاد پر خود کو مشرق وسطٰی اور عرب دنیا میں ایک اہم و طاقتور فریق کے طور پر داخل کیا ہے۔ چونکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کا مستقل رکن و ویٹو پاور رکھتا ہے اور نیوکلیئر ہتھیار بھی سب سے زیادہ اسی کے پاس ہیں، اس لئے امریکہ اور یورپی ممالک براہ راست روس کے ساتھ جنگ سے گریزاں ہیں۔ ایران چونکہ میزائلوں کے ساتھ ایک اہم علاقائی طاقت ہے اور صہیونی ریاست کو نشانہ بنا سکتا ہے، اس لئے براہ راست ایران کے ساتھ جنگ سے بھی امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی گریزاں ہیں، جبکہ خطے کے ممالک اتنی صلاحیت نہیں رکھتے کہ براہ راست لڑ سکیں۔ باوجود اسکے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کی مدد و حمایت کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں، وہ براہ راست اس جنگ میں کود کر ایک کھلی اور براہ راست جنگ میں اپنے آپکو نہیں الجھا سکتے۔ لہٰذا ان کی نیابتی جنگ لڑنے والے مسلح گروہ اس معاملے میں لکیر کے فقیر ہیں۔ اصل ایجنڈا ان کے پاس نہیں ہے بلکہ ان کے آقاؤں کے پاس ہے۔

اب اگر محمد علوش یہ کہیں کہ بشار الاسد کو منہا کر دیا جائے، یعنی مائنس بشار الاسد شام تو آستانہ اجلاس کا مشترکہ بیان اس خواہش کی نفی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کی قرارداد نمبر 2254 میں جو فریم ورک طے کیا ہے، اس میں بھی مائنس بشار الاسد کوئی فارمولا شامل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2336 نے شام کے مسئلے کے حل کے لئے روس اور ترکی کے مابین اتفاق رائے کی توثیق کی ہے اور ان دونوں ملکوں نے ایران کو اس عمل میں شریک کیا ہے، یعنی اسے اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہے اور آستانہ اجلاس کی بین الاقوامی قانونی حیثیت ہے۔ محمد علوش، ریاض حجاب، موفق نیربیہ اور ایمن ابو ھشام وغیرہ نے آستانہ اجلاس کے بعد کوئی نیا موقف پیش نہیں کیا بلکہ وہی پرانا موقف پیش کیا ہے کہ شام میں انہیں بشار الاسد قبول نہیں اور شام کے مسئلے کے تصفیے میں ایران کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن آستانہ اجلاس میں ان کی شرکت اور سہ طرفہ ضمانت کے سائے میں مذاکرات یا سیز فائر پر دستخط کر دینا، ان کا وہ عمل ہے، جس سے ان کے مذکورہ موقف کی نفی ہوتی ہے۔

بشار الاسد کے مخالف گروہوں نے شام کے مستقبل کے بارے میں جو ویژن لندن میں پیش کیا تھا، اس میں ان کا مطالبہ یہ ہے کہ بشار الاسد ان سے چھ ماہ مذاکرات کے لئے راضی ہوں، لیکن اس کا ایجنڈا یہ ہو کہ شام میں مائنس بشار ایک عبوری حکومت قائم کی جائے، جس کی میعاد ڈیڑھ سال ہو، وہ درمیانی عرصے میں شام کا نیا آئین ترتیب دے اور اس کے تحت اگلے الیکشن ہوں۔ لیکن آستانہ اجلاس اس نوعیت کے مذاکرات کے لئے منعقد نہیں کیا گیا تھا۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو یہ شام کی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی ایک کامیابی ہے کہ ترکی اور اس پر اعتماد کا اظہار کرنے والے گروہ شام کی حکومت کے ساتھ کسی ایسے ایجنڈا پر بیٹھے، جو ان کے پیش کردہ ایجنڈا سے متضاد تھا۔ ترکی کا رویہ تاحال دوغلے پن پر مبنی ہے۔ وہ روس کو راضی کرنے کے لئے اس حد تک جھکنے پر مجبور ضرور ہوا ہے، لیکن تاحال اس نے شام میں مسلح کارروائیاں کرنے والے گروہوں کی حمایت سے ہاتھ نہیں اٹھایا ہے۔ آستانہ اجلاس سے پہلے ان مسلح گروہوں کا ایک اجلاس ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں ہوا تھا، جہاں آستانہ اجلاس کے لئے تیاری کی گئی تھی۔

آستانہ اجلاس میں بھی اور اس کے بعد ماسکو میں بھی روس نے شام کی اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں شام کے لئے نئے مجوزہ آئین پر بات چیت کی ہے۔ اس اجلاس میں سعودی نواز اعلٰی سطحی مذاکراتی کمیٹی HNC کے نمائندگان نے شرکت نہیں کی، لیکن دیگر گروہوں کے اراکین شریک ہوئے۔ ترکی، قطر اور سعودی حمایت یافتہ گروہوں نے روس کے تجویز کردہ آئین کو مسترد کر دیا ہے۔ روس کا تجویز کردہ آئین کہتا ہے کہ شام کی عربی شناخت نہ ہو، صدر کے لئے مسلم عرب ہونے کی شرط نہ ہو اور صدر سات سالہ مدت کے لئے منتخب ہو، لیکن اسے مسلسل دوسری مرتبہ صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہو۔ شام کی حکومت بھی روس کی اس کوشش پر خاموش ہے۔ روس کے پیش کردہ مسودہ پر اتفاق رائے بھی بہت ہی مشکل دکھائی دیتا ہے، کیونکہ یہ فیصلہ تو شامیوں نے ہی کرنا ہے کہ ان کا موجودہ آئین تبدیل ہونا چاہئے یا نہیں۔ بات کو آستانہ مذاکرات تک محدود رکھتے ہیں۔
(حوالہ جات: اس تحریر میں بیان کردہ معلومات کا ماخذ شام اور روس کے سرکاری ذرائع ابلاغ، عربی، ترکی، مغربی ذرائع ابلاغ اور شامی حکومت کے مخالفین کی آفیشل ویب سائٹ پر موجود خبریں ہیں)
خبر کا کوڈ : 604929
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Nasir
United States
Nice article
taskeen r
Japan
very informative, about the latest proceedings in syria and middle east. Keep it up Mr Irfan Ali.
کچھ اپنے ملک میں اغوا ہونے والے علمائے کرام کی شان میں بھی ارشاد فرمایئے اور مسئلہ تفتان کو تو آپ لوگ پھر سے بھول گئے ہیں۔ اب پھر اگر ایم ڈبلیو ایم کی طرف سے کوئی قدم اٹھایا جائے گا تو آپ لوگ بھی تفتان تفتان کی بین بجانا شروع کر دیں گے۔ رضوان
Pakistan
مندرجہ ذیل جملے بھی رضوان نے ہی لکھے تھے۔ رضوان (599342)
Thursday 20 October 2016 - 03:58
https://www.islamtimes.org/ur/doc/article/576987/
((((جو لوگ مجلس کے اصولوں اور ضابطہ اخلاق اور دائرہ کار کو خاطر میں نہیں لاتے اور پھر دھر لئے جاتے ہیں اور مجلس کا نام اپنی من مانی سوچ کی تکمیل کے لئے استعمال کرتے ہیں، مجلس ان کے حق میں کیونکر بول سکتی ہے۔
مجلس کی خاموشی ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔
اندر کی باتیں آپ اچھی طرح جانتے ہیں، لہذا مجلس کسی کی غلط پالیسیوں اور منفی اقدامات کی حمایت نہیں کرسکتی۔
قانونی چارہ جوئی کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں، مجلس آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔)))
ہماری پیشکش