0
Tuesday 25 Apr 2017 00:28

روز بعثت انسانیت کی بیداری کا دن

روز بعثت انسانیت کی بیداری کا دن
 تحریر: محمد جان حیدری

27 رجب المرجب کو ہجرت سے 13 سال قبل، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت، شرک، ناانصافی، نسلی، قومی و لسانی امتیازات، جہالت اور برائیوں سے نجات و فلاح کا نقطۂ آغاز کہی جا سکتی ہے اور صحیح معنٰی میں خدا کے آخری نبی نے انبیائے ما سبق کی فراموش شدہ تعلیمات کو از سر نو زندہ و تابندہ کرکے عالم بشریت کو توحید، معنویت، عدل و انصاف اور عزت و کرامت کی طرف آگے بڑھایا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دلنشین پیغامات کے ذریعے انسانوں کو مخاطب کیا کہ ”خبردار! خدا کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دینا، تاکہ تم کو نجات و فلاح حاصل ہوسکے۔“ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پرخلوص معنوی تبلیغ نے جہالت و خرافات کی دیواریں بڑی تیزی سے ڈھانا شروع کر دیں اور لوگ جوق در جوق اسلام کے گرویدہ ہوتے چلے گئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی بعثت، جو درحقیقت انسانوں کی بیداری اور علم و خرد کی شگوفائی کا دور ہے، آپ سب کو مبارک ہو۔

آج رسول اسلام کی بعثت کو صدیاں گزر چکی ہیں، لیکن عصر حاضر کے ترقی یافتہ طاقتور انسانوں کو، پہلے سے بھی زیادہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پرامن پیغامات اور انسانیت آفریں تعلیمات کی ضرورت ہے۔ اس گفتگو میں، ہم اسی موضوع کا جائزہ لینا چاہتے ہیں کہ بنیادی طور پر پیغمبر اسلام کی بعثت آج کے انسانوں کے لئے کن پیغامات کی حامل ہے۔ اس کے جواب میں سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ختمی مرتبت، رسالت مآب حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانوں کو کس چیز کی دعوت دی ہے۔؟ دراصل انسان کے یہاں بعض خواہشیں اور فطری میلانات موجود ہیں، یہ فطری میلان خود انسان کے وجود میں ودیعت ہوئے ہیں اور ان کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ مثال کے طور پر اچھائيوں کی طرف رغبت اور پسند، تحقیق و جستجو کا جذبہ یا اولاد سے محبت وہ انسانی خصوصیات ہیں، جن کو اس کی ذات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ظاہر ہے دنیا میں آنے والا ہر وہ انسان جس نے فطرت کی آواز پر لبیک کہا ہو، حقیقی اور جاوداں انسان بن جائے گا، کیونکہ یہ وجود انسانی خواہشات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اس کی فطری ضرورتوں کی تکمیل کرتا ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت، انسان کی فطری ضروریات کی تکمیل کے لئے ہوئی ہے، اس نے ایمان و معرفت، آگہی و بیداری اور برادری و انسان دوستی کے چراغ روشن کئے ہیں۔ لہذا رسول خدا کی بعثت کا دن انسانی زندگي میں ایک عظيم انقلاب اور تجدید حیات شمار ہوتا ہے، وہ انقلاب جو انہوں نے برپا کیا ہے، انسان کو خود اپنے اور اپنے انجام دیئے گئے برے اعمال کے خلاف جدوجہد پر آمادہ کرتا ہے اور جو بھی رسول خدا کے روشنی بخش پیغامات کو سنتا ہے، اپنی اور کائنات کی حقیقی شناخت پیدا ک رلیتا ہے اور پھر خود کو ہی عدل و انصاف کی عدالت میں کھڑا پا کر اپنے وجود میں ایک نئے انسان کی تعمیر پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ خصوصیات صرف مذہب کے ساتھ وابستہ ہیں کہ وہ آدمی کو ایک خالص مادی اور دنیوی قالب سے نکال کر سچائی اور انصاف کی معنوی دنیا تک پہنچا دیتا ہے اور ایک نفس پرست کو انصاف پسند اور نیکوکار انسان میں تبدیل کر دیتا ہے۔

مذہب انسان کی حیات کے لامتناہی چشمے کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور وحی دنیا کی باتیں اس کے دل و جان میں جگہ بنا لیتی ہیں۔ وحی کی باتیں انسان کو زندگی، کیف و نشاط اور بیداری و آگہی عطا کرتی ہیں، وحی کی باتیں معرفت کا چراغ ہیں، جو انسان کو حقائق محض سے آشنا بنا دیتی ہیں۔ ہر عہد اور ہر زمانے کا انسان اس جاوداں نور سے روشنی حاصل کر کے اپنے اندر معنویت کی نئی جوت جگا سکتا ہے اور پھر ترقی و کمال کی اعلٰی معراج طے کر سکتا ہے۔ قرآن کریم میں انبیاء (ع) کی بعثت کا فلسفہ، انسان کی تعلیم و تربیت، عدل و انصاف کی برقراری، تاریکیوں سے رہائی اور جبر و استبداد سے انسان کو آزادی دلانا بتایا گیا ہے۔ سورۂ انفال کی 24 ویں آيت میں بھی بعثت کو زندگی اور حیات سے تعبیر کیا گيا ہے، جو معاشروں کو ترقی عطا کرکے تقاضوں کی تکمیل کی راہ دکھاتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: اے ایمان لانے والو! خدا اور اس کے پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہو، وہ جب بھی تم کو اس پیغام کی طرف بلائیں، جو تمہارے لئے سرچشمۂ حیات ہے۔

بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جہالت، تاریخ کے محض کسی خاص دور سے مخصوص ہے، اس کو دور جہالت کا نام دیا گيا ہے اور عالم بشریت اس دور سے گزر چکا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ زمانہ جب انسان، انسانیت کی حدوں سے دور ہو جاتا ہے اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے، جہالت کے دائرے میں پہنچ جاتا ہے اور دنیا اسے اپنا اسیر بنا لیتی ہے، چاہے وہ کوئی بھی دور اور زمانہ ہو اور کسی بھی نئی شکل میں کیوں نہ جلوہ گر ہوا ہو۔ اس وقت بھی، دنیا جس بحران سے دوچار ہے اور افغانستان و عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جو المیہ برپا کیا ہے، کیا اس کو عصر حاضر کے انسان کی جہالت، خود غرضي اور وحشت کے علاوہ کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے؟ اور آيا وہ مظالم جو فلسطین کے مظلوم عوام اور بچوں پر جاری ہیں، انسانی علم و تمدن کا ثمرہ کہے جا سکتے ہیں؟ یا اس کے جہل اور اقتدار طلبی کا نتیجہ ہیں!!

بلاشبہ دنیا کو انسانیت و معرفت کے دائرے میں ایک نئے انقلاب اور تغییر کی ضرورت ہے، وہ انقلاب جو چودہ سو سال قبل، خدا کے رسول محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع کیا تھا اور جس کے راہ نما پیغامات آج بھی اضطراب و بے چینی کے شکار انسان کو عدل و انصاف اور اخلاق کی راہ دکھا سکتے ہیں۔ اس کے پیغامات میں ہمیشہ زندگی اور تازگی موجود رہی ہے۔ ایک مسلمان عالم و دانشور کے بقول: جس طرح ایک درخت کے لئے پہلے انسان کسی مناسب زمین پر بیج ڈالتا ہے اور پھر پودا ٹہنیوں و پتیوں میں تبدیل ہو کر جب بڑھتا ہے تو پھول اور پھل وجود میں آئے ہیں اور اس میں ویسے ہی دانے اگتے ہیں کہ جیسے بیج کی صورت میں انسان نے زمین کے حوالے کئے تھے۔ اسی شکل میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کا ایک دائرہ ہے، جو گھومتا رہتا ہے اور ہمیشہ اس سے پھول اور پھل شگوفہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ بہرحال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ بعثت ہر سال اس اہم حقیقت کی یاد دلاتی ہے کہ ہر انسان کا فریضہ ہے کہ اسی روز سے اپنے اندر ایک دوسرے انسان کی تعمیر شروع کر دے اور عشق خدا و رسول کے ساتھ سچائی اور معنویت کی راہ پر قدم بڑھانے کے لئے تیار ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 630565
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش