0
Friday 8 Sep 2017 00:04

میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی کے پس پردہ حقائق (حصہ اول)

میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی کے پس پردہ حقائق (حصہ اول)
تحریر: محمد علی

میانمار جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ملک ہے جس کی آبادی 6 کروڑ ہے۔ یہ ملک خوبصورت قدرتی مناظر اور بدھ مت کی عبادتگاہوں کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے جن سے لطف اندوز ہونے کیلئے ہر سال بڑی تعداد میں سیاح وہاں کا رخ کرتے ہیں۔ کچھ برس قبل تک اس ملک پر فوجی آمریت حکمفرما تھی۔ میانمار میں روہنگیا قوم سے تعلق رکھنے والے ایک کروڑ کے لگ بھگ مسلمان آباد ہیں۔ چند سال سے اس ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی پر مبنی واقعات کی خبریں مل رہی ہیں۔ میانمار کی ریاست راخین میں یہ واقعات گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہیں جبکہ حکومت بھی مسلمانوں کو اپنے لئے بڑا خطرہ تصور کرتی ہے۔ میانمار کے سابق صدر تین سین بھی کئی بار اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ مسلمانوں کا مقابلہ ضروری ہے۔

موت اور بھوک سے بچ کر فرار کرنے والے مسلمان مہاجرین اسمگلرز کے ہتھے چڑھتے رہے۔ 2012ء میں میانمار کے مسلمانوں نے آنگ سان سوچی کی حمایت کا فیصلہ کیا اور اسے پارلیمنٹ میں اپنے رکن کے طور پر بھیجنے کا عہد کر لیا۔ آنگ سان سوچی میانمار کی تحریک آزادی کے سرگرم رہنما جنرل سان کی بیٹی ہے اور امن کا عالمی نوبل انعام بھی جیت چکی ہے۔ لیکن ابتدا میں اچھا منہ دکھانے کے بعد اچانک ہی آنگ سان سوچی نے مسلمانوں سے منہ پھیر لیا۔ انہوں نے ایک بار انتہائی متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف شدت پسندی کی اصل وجہ خود مسلمانوں کے شدت پسندانہ اقدامات ہیں۔ اس کے بعد آنگ سان سوچی کی مغربی رہنماوں سے مذاکرات کی تصاویر شائع ہوئیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے میانمار میں غیرانسانی مجرمانہ اقدامات کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر یہ اقدامات میانمار میں مغرب طرز کی اصلاحات لاگو ہونے سے پہلے انجام پاتیں تو یقیناً عالمی سطح پر ان کے خلاف شدید ردعمل سامنے آتا۔ 2012ء کے بعد میانمار کے مسلمان بغیر کسی وجہ کے بدھ مت کے پیروکاروں کی جانب سے شدید ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں۔ اب تک مسلمانوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ تین مسلمان مردوں کی جانب سے ایک بدھ مت خاتون سے زیادتی کا واقعہ ہے۔ البتہ یہ تینوں مرد بعد میں گرفتار کر لئے جاتے ہیں جن میں سے ایک خودکشی کر لیتا ہے جبکہ باقی دو افراد کو سزائے موت دے دی جاتی ہے۔ اسی وقت سے بدھ مت کے پیروکاروں کی جانب سے مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ سب سے پہلا واقعہ ریاست راخین میں پیش آیا جب ایک بس کو آگ لگا دی گئی جس میں 11 مسلمان جل کر جاں بحق ہو گئے۔ اس کے بعد ایک واقعے میں ایک بدھ جنگجو مارا گیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی نسل کشی میں مزید شدت آ گئی۔

گذشتہ چند عشروں سے میانمار کی مسلمان کمیونٹی حکومتی افواج اور غیر حکومتی بدھ مت کے پیروکار مسلح گروہوں کی جانب سے ظلم و ستم کا شکار رہی ہے۔ 1974ء میں میانمار کی فوجی حکومت نے ملک کا نیا آئین وضع کیا جس کی بنیاد پر میانمار کو سوشلسٹ ریپبلک قرار دیا گیا اور اس کے بعد عملی طور پر مسلمان شہری اجنبی اور غیر قانونی باشندے قرار پائے۔ ان کے تمام اموال ضبط کر لئے گئے اور سرکاری عہدوں سے نکال باہر کر دیا گیا۔ اسی طرح فوجی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کی شہریت بھی منسوخ کر دی گئی۔ 1982ء میں میانمار میں شہری حقوق کی منظوری دی گئی لیکن قانون کے مطابق ملک میں بسنے والی 144 مختلف قوموں میں سے صرف 135 قوموں کو یہ حقوق عطا کئے گئے جبکہ باقی 9 قومیں جن میں روہنگیا کی مسلمان قوم بھی شامل تھی اقلیت قرار پا کر شہری حقوق سے محروم ہو گئی۔ اعداد و شمار کے مطابق میانمار کی کل آباد 6 کروڑ کا صرف 4 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے لہذا وہ مذہبی اقلیت شمار ہوتے ہیں۔ میانمار میں اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں کی ہے۔

میانمار میں اسلام کی تاریخ
میانمار میں اسلام کا آغاز پہلی صدی ہجری میں ہوا۔ عرب دنیا اور ایران میں اسلام پھیلنے کے بعد عرب اور ایران سیاح سمندری سفر کے دوران برما سے گزرے اور وہاں کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دی۔ یہاں سے اس خطے میں اسلام کا آغاز ہو گیا۔ اس کے بعد مسلمان تاجر چین جانے کیلئے میانمار کے مغرب میں واقع ریاست آراکان سے گزر کر جاتے تھے۔ آراکان کی زرخیز زمینوں کے باعث ان میں سے بڑی تعداد اسی علاقے میں مقیم ہو گئی۔ ایک اندازے کے مطابق 1774ء تک میانمار میں مسلمانوں کو کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہ آئی۔

اس دوران بودا پایا نامی ایک بدھ مت کا پیرو اس علاقے میں آیا۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے بدھ مت کے پیروکاروں میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت کا بیج بویا۔ اس نے مسلمانوں کے خلاف جو اقدامات انجام دیئے ان میں سے ایک یہ تھا کہ تمام اسلامی قوانین کا اجرا بند کر دیا۔ یہاں سے بدھ حکومت اور مسلمانوں کے درمیان تناو کا آغاز ہو گیا اور مسلمانوں کے حقوق پامال ہونا شروع ہو گئے۔ یہ تناو اس قدر شدید ہو گیا کہ ہمسایہ ممالک بھی اس مسئلے میں مداخلت کرنے لگے اور بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اس میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ حکومتی اقدامات کے مقابلے میں مسلمان کمزور تھے لہذا بڑی تعداد میں مسلمان بھارت اور بنگلہ دیش کی جانب نقل مکانی کرنے لگے۔

اگرچہ کہا جاتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں روہنگیا قوم سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی خودمختار حکومت قائم ہو گئی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاسی حالات تبدیل ہوتے گئے۔ 1982ء میں میانمار میں ایسی اصلاحات عمل میں لائی گئیں جن کے نتیجے میں مسلمان ایک کمزور مذہبی اقلیت کی شکل اختیار کر گئے۔ اس دوران حکومت نے زبردستی مسلمانوں کو آراکان کا علاقہ ترک کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس حکومتی پالیسی کے نتیجے میں 1 لاکھ 50 ہزار مسلمان بنگلہ دیش، 50 ہزار مسلمان تھائی لینڈ، 40 ہزار مسلمان ملیشیا اور بڑی تعداد میں مسلمان دیگر ایشیائی ممالک کی جانب نقل مکانی کر گئے۔ میانمار کے صدر نے ایک بار تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں 8 لاکھ مسلمان بستے ہیں جنہیں ملک سے نکال باہر کرنا چاہئے تاکہ ہمیں درپیش مشکلات حل ہو سکیں۔

ناقابل انکار ظلم و ستم
میانمار حکومت نے 18 ویں صدی عیسوی کے بعد مسلمان باشندوں پر بے پناہ ظلم و ستم شروع کر دیا۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی ان میں سے بعض ظالمانہ اقدامات کی تصدیق کی ہے۔ میانمار حکومت کی جانب سے مسلمان باشندوں کے خلاف انجام پانے والے بعض ظالمانہ اقدامات درج ذیل ہیں:

1)۔ میانمار حکومت مسلمان باشندوں کو شناختی کارڈ جاری نہیں کرتی جس کے باعث نہ صرف مسلمان باشندے ملک کے اندر سفر کرنے میں انتہائی مشکلات کا شکار ہیں بلکہ ملک سے باہر سفر کرنا بھی ان کیلئے ایک ناممکن خواب بن گیا ہے۔
2)۔ مسلمان باشندوں کے ملک کے اندر سفر کرنا بھی فراوان مشکلات کے ہمراہ ہے اور میانمار حکومت ان سے ملک کے اندر سفر کرنے پر بھاری ٹیکس وصول کرتی ہے۔
3)۔ میانمار حکومت نے ملک کی یونیورسٹیز میں مسلمان باشندوں کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ یہ امر مسلمان جوانوں کی پسماندگی کا باعث بنا ہے اور وہ دیگر ملکی باشندوں کے مقابلے میں تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
4)۔ مسلمان باشندوں کو سرکاری اداروں میں کام کرنے کی اجازت نہیں لہذا مسلمان جوان کسی بھی سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہو سکتے۔
5)۔ مسلمان باشندوں کو شادی کیلئے حکومت سے اجازت لینا پڑتی ہے جبکہ شادی کیلئے ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف میانمار حکومت نے مسلمان باشندوں پر بچوں کی تعداد کے حوالے سے بھی پابندی لگا رکھی ہے اور انہیں دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اجازت نہیں۔ اس وجہ سے اکثر مسلمان گھرانے اپنے اضافی بچوں کی رجسٹریشن نہیں کرواتے اور وہ تمام بنیادی حقوق سے محروم رہتے ہیں۔
6)۔ میانمار حکومت کی جانب سے مسلمان گھرانوں پر لگائی گئی ایک اور پابندی یہ ہے کہ ہر مسلمان گھرانہ ہر سال پورے گھرانے کا گروپ فوٹو حکومت کو ارسال کرنے کا پابند ہے۔ یہ پابندی اس لئے لگائی گئی ہے تاکہ حکومت مسلمان گھرانوں میں بچوں کی تعداد کے بارے میں آگاہ رہے اور اگر ان کے بچوں کی تعداد دو سے زیادہ ہو جائے تو ان پر جرمانہ کیا جا سکے۔
7)۔ حکومت کی طرف سے مسلمان باشندوں سے بیگار لینا معمول کی بات بن چکا ہے اور میانمار حکومت اقلیتوں سے مفت کام کرواتی رہتی ہے۔
8)۔ روہنگیا مسلمان باشندوں کو کسی قسم کی تعلیمی، صحت اور عمومی سہولیات مہیا نہیں کی جاتیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمان باشندوں میں ناخواندگی کی شرح 80 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ دوسری طرف صحت کی سہولیات سے محرومی کے باعث میانمار کے مسلمان باشندوں میں خطرناک اور وبائی امراض بہت زیادہ پائی جاتی ہیں۔
9)۔ روہنگیا مسلمان باشندوں کو ملکیت کا حق حاصل نہیں اور وہ کسی زمین یا جائیداد کے مالک نہیں بن سکتے۔ اس طرح مسلمان باشندوں میں یہ احساس ہی نہیں پایا جاتا کہ میانمار ان کا وطن اور آبائی ملک ہے۔ دوسری طرف حکومت مقامی روہنگیا مسلمان باشندوں کو زبردستی ملک چھوڑ کر دیگر ممالک جیسے بنگلہ دیش، تھائی لینڈ اور ملیشیا ہجرت کرنے پر مجبور کرتی رہتی ہے۔ اس نقل مکانی میں بڑی تعداد حتی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
10)۔ مسلمان باشندوں کو حکومت کی اجازت کے بغیر کسی قسم کی مسجد یا سکول یا مدرسہ بنانے یا تعمیر و مرمت کرنے کا حق حاصل نہیں۔ اگر مسلمان باشندے اپنے گاوں کی مسجد کی مختصر تعمیر بھی کرتے ہیں تو حکومت ان کے خلاف شدید اقدام انجام دیتی ہے اور تعمیر کرنے والوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ لہذا میانمار میں گذشتہ 20 سال کے دوران کوئی نئی مسجد تعمیر نہیں کی گئی۔
11)۔ میانمار میں مسلمان باشندوں کو کسی قسم کا کاروبار کرنے یا دکان کھولنے کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی مسلمان باشندہ دکان کھولنا چاہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک بدھ مت کے ساتھ شریک ہو کر یہ کام کرے۔
12)۔ 1962ء سے لے کر 1980ء تک روہنگیا مسلمان باشندوں پر حج کرنے کی پابندی عائد تھی۔ گذشتہ چند سالوں سے اس پابندی میں نرمی آئی ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 667284
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش