0
Saturday 11 Aug 2018 14:36

میرا گھر تو اب یتیموں سے بھر گیا ہے۔۔۔

میرا گھر تو اب یتیموں سے بھر گیا ہے۔۔۔
رپورٹ: ایس اے زیدی
 
ڈیرہ اسماعیل خان پاکستان کی وہ سرزمین ہے، جو بے گناہوں کے خون کی اتنی پیاسی ہے کہ ابھی تک اس کی پیاس نہیں بجھ سکی، 1980ء کی دہائی میں شروع ہونے والی اس فرقہ وارانہ قتل و غارت گری نے 2 روز قبل بھی 3 بے گناہ شہریوں کی جان لے لی، ٹارگٹ کلنگ کی یہ تینوں وارداتیں محض چند منٹ کے دوران ضلع ڈی آئی خان کی تحصیل پروا میں پیش آئیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کا پہلا واقعہ تحصیل پروا کے علاقہ چودھوان موڑ عربی مسجد کے قریب پیش آیا ہے، جہاں تکفیری دہشتگردوں نے باقر حسین بلوچ نامی شخص پر فائرنگ کی۔ متعدد گولیاں لگنے سے باقر حسین ولد ہاشم حسین سکنہ ببر پکہ شہید ہوگئے، جبکہ قاتل حسب معمول باآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ واضح رہے کہ شہید باقر حسین کے پہلے بھی 2 بھائی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن کر شہید ہوچکے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کی دوسری کارروائی چند منٹ بعد ہی پروا تھانہ کی حدود ماہڑہ اڈا کے قریب ہوئی، جس میں تکفیری دہشتگردوں نے ایک اور گھر کا چراغ بجھاتے ہوئے کالو خان ولد حیدر خان کو شہید کر دیا۔ ٹارگٹ کلنگ کی تیسری کارروائی بھی پروا ہی کی حدود میں ہی ہوئی، جس میں حفاظت اللہ سکنہ پکہ ببر بھی محبت اہلبیت (ع) کے جرم میں شہادت کے منصب پر فائز ہوگئے۔ واقعہ کے بعد شہید باقر حسین بلوچ کے لواحقین احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے اور قریشی موڑ کے قریب لاش سڑک پر رکھ کر دھرنا دیا، کچھ دیر بعد ڈی پی او ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے، جہاں لواحقین اور ڈی پی او کے درمیان مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا.
 
ڈی آئی خان کی ایک ہی تحصیل میں محض چند منٹوں کے دوران ٹارگٹ کلنگ کی تین وارداتوں کا آپس میں ربط ضرور ہے، اس ضلع میں فرقہ وارانہ قتل غارت گری کوئی نئی بات نہیں، مختلف حکومتیں گزریں لیکن اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ بند نہ ہوسکی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ڈی آئی خان میں مسلکی لحاظ سے کشیدگی عوامی سطح پر بھی موجود ہے، لوگ ایک دوسرے کو مسلک اور عقیدے کی بنیاد پر تعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، تاہم جہاں تک قتل و غارت گری کا تعلق ہے تو اس کا نشانہ مسلسل اہل تشیع ہی بنتے آرہے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کی ان حالیہ وارداتوں کو کوئی نئی حکومت کیخلاف سازش قرار دے رہا ہے تو کوئی مولانا فضل الرحمان صاحب کی شکست کا بدلہ۔ حقیقت جو بھی ہو لیکن ڈی آئی خان میں یہ سلسلہ اب اپنی حد کو چھو رہا ہے۔ شہید ہونے والے باقر حسین بلوچ کے بھائی نے ایسے جذبات کا اظہار کیا جو ناقابل برداشت تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ باقر حسین سے پہلے بھی میرے دو بھائی شہید ہوچکے ہیں، جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے بھائی باقر حسین کو کیوں قتل کیا گیا، کیا کوئی ذاتی دشمنی تھی۔؟ تو انکا کہنا تھا کہ دشمنی کیسی، ہم شیعہ ہیں، لبیک یا حسین (ع) کہتے ہیں، یہی ہمارا قصور ہے۔ میرا ایک بھائی 2005ء میں انہوں نے شہید کر دیا۔ اس کا نام ناصر حسین تھا۔ لیکن ہم لبیک یاحسین علیہ السلام کہنا تو نہیں چھوڑیں گے، دم دم یاحسین (ع) کہیں گے جب تک سانس باقی ہے یاحسین (ع) کہیں گے۔ (آنسو ضبط کرتے ہوئے) میں نے تو یہ علاقہ بھی چھوڑ دیا، نقل مکانی کرلی، ان ظالموں نے اب بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔
 
اس دل شکستہ مگر پرعزم شخص کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا حوصلہ اب بھی بلند ہے، دشمن چاہتا ہے کہ ہم "لبیک یاحسین (ع)" کہنا چھوڑ دیں، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، انسانیت کا درد رکھنے والوں کے لئے یہ جملہ ہی درد ناک ہے کہ "پتہ نہیں کتنے یتیم میرے گھر میں پل رہے ہیں، اب تو میرا گھر یتیموں سے بھر گیا ہے، میرے گھر کی اب ایک اور عورت بیوہ ہوگئی ہے۔" یہ ان تکفیری دہشتگردوں کے منہ پر طماچہ ہے کہ جو شاید سمجھتے ہیں کہ قتل عام سے ملت جعفریہ کے دلوں سے اہلبیت علیہ السلام کی محبت کم ہو جائے گی۔ عمران خان صاحب کی گذشتہ صوبائی حکومت کے دوران بھی مسلسل ڈی آئی خان کی سرزمین پر عقیدہ کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کیا جاتا رہا اور اب یہ سلسلہ نئے خیبر پختونخوا کے بعد نئے پاکستان میں بھی داخل ہونے جا رہا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں 2009ء تک روزانہ کی بنیاد پر اہل تشیع کو کبھی بم دھماکوں، کبھی ٹارگٹ کلنگ اور کبھی خودکش حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، اس سلسلے میں اب تک کمی تو آئی لیکن خاتمہ نہیں ہوسکا، اگر دیکھا جائے تو 2015ء کے بعد ملک بھر میں دیشتگردی کیخلاف ہونے والی آپریشنز کے نتیجہ میں امن و امان کی صورتحال قدرے بہتر ہوئی، تاہم ڈی آئی خان وہ واحد علاقہ ہے، جہاں ابھی تک قتل و غارت گری کا سلسلہ برقرار ہے۔ یہ صرف شہید باقر حسین، شہید حفاظت اللہ اور شہید کالو خان کی کہانی نہیں، بلکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں سینکڑوں گھرانوں کی یہی داستان ہے۔ اس دھرتی پر سینکڑوں گھروں کے چراغ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بجھ گئے۔
 
ان ظالم دہشتگردوں کو شائد یہ احساس تک نہیں کہ ایک ماں کتنے کرب، مشکل اور تکلیف سہہ کر اپنے بچے کو جنم دیتی ہے، راتیں جاگ جاگ کر اپنے بچے کی نیند کی فکر کرتی ہے، اس کے بعد اس کی پرورش اور پھر اس کے جوان ہونے تک ماں باپ کتنے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، اس بچے پر اپنی زندگی بھر کی جمع پونجھی خرچ کرتے ہیں، زمانے کی گرم و سر ہواوئوں سے بچاتے ہیں، خود بھوکا رہ کر اسکا پیٹ بھرتے ہیں، بہنیں ہر وقت اپنے بھائی کی زندگی اور سلامتی کی دعائیں کرتی ہیں، باپ اپنے بڑھاپے کے سہارے کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے، قوم کے ایک ڈاکٹر، ایک انجینئر، وکیل بننے پر آج کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور ایک دہشتگرد آکر محض ایک سو روپے کی گولی سے اس نوجوان کی جان لے لیتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی مائیں اب مزید بیٹوں کی خون میں لت پت لاشیں دیکھنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں، باپ جوان لاشے اٹھانے کا مزید حوصلہ نہیں رکھتے، اس حوالے سے شیعہ تنظیموں کو اپنا بھرپور اور ایک طاقتور رول ادا کرنے کی ضرورت ہے، ڈیرہ اسماعیل خان کے حالات کو کوئٹہ اور پاراچنار جیسی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آواز اٹھانی پڑے گی، اس کیساتھ ساتھ پوری شیعہ ملت کو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے ڈیرہ اسماعیل خان کے معاملہ کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا ہوگا۔
 
جہاں نئی آنے والی حکومت کو دیگر چیلنجز کا سامنا ہوگا، وہیں ڈیرہ اسماعیل خان کا مسئلہ بھی عمران خان کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے، ڈیرہ اسماعیل خان کے باسی نئے پاکستان میں لاشیں اٹھا کر داخل نہیں ہونا چاہتے، عید الاضحیٰ کے موقع پر چرم قربانی اکٹھا کرنے کے معاملہ پر پابندی عائد کرنے کے اشتہارات اخبارات میں شائع ہونے کو ہیں، لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان تنظیموں کے چرم قربانی اکٹھے کرنے پر تو پابندی ہے لیکن بیگناہ لوگوں کو قتل کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ڈی آئی خان میں کالعدم تکفیری جماعت کیخلاف تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی کی طرز پر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے، شہر میں جب تک پاک فوج کی جانب سے آپریشن نہیں کیا جاتا، اس وقت تک قیام امن ایک خواب ہی رہے گا۔ قوم کو فوج پر مکمل اعتبار ہے، جس طرح پاک فوج نے پاراچنار کے حالات کو کنٹرول کیا ہے، اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کے حالات کو بھی قابو میں لانے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس کی جانب سے ڈی آئی خان ٹارگٹ کلنگ پر لئے جانے والے ازخود نوٹس کیس میں سرکاری ذمہ داران نے یہ انکشاف کیا تھا کہ یہاں کئی پولیس اہلکار تعصب رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب کو اس ازخودنوٹس کیس کو جلد پائہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا، جہاں تک نئی حکومت کی بات ہے تو اگر فوری طور پر عمران خان صاحب کی حکومت نے ڈی آئی خان کے سلگتے ہوئے مسئلہ پر توجہ نہ دی تو کہیں کوئٹہ اور پاراچنار میں دھرنے کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کو بھی ایسا کوئی تاریخی دھرنا نہ دینا پڑ جائے۔
خبر کا کوڈ : 743904
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش