0
Wednesday 31 Oct 2018 23:14

عرب شہزادوں کی نئی نسل اسرائیل کی توجہ کا مرکز کیوں؟

عرب شہزادوں کی نئی نسل اسرائیل کی توجہ کا مرکز کیوں؟
تحریر: محمد علی

1970ء کے عشرے تک اسرائیل اسلامی دنیا کا سب سے بڑا دشمن جانا جاتا تھا اور مصر کی سربراہی میں عرب دنیا نے اس کے خلاف کئی جنگیں لڑیں۔ البتہ اسی دوران بعض عرب حکمرانوں نے خفیہ طور پر اسرائیل سے تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ لیکن 1979ء میں مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے اور اس کے بعد 1994ء میں اسرائیل اور اردن کے درمیان وادی عربہ معاہدے کے بعد یہ تعلقات منظرعام پر آ گئے۔ اس کے بعد کئی عرب ممالک نے اسرائیل سے سازباز کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس سے خفیہ تعلقات قائم کرنا شروع کر دیئے۔ گذشتہ چند برس میں عرب ممالک سے اسرائیل کے تعلقات بہت حد تک منظرعام پر آ چکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ عرب ریاستوں میں شہزادوں کی نئی نسل کا برسراقتدار آنا ہے۔ حال ہی میں کینسٹ کے سابق رکن صہیونی مصنف تسویا گرینفیلڈ نے عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار ہارٹز میں اپنے کالم میں لکھا: "سعودی ولیعہد محمد بن سلمان ایسے عرب رہنما ہیں جن کے برسراقتدار آنے کی آرزو اسرائیل گذشتہ پچاس برس سے کر رہا تھا۔" انہوں نے اپنے کالم میں مغربی حکمرانوں سے درخواست کی کہ وہ جمال خاشقجی کے مسئلے میں محمد بن سلمان پر زیادہ دباو نہ ڈالیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل عرب شہزادوں کی نئی نسل کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان سے کیا توقعات وابستہ کئے ہوئے ہے؟
 
فلسطین کی سرزمین پر ناجائز قبضے کے باعث اسلامی دنیا میں اسرائیل کو ہمیشہ غاصب رژیم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ماضی میں بعض عرب حکومتوں کے اسرائیل سے خفیہ تعلقات رہے ہیں لیکن رائے عامہ کے خوف کی وجہ سے وہ ان تعلقات کو منظرعام پر لانے کی جرات نہ کر سکیں۔ لیکن حالیہ چند سالوں کے دوران عرب شہزادوں اور رہنماوں کی ایسی نئی نسل سامنے آئی ہے جنہوں نے عالم اسلام کی رائے عامہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے واضح طور پر اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان میں سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ابوظہبی کے ولیعہد شہزادہ محمد بن زاید کا نام سرفہرست ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کئی بار کھلم کھلا اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کا اعلان کر چکے ہیں اور حتی اسرائیل کی موجودیت کا بھی دفاع کر چکے ہیں۔ مزید برآں، گذشتہ تین برس میں سعودی حکام اور اسرائیلی حکام کے درمیان بہت زیادہ ملاقاتیں بھی انجام پا چکی ہیں۔ اسی طرح شہزادہ محمد بن زاید کو اسرائیل کے حقیقی دوستوں میں قرار دیا گیا ہے جنہوں نے "صدی کی ڈیل" نامی منصوبے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی بہت حمایت کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عرب شہزادوں کی اس نئی نسل کی خصوصیات کیا ہیں؟
 
عرب شہزادوں کی نئی نسل میں بعض ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے اسرائیل نے ان سے بہت سی توقعات وابستہ کی ہوئی ہیں اور ان پر سرمایہ لگا رہا ہے۔ اس نسل کی سب سے پہلی خصوصیت ان کا جوان ہونا ہے۔ اسرائیل درحقیقت ان شہزادوں کی حمایت کے ذریعے آئندہ چند عشروں تک ان سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے۔ عرب شہزادوں کی اس نئی نسل کی دوسری خصوصیت ان کی جاہ طلبی اور اونچی اڑان ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے ویژن 2030ء پیش کر کے اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کی بڑی کمپنیز سے رابطہ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ان کی پہلی ترجیح اپنی شان و شوکت اور مفادات ہیں۔ ان کی اسی خصوصیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے انہیں استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ عرب شہزادوں کی نئی نسل کی تیسری خصوصیت ان کی عملیت پسندی (pragmatism) ہے۔ اس خصوصیت کے باعث وہ کسی نظریئے کے پابند نہیں لہذا انہوں نے اپنے معاشروں کے دروازے مغربی لبرل ازم اور سیکولرازم کیلئے کھول دیئے ہیں۔ شہزادہ محمد بن زاید نے متحدہ عرب امارات میں سیکولر نظام نافذ کر رکھا ہے جبکہ شہزادہ محمد بن سلمان بھی بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ وہ بھی سعودی عرب میں سیکولر نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان شہزادوں کی یہ خصوصیت اسرائیل سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں درپیش نظریاتی رکاوٹیں دور ہو جانے کا باعث بنی ہے۔
 
مذکورہ بالا خصوصیات کے باعث اسرائیل تصور کرتا ہے کہ ماضی میں عرب ریاستوں سے دوستانہ تعلقات میں حائل رکاوٹیں ختم ہو چکی ہیں۔ گذشتہ تین برس میں انہی خصوصیات کے نتائج ظاہر ہو رہے ہیں اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تیزی سے اسرائیل سے اعلانیہ تعلقات کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے مرحلے میں اسرائیل سے ان عرب ریاستوں کے سکیورٹی تعلقات میں وسعت پیدا ہوئی جس کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سیاسی حلقوں میں اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کی بحث شروع ہو گئی۔ تیسرے مرحلے میں سعودی اور اماراتی حکام نے اسرائیلی حکام سے کھلم کھلا ملاقاتیں شروع کیں اور یوں اس بارے میں موجود حساسیت کو کم کرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی ماہرین شہزادہ محمد بن سلمان کو گذشتہ پچاس سال میں اسرائیل کیلئے بہترین تحفہ قرار دے رہے ہیں۔ البتہ عرب عوام اور اقوام اب بھی پوری طرح فلسطین کی حامی ہیں اور اسرائیل سے ہر قسم کے تعلق کی مذمت کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے اسرائیل کے بارے میں غیر معمولی خیالات کے اظہار کے بعد رائے عامہ کے دباو کے باعث سعودی فرمانروا ملک سلمان نے انہیں اس بارے میں مزید بیانات دینے سے منع کر دیا اور مسئلہ فلسطین میں ان کے کردار کو بھی محدود کر دیا ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 758830
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش