0
Sunday 30 Dec 2018 19:12

بچوں کیساتھ درندگی کے واقعات آخر کب تک؟؟

بچوں کیساتھ درندگی کے واقعات آخر کب تک؟؟
رپورٹ: ایس علی حیدر

خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ نوے کلے میں سات سالہ بچی کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ مقتولہ 7 سالہ بچی مدرسہ جاتے ہوئے لاپتہ ہوگئی تھی۔ ورثاء نے مقامی تھانے میں اطلاع دی اور بچی کی تلاش شروع کی۔ مقامی قبرستان سے پچی کی لاش ملی تو گھر میں کہرام مچ گیا، مقتول معصوم بچی کے والد کے مطابق انکی بچی مناہل کی عمر 8 سال تھی، وہ مقامی پرائیویٹ اسکول میں تیسری جماعت میں پڑھتی تھی۔ ورثاء نے اعلٰی حکام سے واقعہ کا نوٹس اور ملزمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ خیبر پختونخوا سمیت پاکستان بھر میں جنسی درندگی کے بعد بچوں اور بچیوں کو قتل کرنے کی یہ پہلی بہیمانہ واردات نہیں، صرف خیبر پختونخوا میں گذشتہ دنوں ہزارہ ڈویژن حویلیاں تھانے کی حدود کیالہ گاؤں میں ایک اور 3 سالہ بچی فریال کو درندگی کا نشانہ بنا کر رات کے وقت کھیتوں میں چھوڑ دیا گیا، سردی کی شدت کی وجہ سے معصوم بچی کی موت واقع ہوگئی۔ پاکستان میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد اور پھر انہیں قتل کرنے جیسی کربناک، بہیمانہ وارداتوں کے حوالے سے وقتاََ فوقتاََ واقعات میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آتے رہنا معمول بن چکا ہے اور صرف وہی واقعات منظر عام پر آتے ہیں، جو رپورٹ ہوں، جو رپورٹ نہیں ہوتے وہ بھی متعدد ہیں۔

آخر معصوم بچوں سے درندگی کے واقعات کیوں ہو رہے ہیں؟ ان کا سدباب کیسے اور کون کرے گا؟ یہ سوالات بھی موضوع بحث رہتے ہیں، تاہم معاشرے میں درندگی بے قابو ہی ہوتی جا رہی ہے، بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے واقعات معاشرتی عفریت بنتے جا رہے ہیں۔ قانون سازی کے باوجود اس قسم کے واقعات کا سدباب نہیں ہو رہا بلکہ شرح گذشتہ برسوں سے بڑھ رہی ہے۔ ماضی قریب میں پاکستان میں اس نوعیت کے واقعات رونما ہوئے تو حکومتی ایوانوں سے لے کر اعلٰی عدالتوں اور سماجی حلقوں سے لیکر عوام سب نے یک زبان ہو کر ان واقعات کی نہ صرف مذمت کی بلکہ ایسے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کے مطالبات لئے لوگ سڑکوں پر بھی نکل پڑے۔ ان سب کی مشترکہ طور پر مذمت کی گئی یا پھر ملکی سطح پر قصور میں کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سے لے کر زینب قتل کیس تک کے تمام واقعات کو اُجاگر کیا گیا۔

کچھ واقعات منظر عام پر نہیں آتے، اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ ان واقعات میں متاثرہ بچوں کی زندگیاں رہیں، مگر عزت خاک میں مل جانے کے بعد اس محفوظ زندگی کا آخر فائدہ کیا؟ جو عمر بھر کیلئے ایک سوالیہ نشان کے طور پر دل و دماغ میں کھٹکتا ہو۔ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت، لڑائی جھگڑے، جلاؤ گھیر اور توڑ پھوڑ، مار پیٹ اور گالم گلوچ کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے،  وہیں پر بے گناہ شہریوں اور معصوم بچوں کی عزت و ناموس سے کھلواڑ بھی اب روز کا معمول بنتا جا رہا ہے۔ لیکن ان واقعات کے تدارک کیلئے ملکی قوانین کی موجودگی کے باوجود عملی طور پر کوئی کام ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ ان واقعات کی روک تھام کی خاطر ملک کی مرکزی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے متعدد قوانین تو پاس کئے گئے، مگر بدقسمتی سے دیگر قوانین کی طرح انہیں بھی کاغذوں اور فائلوں کی حد تک ہی محدود رکھا گیا۔ علاوہ ازیں دیہی علاقوں میں بعض ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں، جو مقامی سطح پر متعلقہ اداروں کے عدم وجود یا معاشرتی مجبوریوں کے سبب رپورٹ نہیں کئے جاتے۔

ماضی میں یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ جنسی زیادتی کے شکار بچوں کے والدین کی جانب سے ایسے واقعات سے متعلق باضابطہ کارروائی کیلئے ریاستی اداروں سے مدد کیلئے درخواست تو دی گئی، مگر بعدازاں معاشرتی دباؤ کے باعث متاثرہ افراد مصلحتوں کا شکار ہو کر مقدمات واپس لینے پر مجبور ہوگئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے صوبائی یا وفاقی ایوانوں سے منظور کردہ قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنا کر معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ ریاستی اداروں خاص طور پر عدلیہ اور پولیس کو ایسے واقعات پر خصوصی توجہ مرکوز کرکے بچوں سے زیادتی سے متعلق مقدمات پر بروقت کارروائی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ بروقت سزا و جزا کا تین ہوکر انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکیں۔
خبر کا کوڈ : 769342
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش