1
0
Tuesday 5 Mar 2019 14:24

زبان ضرورت زمان

زبان ضرورت زمان
تحریر: نیر عباس جعفری
 
کسی بھی خطے کی زبان سے آشنائی ایک ایسا مھم اور قوی ترین وسیلہ ہے، جو انسان کی ترقی، پیشرفت اور آگاہی کے حصول میں مرکزی کردار کا حامل ہے۔ زبان ایک ایسا مضبوط ذریعہ ہے، جس کے توسط سے انسان اپنی فکر، نظریہ، سوچ اور علم کا تبادلہ کرسکتے ہیں، لیکن اس کے برعکس اگر آپس کی زبانوں سے آشنائی نہ ہو تو معاشرے کی جہالت کو کسی صورت دور نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس صورت میں لوگ معاشرے کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں آگاہی تو رکھتے ہیں، لیکن زبان سے ناآشنائی کے باعث مفلوج ہوتے ہیں کہ اسے لوگوں تک منتقل کرکے عملی جامہ پہنائیں۔ زبان کسی بھی معاشرے کی ثقافت کی تشہیر، احیاء اور وسعت کا باعث ہوتی ہے۔ یہاں ایک حاشیہ عرض کریں کہ ثقافت کی معاشرے میں کس قدر اھمیت ہے؟؟ تحقیق اور تجزیہ سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ ثقافت انسان کی بلندی اور تنزلی میں اہمیت کی حامل ہے، بعض محققین کے نزدیک کسی معاشرے پر اپنی ثقافت کا احیاء و اجراء اس معاشرے پر حاکمیت کے مترادف ہے۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ ثقافت کا انسان کی زندگی سے کیا ربط ہے اور کس طرح کوئی فرہنگ انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔؟؟
 
کہا جاتا ہے کہ فرہنگ اور ثقافت کی مثال آکسیجن کی مانند ہے، جس کی چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے انسان کو ضرورت بھی ہے اور اس کی زندگی میں کسی نہ کسی طرح سے ضرور اثر انداز بھی ہوتی ہے، لیکن اس کی منطقی اور عقلی دلیل کیا ہے۔؟ اگرچہ یہ خود ایک بہت وسیع موضوع ہے، لیکن یہاں اس کی مختصر وضاحت پر اکتفا کرتے ہوئے اپنے موضوع کو آگے بڑھائیں گے۔ انسان ایک ایسے مجموعہ کا نام ہے، جہاں پر تمام اچھی صفات اور صلاحیتوں کو اکٹھا کیا گیا اور شاید انہیں بلند مرتبہ خصوصیات کی بنا پر انسان کو مظہر خدا اور عظیم ترین خلقت کہا جاتا ہے اور خود پروردگار نے بھی انسان کی خلقت کے بعد خود پر فخر کیا ہے، لیکن ان صفات اور صلاحیتوں کو پروردگار نے اپنی مصلحت کے تحت کمال پذیری کی حالت میں قرار دیا ہے اور انسان کو یہ ذمہ داری دی ہے کہ وہ ان کو درجہ کمال تک پہنچائے اور امتحان کے طور پر چند بری صفات کو بھی انسان کے اندر خلق کیا ہے، تاکہ وہ ان میں سے بہتر کا انتخاب خود کرے اور اس انتخاب کے بعد ان صفات و صلاحیتوں کو پروان بھی چڑھائے۔

البتہ اپنے انبیاء اور پیغامات کے ذریعے انسان کی رہنمائی کا اہتمام ضرور فرمایا ہے، لیکن اس کے ساتھ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ یہ صفات درجہء کمال تک پہنچنے کے لئے بدن یعنی اس ظاہری جسم کی محتاج ہیں، جبکہ یہ بدن خود بھی مختلف نیازمندیوں کا محتاج ہے۔ پس اب دنیا میں رہتے ہوئے انسان کی ذمہ داری ہے کہ بدن کی احتیاجوں کو اعتدال میں رکھے اور خدا کے عطا کردہ وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے اس قابل بنائے کہ انسان کی حقیقت یا جسے عموماََ روح کہا جاتا ہے، وہ کمال تک پہنچنے کا سفر طے کرسکے۔ یہ دونوں احتیاجیں اسی فرہنگ اور ثقافت سے پورا ہوں گی، یعنی وہ تمام وسائل اسی ثقافت میں وجود رکھتے ہیں، جن کے استفادے میں انسان کو محتاط کیا گیا ہے کہ اعتدال سے کام لے۔ گویا انسان کے سفر کمال کا انحصار اسی فرھنگ اور ثقافت پر ہی ہے۔ انہیں احتیاجوں میں عدل و ظلم سے حلال و حرام بھی تشکیل پاتے ہیں۔۔۔ یہ ممکنہ وضاحت پیش کی گئی ہے، جو اس فصیح ترین موضوع کے لیے یقیناً ناکافی ہے۔

پس قارئین پر ثقافت کی اہمیت اور اس کے انسانی زندگی پر اثرات واضح ہوچکے ہوں گے۔ خداوند نے ارشاد فرمایا ہے کہ *لِمَ تَقُولُوا مَالَا تَفعَلُون•* تم وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں(سورہ صفّ آیت نمبر 2) یعنی خدا عمل پر تاکید فرما رہا ہے، چونکہ عمل کرنے سے ایک فرہنگ اور ثقافت تشکیل پاتی ہے، گویا خدا چاہتا ہے کہ جو کچھ تم نے جان لیا ہے، اب اس کو معاشرے میں رائج کرکے دکھاؤ، تاکہ لوگ اس کو اپنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔ فرہنگ و ثقافت کی اس اہمیت کو جان لینے کے بعد ہم آتے ہیں اپنے اصل موضوع یعنی زبان کی طرف کہ جسے ہم نے ثقافت کا مرکزی کردار قرار دیا۔ اس وقت دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً 6500 زبانیں بولی جاتی ہے، جن میں سے تقریباً 2000 زبانیں ایسی ہیں، جن میں سے ہر زبان کو بولنے والے افراد 1000 سے کم ہیں۔ زبان کی اہمیت دو موارد سے بیان کی جاسکتی ہے، اس میں سے پہلا یہ ہے کہ اس وقت کل جھان میں کتنے افراد اس زبان میں بات چیت کرتے ہیں یا کتنے خطوں میں بولی جاتی ہے، جبکہ دوسرا مورد جس سے کسی زبان کی اہمیت بیان کی جاتی ہے، وہ اس زبان کی تاریخ ہے۔
 
پہلے مورد کو اگر مدنظر رکھا جائے تو دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان چینی زبان ہے،جسے مینڈیرن (Mandarins) بھی کہا جاتا ہے، دنیا میں ایک عرب بیس کروڑ لوگ اس زبان میں بات چیت کرتے ہیں، اس کے بعد انگریزی زبان ہے جو 90 کروڑ 30 لاکھ افراد کی زبان شمار کی جاتی ہے، 50 کروڑ 44 لاکھ افراد میں رائج زبان ہندی زبان ہے اور اس کے بعد عربی کہ جو 40 کروڑ 22 لاکھ افراد میں رائج زبان ہے، اسی طرح دیگر زبانوں کی طویل ترین تفصیل موجود ہے، اب ہم یہاں پر زبانوں کی فصاحت اور تاریخ کے اعتبار سے ترتیب کا جائزہ لیں گے۔ دنیا کی فصیح ترین زبان عربی ہے کہ جس کی فصاحت اس قدر ہے کہ تحقیق اور قواعد سے آشنائی کے مطابق اہل علم لوگ کہتے ہیں کہ عربی زبان میں کچھ ایسے صیغہ جات یا الفاط موجود ہیں کہ جن میں سے ایک لفظ کے ستر تک معنی بھی لیے جا سکتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ موجودہ زمانے میں تاریخی اعتبار سے اس زبان کو خدا کی یا اسلام کی زبان کہا جاسکتا ہے، کیونکہ خدا کی آخری آسمانی کتاب کہ جو کلام خدا اور قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے رہنمائی اور ہدایت ہے۔

اس قرآن مجید کی زبان بھی عربی ہی ہے اور روایات میں موجود ہے کہ اس قرآن کی فصاحت و بلاغت اس حد تک ہے کہ بعض جگہ فرمایا گیا ہے کہ اس قرآن کی حقیقی تفسیر پیامبر اکرم (ص) اور معصومین (ع) ہی فرما سکتے ہیں، عام انسان اس کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ اسلام کی مکمل تعلیمات تقریباً عربی زبان میں ہی موجود ہیں، جو اس کی عظمت و اہمیت پر دلالت کرتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے فارسی زبان بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس وقت دنیا میں تقریبا 25 سے 30 کروڑ افراد فارسی زبان بولتے ہیں، جبکہ مختلف ممالک مثلاً ایران، افغانستان اور تاجکستان وغیرہ میں رسمی اور قومی زبان بھی فارسی ہی ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد فارسی زبان کو دنیا بھر میں مزید پذیرائی ملی ہے اور دیگر کئی ممالک میں جزوی طور پر رائج ہوچکی ہے۔ اسی طرح تمام تر زبانیں بہت اہمیت کی حامل ہیں، جن میں سے ایک اہم ترین زبان انگریزی بھی ہے کہ آج مختلف ممالک میں جزوی طور پر اور مختلف مغربی ممالک میں رسمی طور پر رائج ہے۔

زبان کی اس اہمیت کے سبب جو افراد بھی اس دنیا میں تحقیق اور ترقی کے خواہش مند ہیں، انہیں چاہیئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ زبانوں سے عملی طور پر آگاہ ہوں اور اس قابل ہوں کہ زمین کے مختلف خطوں کے افراد کے ساتھ ان کی زبان میں گفتگو کرسکیں اور ایک رابطہ قائم کرکے وہاں کی ثقافت سے آشنا ہوسکیں، لیکن ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہر اہل اسلام انسان پر لازم ہے کہ عربی زبان سے مکمل آگاہی حاصل کرے، تاکہ خود پیغام خدا کو سمجھنے کے قابل ہوسکے۔ اسی طرح جیسا کہ آج ایران بھی اسلامی ثقافت اور علوم اسلامی کا ایک بہت بڑا مرکز بن چکا ہے تو مسلمانوں کے لئے ایران کی رسمی زبان یعنی فارسی زبان بھی بہت اہمیت کی حامل بن چکی ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے آج یہ بدقسمتی ہے کہ مختلف ممالک نے ان دو اہم زبانوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے اور اس کے مقابل مغربی زبانوں کو اپنے لیے نمونہ اور راہ حل قرار دیا ہے، جبکہ یہ بات مسلّم ہے کہ حقیقی نجات تعلیمات اسلام سے آشنائی میں ہے اور آج کے اس زمانے میں اسلام کی زبانیں یہی دو زبانیں عربی یا فارسی ہیں۔ پس خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم پیغام خدا سے آگاہی کے ان دو مضبوط وسیلوں کی جانب متوجہ ہوسکیں۔آمین
خبر کا کوڈ : 781477
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
😊بیسٹ
ہماری پیشکش