1
0
Monday 25 Nov 2019 10:49

ایک ہر دلعزیز دوست کی یاد میں

ایک ہر دلعزیز دوست کی یاد میں
تحریر: محمد علی نقوی

اردو میں بعض کلمات اور اصطلاحات مسلسل اور بے موقع استعمال ہونے کی وجہ سے اپنی افادیت کھو چکی ہیں۔ ان الفاظ میں ایک ہر دلعزیز کا لفظ بھی ہے۔ آج چاپلوسی، کسی کو خوش کرنے حتیٰ بعض ایسے افراد کو بھی ہر دلعزیز کہہ کر پکارا جاتا ہے، جن کا نام سن کر اکثر افراد ان پر تین حرف بھیجنا ثواب دارین سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر سیاسی و تنظیمی جلسوں میں نک چڑھے، مغرور و متکبر اور انسان بیزار شخص کو بھی ہر دلعزیز کہہ کر سٹیج پر بلایا جاتا ہے۔ اسٹیج سیکرٹری اپنے زور بیان کو ثابت کرنے اور مذکورہ فرد کی خوشنودی کے لئے ہردلعزیز کی طرح اس سے ملتے جلتے بعض دوسرے الفاظ کا بھی بے دردی سے استعمال کرتا ہے۔ عام معاشروں میں بہت کم افراد ایسے ہوتے ہیں، جو حقیقت میں ہردلعزیز ہوتے ہیں، یعنی وہ ہر ایک کو اچھے لگتے ہیں۔ لوگ ان سے مل کر خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی کمی کو محسوس کرتے ہیں، ان کے پاس طویل بیٹھنے کو بھی مختصر سمجھتے ہیں۔ فرمان معصوم علیہ السلام کے مطابق ہر دلعزیز شخص وہ ہوتا ہے، جو زندہ ہو تو لوگ اس سے ملنے کے مشتاق رہتے ہیں اور جب وہ اس دنیا سے کوچ کر جائے تو لوگ اس کے غم میں آنسو بہائیں۔

شہید علی ناصر صفوی کا شمار بھی ہماری محفل کے ہر دلعزیز فرد کے طور پر ہوتا ہے۔ وہ جب تک زندہ رہے، دوستوں کو ان سے ملنے کی خواہش رہتی تھی اور اب جبکہ وہ اس دنیا سے جا چکے ہیں تو ان کے دوست ان کو یاد کرکے آنسو بہاتے ہیں۔ علی ناصر صفوی میں خداوند عالم نے دو صفات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، ایک ان کا ہر دلعزیز ہونا اور دوسرا راہ حق میں اپنے مقصد اور ہدف کے حصول کے لئے بے تاب و بے چین رہنا۔ ہر دلعزیز اور مضطرب و بے تاب رہنا ایسی صفات ہیں، جو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک بڑی تعداد لوگوں کی پسندیدہ اور ہر دلعزیز شخصیت ہو، لیکن وہ عملی میدان میں اس بے چینی اور بے تابی سے محروم ہوتی ہے، جو کامیاب انسان کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ ہر دلعزیز بننے کے لئے اخلاق حسنہ کا مالک ہونا ضروری ہے اور مقصد و ہدف کے لئے بے چین و مضطرب رہنا ایک ایسے ویژن اور نظریئے سے منسلک ہونا ہے، جس میں ہلاکت سے بچنے کے لئے آنے والے دن کو ماضی کے گزرے ہوئے دن سے بہتر ہونا لازمی ہے۔

یہ بے چینی و بے تابی بلکہ منزل تک رسائی کی تڑپ، منزل کی معرفت و آشنائی کے بغیر ممکن نہیں۔ شہید علی ناصر کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جس فرد کے اندر اس بے تابی کی معمولی سے جھلک بھی محسوس کرتے تھے، اسے بہت جلد اپنا نظریاتی ہمسفر بنا لیتے تھے۔ ان کے اندر اپنے امور کے حوالے سے انتہاء درجے کی کمٹمنٹ پائی جاتی تھی۔ وہ فریضہ شناسی میں اپنی مثال آپ تھے۔ وہ ایک جگہ پر رکنے کے بھی قائل نہ تھے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش ان کی باڈی لینگوئج سے عیاں رہتی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بعض ایسی کامیابیاں حاصل کی تھیں کہ ان کے دوست ان سے یہی کہتے تھے کہ آپ نے اپنا فریضہ انجام دے دیا ہے، اب اس شعبے کو عارضی طور پر ہی سہی، خیر باد کہہ دیں، لیکن ان پر کام کا جنون سوار ہوتا، وہ اپنے ساتھیوں کو بھی عجلت اور سرعت سے آگے بڑھنے کی تلقین کرتے تھے۔ ان کے کئی دوستوں کی ان کے بارے میں یہ متفقہ رائے تھی کہ وہ کسی ایک منزل پر رکنے پر یقین نہیں رکھتے تھے، وہ ہر منزل کو آنے والی منزل کا زینہ اور مرحلہ سمجھتے تھے۔ ان کی کیفیات ساحل پر پہنچنے کے بعد ایک اور تلاطم خیز سمندر میں اترنے کی خواہش ہوتی تھی۔

مجھے تو علامہ اقبال کے ان اشعار کی تصویر نظر آتے تھے:
تو رہ نورد شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تُند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صَنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز! گرمیِ محفل نہ کر قبول
صُبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جِبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دِل نہ کر قبول
باطل دُوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شِرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!

شہید علی ناصر صفوی کے اندر ایک بجلی بھری ہوئی تھی، وہ اپنی ملی سرگرمیوں میں اس قدر کھو جاتے کہ بعض اوقات انہیں اس فیز سے نکالنے کے لئے کئی جتن کرنے پڑے۔ وہ گھر، خاندان اور اپنے عزیز ترین افراد کی محبتوں اور الفتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے فریضے کو اس عارف حق کی ریاضت کی طرح انجام دیتے تھے، جو اپنے پیر فغان اور اپنی مراد تک پہچنے کے لئے سیر و سلوک کے دشوار گزار مرحلوں کو عبور کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہے۔

شہید علی ناصر چونکہ مکتب محمد و آل محمد کے پیرو تھے، لہذا ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ ان کے امور میں ابلبیت علیہم السلام کا رنگ نظر آئے۔ ایثار و قربانی اور دوسروں کے لئے خدمت کا جذبہ انہیں اپنے تمام دوستوں سے ممتاز کرتا تھا، اپنی انتہائی متحرک زندگی میں دوستوں کی غمی و شادی میں بھی شریک رہنا، دوستوں کو اس بات کی توقع ہی نہ ہوتی اور وہ دشوار ترین حالات میں ان کا غم تقسیم کرنے یا خوشی میں شریک ہونے کے لئے ان کے پاس پہنچ جاتے۔ شہید علی ناصر کا ایک کام یہ تھا کہ وہ اپنے دوستوں کے دوستوں اور عزیز و اقارب میں یوں گل مل جاتے کہ وہ انہیں اجنبی محسوس نہیں کرتے تھے۔ دوستوں کے بچوں اور بھائیوں کے ساتھ شہید علی ناصر کا رویہ اتنا مثاثر کن ہوتا کہ تادیر ان کی محفلوں میں ان کا ذکر رہتا۔

شہید علی ناصر دوستوں میں ہنس مکھ اور کبھی کبھار کسی حد تک شوخ مزاج اور حاضر جواب فرد کے طور پر ظاہر ہوتے اور ہنسی مذاق میں طنز و مزاح کے ایسے تیر ارسال کرتے کہ سب کو لاجواب کر دیتے۔ البتہ شہید علی ناصر کی تنہائیوں اور خلوتوں سے بہت کم دوست آشنا تھے۔ اپنے سب سے عزیز دوست و مربی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے جنازے پر ضبط کا مضبوط پہاڑ بن کر آنسووں کے ساتھ نہ رونے والا علی ناصر بعض اوقات تنہائیوں میں ہچکیوں کے ساتھ روتا۔ ان کے آنسو انکے مقصد کے لئے ہوتے، وہ جس سرعت سے منزل مقصود تک پہنچنے کا خواہش مند ہوتے، جب اپنے اور غیر سستی اور کوتاہی یا بے وفائی و بے مروتی کا مظاہرہ کرتے تو ان تمام بے مروتیوں و بے وفائیوں کا وہ عالم تنہائی میں اپنے آنسووں سے ازالہ کرتے۔

ایک ہر دلعزیز دوست کی حیثیت سے ان کی جدائی نے سب کی آنکھوں کو پرنم اور دلوں کو مغموم کیا ہے۔ آج انیسویں برسی بھی ان کی پہلی برسی محسوس ہو رہی ہے۔ ان کی یادوں کے اجالے زندگی کی سرد و دشوار شاموں میں ایک دیئے کی مانند ہیں۔ جب بھی ان کی یاد کے زخم بھرنے لگتے ہیں، ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ ایک مانوس اجنبی کی طرح دوستوں کی زندگی میں آئے اور اپنی محبت و الفت کا رنگ دکھا کر نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ شہید علی ناصر صفوی کی ہردلعزیزی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے دوست آج بھی خوشی کی رت ہو یا غم کا موسم ہو، انہیں اپنے اردگرد محسوس کرتے ہیں۔ کوئی انہیں بوئے گل کہتا ہے، کوئی انہیں نغمہ جاں اور کوئی انہیں ایسی زندہ و تابندہ روح سے تشبیہ دیتا ہے، جو روشن ستارہ بن کر فکر و ذہن کو منور کرتے رہتے ہیں۔ شہید علی ناصر ایسے ہر دلعزیز تھے، جس کی نقشہ کشی شاعر نے ان الفاظ میں کی ہے۔
وہ ہجر کی رات کا ستارہ
وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
صدا رہے اسکا نام پیارا
سنا ہے کل رات مر گیا ہے


شہید علی ناصر ایک ایسے ہر دلعزیز دوست تھے، جو آنکھوں سے اوجھل ہوگئے لیکن دل سے اتر نہیں سکے۔ وہ شہید ہیں اور شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ اپنے ہردلعزیز دوست کے بارے میں لکھی شکستہ تحریر کو ایک آزاد نظم سے ختم کرتا ہوں۔
یوں تو سب کچھ ہے میرے پاس
مگر تیرے بغیر
چھید اک سینہ دل میں ہے مرے
ساری خوشیاں مری
اور سب مرے مسرور خیال
دل میں جا کر کہیں کھو جاتے ہیں
جیسے آفاق پہ تاریک خلاء
کہکشاوں کو نگل لیتے ہیں
زندہ رہنے کو تری یاد کے گنجینے سے
چند سکے مجھے مل جاتے ہیں، بخشش جیسے
دل کا کشکول بھرا کرتے ہیں
لمحہ بھر کو کھٹک ہوتی ہے
ایک دن اور گزر جاتا ہے
خبر کا کوڈ : 829025
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
ہردلعزیز دوست کی یاد کے زخم ہرے ہوگئے۔ خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور لکھنے والے کے زور قلم میں اور اضافہ ہو۔ خلوص جھلک رہا ھے تحریر میں۔
ہماری پیشکش