1
Tuesday 14 Jan 2020 11:30

جنت میں شہداء سے ملاقات

جنت میں شہداء سے ملاقات
کلام: میر سجاد میر
انتخاب: توقیر کھرل

ساری جنت میں رسولِ عربی لکھا ہے
ڈالی ڈالی پہ علی اور ولی لکھا ہے
سبز پتوں پہ حسن اور کلی پر زہراء
سرخ پھولوں پہ حُسین ابن علی لکھا ہے

دوستوں ایک دن چشم تصور سے میں وادی جنت پہنچ گیا، میں جنت کے کسی ایسے رستے پر چل رہا تھا، جہاں دور دور تک کوئی نہ تھا، اس رستے کے دونوں طرف بہت اونچے اونچے درخت لگے ہوئے تھے، ٹھنڈی ہوائیں میرے چہرے سے ٹکرا رہی تھیں اور میں اپنی مستی میں مست "نہ پوچھیئے کہ کیا حُسین ہے" گنگنا رہا تھا۔ درختوں کے سوکھے پتوں کی سرسراہٹ کی آواز دادا بن کر سنائی دے رہی تھی، ایسی خاموشی کہ کلیوں کا چٹخنا گویا نعرہ حیدری سے کم نہ تھا اور میں بڑی بے نیازی کے ساتھ اس رستہ پہ چل رہا تھا کہ اچانک ایک خوبصورت محل نظر آیا، جس پر "کوچہ شہداء" لکھا ہوا تھا۔ میں خرامہ خرامہ اس محل کے دروازے کی طرف بڑھا۔ ابھی میرا ایک پاوں محل کے اندر اور ایک پاوں کے باہر تھا کہ کسی شخص نے بڑھ کر انتہائی شفقت کے ساتھ میرا ہاتھ تھام لیا۔ میں نے حضرت سے رُک کر پوچھا آپ کون؟ تو کہنے لگے میں ہابیل آدم کا بیٹا، اس دنیا کا پہلا شہید آئو میں تمہیں جنت کے شہداء سے ملواتا ہوں۔

 اس محل میں مجھے بہت سے انبیاء کے ناصرین نظر آئے، جو اپنے اپنے زمانے کے شہید تھے۔ مجھے ان کی زبانوں سے آگاہی اور آشنائی تو نہ تھی، لیکن چہرے کا سکون دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ یہ لوگ یہاں بہت خوش ہیں۔ دوستوں مجھے چلتے چلتے یوں محسوس ہوا کہ کوئی شخص انتہائی خوبصورت پروں کے ساتھ اس محل میں پرواز کر رہا ہے، ان پروں پہ ہذا من فضل رسولِ عربی لکھا ہے۔ میں نے ہابیل سے پوچھا یہ کون ہیں تو کہنے لگے یہ جناب جعفر طیار ہیں، خدا نے ان کو ان کے ہاتھوں کے بدلے یہ جواہراتی پر عطا کئے ہیں اور یہ انہی سے پرواز کرتے ہیں۔ وہاں عرب و عجم اور دیگر ممالک کے شہداء سے ملاقات ہوئی، جن میں باقر الصدر، شیخ  النمر، محسن حجی، باقر الحکیم جیسی معروف شخصیات بھی موجود تھیں۔ فقہاء، علماء، مجتہدین، شعراء، خطباء اور زائرین امام حسین کا حسِین گلدستہ نظر آیا، جو امام حسین کے عشق میں اسی جہاں میں شہید کر دیئے گئے۔

ہابیل نے اشارے سے کہا وہ دیکھو، شہید اول بھی بیٹھے ہوئے ہیں، تھوڑا سا آگے بڑھا تو مجھے اردو سنائی دینے لگی، یوں لگا جیسا اپنے محلے میں آگیا۔ ذرا آگے بڑھا تو محسن نقوی اور علامہ ناصر عباس نظر آئے، جو علامہ عرفان حیدر عابدی کی باتیں کر رہے تھے۔ اُن سے ذرا اور نزدیک ہوا تو استاد سبط جعفر نظر آئے، وہ یہاں کی طرح وہاں بھی اکیلے نہ تھے، ارد گرد ایک ہجوم اکٹھا کئے ہوئے تھے اور فنون سوز خوانی پر درس دے رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو مسکرانے لگے اور اپنے پاس بلایا۔ قریب گیا تو ہنس کر کہنے لگے ابے کب تک بے سرا پڑھتے رہو گے، امتیاز کے ساتھ بیٹھا کر، آس لگایا کر، کچھ بہتری آئے گی۔ پھر کہنے لگے ابے چھوڑ تُو تو شاعر ہے، شاعری پر توجہ دے، وہ ضروری ہے۔ ابے اتنے منقبت خواں پوری جنت میں نہیں ہیں، جتنے تمہارے جعفر طیار میں ہیں۔ پھر اشارے سے کہنے لگے، وہ دیکھو پروفیسر صاحب بھی ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے دیکھا تو پروفیسر تقی ہادی مسکراتے ہوئے اسی شیروانی میں ملبوس نظر آئے، جس میں وہ اکثر نظر آتے تھے۔

 اُن کے ساتھ ہی ڈاکٹر محمد علی نقوی، ڈاکٹر حیدر، محرم علی، حسن ترابی، علامہ ضیاء الدین، اکبر کمیلی، عسکری رضا، علی رضا عابدی، عارف الحسینی، خرم ذکی، ڈائریکٹر پی ٹی وی عون محمد رضوی وغیرہ جیسی مذہبی و سماجی شخصیات نظر آئیں۔ میں ان تمام شخصیات سے احوال پرسی میں مصروف تھا کہ میرے کانوں میں حق سچے کی آواز آئی، میں نے مڑ کر دیکھا تو آصف کربلائی نظر آئے، آصف کربلائی کو دیکھا تو شہید عون شاہ کا خیال آیا، ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ایک اور آواز آئی میر صاحب ! میں نے دیکھا تو کہنے لگے، سید یہاں آجاو، میں عون شاہ کے پاس جانے لگا تو مجھے دور دور تک ہزارہ برادری کے شہید دکھائی دیئے۔ ایسا لگا کہ علمدار روڈ سے گزر رہا ہوں۔ میں وہاں جا کر بیٹھا تو تھوڑی دیر میں رضویہ اور ایف سی ایریا کے نوجوان شہید بھی نظر آگئے، پھر تو وہ نظر لگے کہ شام قلندر کا سماع بن گیا۔

میں نے محسوس کیا کہ اس  محل میں کچھ ایسے نوجوان بھی تھے، جن کا حلیہ دوسرے شہداء سے الگ تھا، وہ سیاہ لباس پہنے ہوئے تھے اور ان کے ماتھے اور بازووں پر سرخ پٹی بندھی ہوئی تھی، جن پر لبیک یاحسین لکھا تھا، میں نے ہابیل سے ہوچھا یہ کون لوگ ہیں تو کہنے لگے یہ شہداء  مدافعین حرم ہیں، وہ لوگ کسی خاص ملک یا کسی خاص زبان کے نہ تھے، بلکہ ہر قوم اور ہر زبان کے لوگ تھے۔ دل خوش ہوگیا کہ جب ان میں اپنے پاکستانی بھائیوں کو دیکھا تو سر فخر سے بلند ہوگیا اور بے ساختہ زبان پر ایک مصرعہ آگیا "جیتے رہو شبیر کے مرنے والوں۔" ابھی میں ان کو دیکھ ہی رہا تھا کہ یکسر تمام شہداء اپنے اپنے مقامات سے کھڑے ہوگئے اور ایک آواز بلند ہوئی، سید الشہداء امام حسین تشریف لاتے ہیں، اب جو دیکھا تو امام حسین اپنے 72 ناصرین کے ساتھ وارد محل ہوئے، اس جلو س میں علم کی بجائے حضرت عباس خود آگے آگے چلتے نظر آئے، حضرت کا محل میں آنا تھا کہ محل میں سکوت طاری ہوگیا۔

پردے میں سے ایک طشت برآمد ہوا، اس طشت میں وہی خوبصورت پٹی رکھی ہوئی تھی، جس پر "لبیک یاحسین" لکھا ہوا تھا، سب انتظار میں تھے کہ آخر یہ طشت کس کے لئے منگوایا گیا ہے، وہ کون نیا مہمان ہے، جو جنت میں آیا ہے۔ اچانک راستہ بنایا گیا تو دیکھا مالک اشتر، شہید قاسم سلیمانی کا بازو تھام کر انتہائی رشک کے ساتھ امام حسین کی جانب بڑھ رہے ہیں، قاسم سلیمانی مالک کے ساتھ نوکر کی طرح چلتے نطر آئے۔ استاد نے مجھ سے کہا یہ طشت میں رکھا ہوا تحفہ کہاں سے آتا ہے، میں نے کہا مجھے نہیں پتہ، تو کہنے لگے یہ امام حسین کی بڑی بہن "زینب" خود اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی ہیں، شہیدوں کا یہ مرتبہ دیکھ کر میری آنکھوں کے آنسو نہ رکتے تھے اور میں نے اسی عالم میں ایک شعر کہا اور فانی دنیا میں لوٹ آیا:
سجاد کہہ رہے ہیں شہیدان راہ حق
ہم شاہ پہ مرگئے ہیں لیکن خیریت سے ہیں
خبر کا کوڈ : 838336
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش