0
Tuesday 10 Mar 2020 12:22

عورت مارچ، پاکستان کی فکری و نظریاتی اساس پر حملہ

عورت مارچ، پاکستان کی فکری و نظریاتی اساس پر حملہ
تحریر: تصور حسین شہزاد

خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے 8 مارچ کو لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں مختلف این جی اوز کی جانب سے ’’عورت مارچ‘‘ کے عنوان سے ریلیاں ہوئیں۔ یہ ریلیاں تو لاہور سمیت دیگر شہروں میں کئی برسوں سے نکل رہی تھیں، مگر اچانک 2018ء میں ان ریلیوں نے متنازع نعروں کے باعث شہرت حاصل کر لی۔ 2018ء سے قبل مارچ کرنیوالی خواتین اعتراف کرتی ہیں کہ انہوں نے یہ مارچ خواتین کے جائز حقوق کیلئے شروع کیا تھا اور اسلامی و معاشرتی حدود و قیود میں رہ کر وہ اپنے مطالبات تسلیم کئے جانے کا مطالبہ کر رہی تھیں، مگر 2018ء میں چند لبرل خواتین جو غیر ملکی این جی اوز کی پروردہ ہیں، نے اس مارچ کو ہائی جیک کر لیا اور اسے متنازع بنا ڈالا۔

اس مارچ کے متنازع نعروں کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں بھی درخواست دی گئی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ عدالت اس مارچ کے منتظمین کو متنازع اور غیر اسلامی نعروں سے روکے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ مارچ کے منتظمین مارچ کے انعقاد کیلئے ضلعی حکومت سے اجازت لیں، جبکہ عدالت نے واضح ہدایت کی کہ مارچ میں غیر اسلامی و غیر اخلاقی نعروں پر مبنی پلے کارڈز شامل نہ کئے جائیں۔  واضح عدالتی احکامات کے باوجود عورت مارچ میں متنازع نعروں کے بینرز شامل کئے گئے۔ جن میں ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ لو بیٹھ  گئی سیدھی ہو کے‘‘ مجھے حیا کا سبق پڑھانے سے پہلے اپنی سرچ ہسٹری دیکھو‘‘ پدر شاہی نامنظور‘‘ مردانہ کمزوری اینڈ آف سٹوری‘‘ قاری صاحب، چار شادیوں کے بعد بچوں کی جان چھوڑ دو‘‘ اس کے علاوہ کچھ نعرے اتنے غیر مہذبانہ تھے کہ یہاں احاطہ تحریر میں بھی نہیں لائے جا سکتے۔

جب مارچ کرنیوالی ان خواتین سے پوچھا گیا کہ آپ نعرہ لگا رہی ہیں کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اس پر ان کے پاس کوئی مدلل جواب نہیں تھا، بس آئیں بائیں شائیں کرتی رہیں۔ وہ آپ غلط سمجھ رہے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ میرا جسم ہے، اس آزادی دو، میرا جسم ہے، اسے میری مرضی سے بیاہو، گائے بکری کی طرح کم عمری میں میری ’’مہار‘‘ کسی 70 برس کے بابے کے ہاتھ میں نہ پکڑا دو، اس کا مطلب ہے میرا وجود ونی نہ کرو، مجھے ’’کالی‘‘ نہ کرو، وغیرہ وغیرہ۔ جب راقم نے ایک عورت سے پوچھا کہ یہ ’’ونی‘‘ کیا ہوتا ہے؟ تو اس کے پاس اِس کا کوئی جواب نہیں تھا، پھر کافی سوچنے کے بعد بولی، ونی سندھ کی ایک رسم ہے، جس میں عورت کو مار دیا جاتا ہے۔ راقم نے پوچھا تو ’’کالی‘‘ کیا ہے؟ اس پر بھی اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، اس مارچ کی شرکاء کے پاس عام عورت کے مسائل کے حوالے سے کوئی ایجنڈا نہیں تھا۔ ایجنڈا تھا تو صرف اسلامی معاشرے کیخلاف تھا، ایجنڈا تھا تو ہماری معاشرتی اقدار کے خاتمے کا تھا، ایجنڈا تھا تو خاندانی نظام کی تباہی تھا، ایجنڈا تھا تو مادر پدر آزادی تھا۔

اس مارچ کے حامی مجھے صرف ایک اس نعرے کا مطلب بتا دیں، جس میں کہا گیا تھا کہ ’’پدر شاہی نامنظور‘‘ کیا والد ظالم ہوتا ہے؟، جو اپنی پوری زندگی اپنی بیٹی کیلئے وقف کر دیتا ہے، جو اُسے اچھے کپڑے دینے کیلئے خود پھٹی پرانی قیض پر گزارا کر لیتا ہے، جو بیٹی کی خوشیوں کیلئے اپنے وجود کو گروی رکھ دیتا ہے، جو باپ اپنی تمام خواہشوں کا خون کرکے اپنی بیٹی کیلئے آسائشیں ڈھونڈ لاتا ہے، جو باپ خود بھوکا رہتا ہے مگر اپنی بیٹی کیلئے روز کچھ نہ کچھ کھانے کیلئے بازار سے ضرور لاتا ہے، وہ باپ جو اس کا سب سے بڑا ’’سکیورٹی گارڈ‘‘ ہوتا ہے، وہ باپ جو اس کے سر پر سایہ ہوتا، اس کے دکھوں اور غموں کے سامنے ڈھال ہوتا ہے، یہ اُس باپ سے آزادی مانگ رہی ہیں؟؟ پھر یہاں یہ سوال بھی سر اُٹھاتا ہے کہ یہ سارا زور صرف پاکستان میں ہی کیوں؟؟ کیا انڈیا کی عورت پاکستانی عورت سے زیادہ بدتر حالت میں نہیں؟ وہاں جنسی زیادتی کے واقعات پوری دنیا سے زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں، وہاں استحصال سب سے زیادہ ہے، یہی عورت یورپ کے متعدد ممالک میں عدم تحفظ کا شکار ہے، لیکن ایسے مارچ اور ایسے مطالبے وہاں کیوں نہیں ہوتے۔؟؟

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان قوتوں کا نشانہ پاکستانی عورت کے مسائل نہیں، بلکہ پاکستان اور اس کی معاشرتی و مذہبی اقدار ہیں۔ یہ پاکستانی معاشرے کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں، یہ پاکستان کی انمول عورت کو بازار کی زینت بنانا چاہتے ہیں۔ یہ عورت کو گمراہی کے اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ ہماری عورت کو ان جنسی درندوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، جو عورت کی آزادی کی آڑ میں عورت تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں عورت رات گئے جہاں مرضی پھرتی رہے، جس کے ساتھ مرضی پھرتی رہے، باپ یا بھائی یا شوہر یہ سوال نہ کرے کہ کہاں تھیں؟ ایسی عورت پھر عورت نہیں رہتی آوارہ کہلاتی ہے، اور آوارہ عورتوں کی عزت نہیں ہوتی۔ یہ این جی اوز کی لبرل آنٹیاں جو دو تین روز کیلئے ہی پاکستان آتی ہیں، مارچ میں اُوٹ پٹانگ نعرے لگواتی ہیں، عورت کو گمراہ کرتی ہیں اور خود بیرون ملک اپنے آقاؤں کی گود میں جا کر بیٹھ جاتی ہیں۔

لاہور میں ہونیوالے عورت مارچ میں کچھ خواتین نے ہیٹ پہن رکھے تھے جن پر ’’پیڈ‘‘ لٹکا رکھے تھے۔ کیا اس مارچ کی منتظمین یہ بتائیں گے کہ اس خالص خواتین کی پروڈکٹ جو ماہواری کیلئے وہ پیڈ استعمال کرتی ہیں، ان کا ان کے حقوق سے کیا تعلق ہے؟؟ یہ وہ چند خواتین تھیں جو بیرون ملک سے این جی اوز کے نام سے پیسے بٹورتی ہیں، ان کے ایجنڈے پر کام کرتی ہیں، پاکستانی عورت کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتی ہیں اور نکل جاتی ہیں۔ اس مارچ میں، میں ایسی بہت سے خواتین کو جانتا ہوں جو منشیات استعمال کرتی ہیں، عیاشی و فحاشی و عریانی میں ان کا کوئی ثانی نہیں، وہ ہر حوالے سے آزاد و خودمختار ہیں، وہ بھی ’’ہمیں آزادی دو‘‘ کے نعرے لگا رہی ہیں، کیا وہ بتائیں گی کہ انہیں اب سے مزید کیا آزادی چاہیئے۔ یہ اسلامی اقدار کو پامال کرنے کا ایک حربہ ہے، یہ مارچ پاکستانی عورت کو عریانی کے جنگل میں دھکیلنے کی سازش ہے۔ جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اس سال مذہبی جماعتوں نے اس مارچ کی حساسیت کو محسوس کیا ہے، علماء نے اس کی مذمت اور اس کے خطرناک نتائج سے عوام میں آگاہی دی ہیں، خود باپردہ خواتین بھی میدان میں آئی ہیں، اور انہوں نے ان لبرل اور مذہب بیزار خواتین سے اظہار نفرت کیا ہے، یہ اقدام حوصلہ افزا ہے کہ ہماری خواتین بیدار ہیں۔ وہ اپنے خلاف ہونیوالی سازشوں کا ادراک رکھتی ہیں۔ مگر اس معاملے  میں حکومتِ پاکستان کی خاموشی معنی خیز ہے، اس حوالے سے حکومت کو واضح پالیسی دینا ہوگی، بصورت دیگر یہ عفریت ہماری عورت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں چھوڑے گا نہیں، کیونکہ غیر ملکی فنڈنگ جب تک رگے کی نہیں، یہ مذہب بیزار طبقہ باز نہیں آئے گا۔
خبر کا کوڈ : 849458
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش